بلوچستان کے پشتون علاقوں میں آج مکمل ہڑتال رہی۔ بازار اور کاروبار بند رہے اور سڑکوں پر بہت کم ٹریفک دیکھنے کو ملی۔ یہ ہڑتال گزشتہ روز لورالائی میں پولیس تشدد میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما ابراہیم ارمان لونی کی ہلاکت پر احتجاج کے لئے کی گئی تھی۔ پولیس کا موقف ہے کہ ارمان لونی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے جبکہ اہل خاندان اور دیگر گواہوں کا کہنا ہے کہ انہیں ایک دھرنا کے دوران پولیس تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ارمان لونی کا تعلق پی ٹی ایم سے تھا اور اس تحریک کی اہم قیادت نے سیکورٹی فورسز کی ہر ممکن کوشش کے باوجود قلعہ سیف اللہ میں ارمان لونی کے جنازہ میں شرکت کی تھی تاہم آج کی ہڑتال کی کال پختون خوا ملی عوامی پارٹی کی طرف سے دی گئی تھی جس کی حمایت بلوچستان کی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی کی تھی۔ منظور پشتین سمیت پشتون تحفظ موومنٹ کی سارے قائد نماز جنازہ کے بعد اپنے علاقوں کو واپس چلے گئے تھے۔ تحریک کی قیادت نے تین روز کے بعد اس حوالے سے حکمت عملی یا احتجاج کی پالیسی کا اعلان کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صورت حال سے نمٹنے کے لئے بلوچستان کی حکومت نے کوئٹہ اور ڑوب ڈویڑن میں دفعہ 144 کے تحت چار یا چار سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد کر دی ہے۔
صوبائی حکومت کے ایک اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ ژوب لورالائی ڈویژن میں پندرہ روز تک کسی بھی قسم کے آتشیں اسلحے کی نمائش یا استعمال، جلسے جلوس، دھرنوں، پر پابندی ہوگی۔ صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا لانگو نے میڈیا کو بتایا ہے کہ پرامن احتجاج ہر شہر ی کا حق ہے لیکن حالات خراب کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’صوبے کے کسی بھی علاقے میں کوئی نا خوشگوار واقعہ نہیں ہوا اور حالات مکمل طور پر انتظامیہ کے قابو میں ہیں‘۔
تاہم صوبائی وزیر نے یہ اضافہ کرنے سے گریز کیا ہے کہ کسی نے بھی امن و امان خراب کرنے کی کوشش نہیں کی۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے لیڈروں نے اپنے ساتھی کی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے پابندی کے اعلانات کے باوجود قلعہ سیف اللہ پہنچے۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی سرکاری اختیار کو چیلنج کرنے یا اس علاقے میں نماز جنازہ کے اس تاریخی اور سب سے بڑے اجتماع کو مشتعل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
دیانت داری کا تقاضہ تھا کہ صوبائی حکومت امن و امان قائم کرنے کو اپنا کارنامہ بتانے کی بجائے، اس حقیقت کا اعتراف کرتی کہ پشتون تحفظ موومنٹ نے حالات کو خراب کرنے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ صوبائی حکام نے گزشتہ روز ایک اعلامیہ میں قومی اسمبلی کے اراکین محسن داوڑ اور علی وزیر سمیت پی ٹی ایم کے سینکڑوں لوگوں کو صوبے میں داخل ہونے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی اور اس کی یہ وجہ بتائی گئی تھی کہ اس سے امن و امان خراب ہونے کا خطرہ ہے۔ جب یہ اندیشہ غلط ثابت ہوا تو صوبائی وزیر داخلہ کو اس کا اعتراف کرنے کے علاوہ متاثرہ جماعت اور خاندان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا کہ انہوں نے ایک ساتھی اور بھائی و بیٹے کے جاں بحق ہونے کے باوجود قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کیا ہے۔
