انتہا پسند گروہوں کے خلاف حکومت پاکستان کے اقدامات کے باوجود اس شبہ کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان واقعی ان گروہوں کو ختم کرنے کا مصمم ارادہ رکھتا ہے۔ حالانکہ وزیر اعظم عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ پاکستان نہ تو اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک میں حملہ کے لئے استعمال کرنے کی اجازت دے گا اور نہ یہ قبول کرے گا کہ کوئی دوسرا ملک پاکستان میں تخریب کاری کا سبب بنے۔ اس صورت احوال پر تفصیل سے غور کرنے اور یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ آخر پاکستانی حکومت پر عدم اعتبار کی وجہ کیا ہے۔
سب سے پہلے تو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے اور دوسرے ملکوں کو بھی یہی اصول اپنانے کا مشورہ دینے کے حوالے سے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اس بیان کا بنیادی ہدف بھارت اور افغانستان ہوتے ہیں۔ بھارت کو پاکستان سے شکایت رہتی ہے کہ پاکستان سے متحرک عسکری گروہوں نے نہ صرف یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں عسکریت پسندی اور فدائی حملوں کو فروغ دیا ہے بلکہ ان کے تیار کردہ دہشت گردوں نے بھارت میں بھی ہلاکت خیز کارروائیاں کی ہیں۔
ان میں نئی دہلی میں 2001 کا بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ اور پھر 2008 میں ممبئی پر حملہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حالیہ ماضی میں پٹھان کوٹ ایئر بیس اور اڑی فوجی کیمپ پر حملے بھی ہوئے ہیں۔ دراصل ان دو حملوں ہی نے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن و مفاہمت کی موہوم سی امید کو ختم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ اس لئے یہ پہلو بھی قابل غور ہوگا کہ اگر نام نہاد ’پاکستان دوست عناصر‘ ان حملوں کا سبب بنے تھے تو وہ پاکستان کے کون سے مفادات کا تحفظ کر رہے تھے۔
ان دو حملوں سے پہلے پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم کے طور پر نواز شریف نے 2014 میں نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شریک ہو کر سفارتی سرد مہری کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ جب کہ دسمبر 2015 میں روس سے واپس نئی دہلی جاتے ہوئے نریندر مودی اچانک لاہور رکے اور نواز شریف ے ملاقات کی۔ اس طرح دونوں ملک اعلیٰ سطح پر مذاکرات بحال کرنے پر آمادہ ہو گئے لیکن اس ملاقات کے ہفتہ بھر بعد ہی پٹھان کوٹ پر ہونے والے حملہ سے بد اعتمادی کی ایسی خلیج حائل ہوئی جو اب تک دونوں ملکوں کے درمیان دوری کی بلند دیوار بن چکی ہے۔ اس دیوار کو گرانے کی چھوٹی موٹی کوششیں کامیاب نہیں ہو رہیں۔ اس بد اعتمادی نے پلوامہ سانحہ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان فضائی تصادم اور جنگی حالات پیدا کرنے میں کردار ادا کیا۔ یہ تصادم امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی مداخلت کے باعث وقتی طور پر ٹل سکا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ بھارت نے افغانستان میں مقیم پاکستان دشمن اور بلوچستان کے قوم پرست عناصر کے ساتھ مراسم بڑھا کر انہیں پاکستان میں تخریب کاری کے لئے تیار کیا ہے اور بھارتی ایجنسیاں انہیں مسلسل مدد فراہم کرتی ہیں۔ اس سلسلہ میں اپریل 2017 میں بلوچستان سے ’را‘ کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف بھارت پلوامہ سے پہلے اڑی اور پٹھان کوٹ حملوں کو دہشت گردی کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے پاکستان پر ان عناصر کی سرپرستی کرنے کی ذمہ داری عائد کرتا رہا ہے جو سرحد پار دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں۔
اگرچہ پاکستان نے ہمیشہ ان الزامات سے انکار کیا ہے لیکن بھارت کی طرف سے شدت سے ان الزامات پر اصرار کیا جاتا ہے۔ پاکستان انہیں پہلے نریندر مودی کی انتہا پسندانہ ہندو وتا پالیسیوں کا نتیجہ کہتا رہا اور اب اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ اگلے ماہ منعقد ہونے والے انتخابات کی وجہ سے نئی دہلی میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی پاکستان کے خلاف جذبات کو جان بوجھ کر اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس صورت احوال میں یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ پاکستان پر دہشت گرد عناصر کی سرپرستی کا الزام صرف بھارت کی طرف سے عائد نہیں ہوتا، امریکہ کی طرف سے بھی یہی الزام لگایا جاتا ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا حالیہ دور شروع ہونے سے قبل امریکہ کے صدر ٹرمپ اور ان کی حکومت تسلسل سے پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کی سرپرستی کرنے کا الزام لگاتی رہی تھی جو اس کے بقول افغانستان میں امریکی ٹھکانوں پر حملوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ افغان حکومت بھی بھارتی الزامات کی تائد کرتے ہوئے افغانستان میں ہونے والے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرتی رہی ہے۔ صدر اشرف غنی برملا کہتے رہے ہیں کہ علاقے میں اس وقت تک امن ممکن نہیں ہے جب تک پاکستانی ایجنسیاں ہم سایہ ملکوں میں مداخلت کی پالیسی تبدیل نہیں کرتیں۔ یہ الزام کسی حد تک ایران کی طرف سے بھی عائد کیا جاتا ہے۔ گزشتہ ماہ جس وقت پلوامہ حملہ کے بعد بھارت دنیا بھر میں پاکستان کو بد نام کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اسی وقت ایران کی طرف سے سرحدی محافظوں پر ہونے والے ایک حملہ کا الزام پاکستان سے سرگرم ایک دہشت گرد گروہ پر عائد کرتے ہوئے دھمکی دی گئی تھی کہ اگر پاکستان نے ان عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی تو ایران خود ان کی سرکوبی کرے گا۔
معنوی اعتبار سے ایران بھی پاکستان پر وہی الزام عائد کر رہا تھا جو بھارت کا مؤقف تھا