یہ آسان کام نہیں تھا۔ ملک کی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ سیاسی لیڈر اپنی سیاست چمکانے کے لئے کارکنوں کو خطرات سے دوچار کرواتے ہیں اور کسی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں لوگوں کو اشتعال دلا کر احتجاج منظم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم ارمان لونی کے جاں بحق ہونے کے بعد ان کی بہن وڑانگہ لونی نے کل ہی عوام سے اپیل کی تھی کہ ’وہ امن و امان کا مسئلہ پیدا نہ کریں۔ پشتون تحفظ موومنٹ کی قیادت مستقبل کی حکمت عملی کا فیصلہ کرے گی‘۔
پولیس کے قبضے سے بھائی کی میت کو گھر لے جاتے ہوئے اس قسم کی حوصلہ مندانہ گفتگو کرنا اس خاندان اور پی ٹی ایم کی امن دوستی اور قانون کے احترام کی روشن مثال ہے۔ جس طرح ارمان لونی کے خاندان اور پشتون تحفظ موومنٹ کی نوجوان قیادت نے اس موقع پر صبر و حوصلہ کا مظاہرہ کیا ہے، صوبائی حکومت اور وزیر داخلہ کو بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا اعتراف کرنا چاہیے تھا۔
اس بات میں شبہ کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے کہ اس موقع پر اگر پی ٹی ایم کی قیادت چاہتی تو حالات دگرگوں ہو سکتے تھے اور صوبائی حکومت اپنے دعوو?ں کے باوصف صورت حال پر قابو نہیں پا سکتی تھی۔ تاہم بلوچستان یا ملک کی قیادت کی جانب سے اس وسیع الظرفی کا مظاہرہ سامنے نہیں آیا۔ یہ رویہ حکومتوں کے خوف کا مظہر ہے اور اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ملک اور صوبے کی سول قیادت اس معاملہ پر زبان کھولنے سے خوفزدہ ہے۔ یہ معاملہ سیکورٹی فورسز کا شعبہ سمجھ کر چپ سادھ لی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم سمیت کسی حکومتی نمائیندے کی طرف سے اس سانحہ پر کسی قسم کا افسوس یا مذمت کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
ایک لمحہ کے لئے یہ مان بھی لیا جائے کہ ارمان لونی پولیس تشدد کی وجہ سے جاں بحق نہیں ہوئے بلکہ پولیس کا یہ بیان درست ہے کہ پولیس کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہیں دل کا دورہ پڑا اور پولیس انہیں فوری طور سے امراض قلب کے ہسپتال لے گئی لیکن شومئی قسمت کی وہ جان بر نہ ہوسکے۔ ایسی صورت میں کیا صوبے کے وزیر اعلیٰ اور ملک کے وزیر اعظم پر یہ لازم نہیں تھا کہ وہ پشتون علاقوں سے ابھرنے والی نوجوانوں کی ایک مقبول اور منظم تحریک کے ایک نوجوان لیڈر، شاعر اور استاد کی اچانک رحلت پر افسوس کا اظہار کرتے اور ان کی نماز جنازہ میں سیاسی اور حکومتی نمائیندے روانہ کیے جاتے؟
اس کے برعکس وزیر اعظم سمیت تحریک انصاف کی پوری قیادت کی طرف سے جو مجرمانہ خاموشی اختیار کی گئی ہے، وہ ان کی بے حسی سے زیادہ کم ہمتی کی کہانی بیان کرتی ہے۔ یہ کہانی اس ملک میں منتخب سول قیادت کی بے اختیاری اور بے بسی کی داستان بھی ہے۔ بلوچستان میں عوامی حقوق کی آواز اٹھانے والوں کو خاموش کروانے کے لئے اگر ظلم کی داستان 70 برس پر محیط ہے تو ملک کی عسکری قیادت کی طرف سے سول لیڈروں کے حق و اختیار کو سلب کرنے کا سانحہ بھی اتنی ہی مدت سے وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ گویا ’حیراں ہوں دل کو روﺅں کہ پیٹوں جگر کو میں‘ والا معاملہ ہے۔
ملک میں اس وقت عوام حکمرانی میں نئے پاکستان کی بنیادیں رکھنے کے علاوہ آزادی رائے کا غلغلہ ہے۔ گو کہ صحافت اور اظہار رائے کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے بیشتر لوگ بار بار یہ بتانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اس وقت ملک میں آزادی رائے کو سلب کرنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی سے کام لیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر ہو یا وزیر اطلاعات کی میڈیا گفتگو، عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان کا میڈیا دنیا میں آزاد ترین میڈیا ہے اور حکومت اس آزادی کا تحفظ کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ تاہم ارمان لونی کے انتقال اور کل اس کی نماز جنازہ کے عظیم الشان اجتماع کے علاوہ آج بلوچستان میں وسیع پیمانے پر ہونے والی ہڑتال کے بارے میں قومی میڈیا کے منہ پر جیسے تالے لگے دیکھے گئے، اس سے ملک میں آزاد رائے اور خبروں کی غیر جانبدارانہ ترسیل کے ڈھونگ کا پول پوری طرح سے کھل گیا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی ایک نسبتاً نئی تنظیم جو ایک محدود سماجی ایجنڈے اور بنیادی انسانی حقوق کے چند مطالبات کے لئے کام کررہی ہے، آخر ملک کی سلامتی اور امن وامان کے لئے کتنا بڑا خطرہ ہے کہ ایک طرف حکومت مہر بہ لب ہے اور دوسری طرف پوری سرکاری مشینری اس خبر کی ترسیل رکوانے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔ ملکی میڈیا کا بازو مروڑ کر اسے خاموش رہنے پر مجبور کردیا گیا۔ اس واقعہ پر کوئی رائے، تبصرہ یا تجزیہ تو کجا، اس کی واقعاتی خبر کو بھی عوام کے لئے مہلک اور گمراہ کن سمجھا جارہا ہے۔
یہ فیصلہ کرنے والے اور اس فیصلہ کو مان کر اس پر عمل کرنے اور کروانے والے ہمہ قسم عناصر کو خواہ وہ عسکری اداروں سے متعلق ہوں یا حکومت اور میڈیا کے ذمہ داروں میں شمار ہوتے ہوں، ضرور اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے کہ اس طرز عمل سے وہ عوام اور ریاست کے بیچ کون سا رشتہ مضبوط و مستحکم کرنے کا کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں۔
آزادانہ دل کی بات کہنے اور اختلاف بیان کرنے سے کسی بھی معاشرہ میں صحت مند مکالمہ کا ماحول پیدا ہوتا ہے جو انسانوں کو باہم مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ کرنے کا سبق سکھاتا ہے۔ پاکستان میں اس ماحول کو ختم کرکے کون سے قومی ایجنڈے کی تکمیل کا کام ہوسکتا ہے؟ پشتون نوجوانوں کا جو گروہ قانون پسندی اور امن قائم رکھنے کی بات کرتا ہے، آخر کیا وجہ ہے کہ انہیں اشتعال دلانے، دھتکارنے اور ان کی آواز دبانے کو قومی مفاد کی بنیادی ضرورت سمجھ لیا گیا ہے؟ ریاست یہ ہتھکنڈے پاکستان میں آزمائے یا کسی دوسرے ملک میں ان پر عمل کیا جائے، اس کا کبھی کوئی مثبت اور خوشگوار نتیجہ سامنے نہیں آسکتا۔
5 فروری کو ملک بھر میں یوم یک جہتی کشمیر منایا جائے گا۔ یہ دن منانے کا واحد مقصد دنیا کو یہ باور کروانا ہوتا ہے کہ بھارت جیسی نام نہاد جمہوریت میں کشمیریوں کو اپنی بات کہنے اور اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں دیا جاتا۔ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان اپنے ہی لوگوں کی آواز دبانے کی مذموم کوشش میں مصروف ہوگا تو کون سی دنیا، بنیادی انسانی حقوق کے لئے اس کے خلوص نیت پر اعتبار کرے گی؟
(بشکریہ: کار وان۔۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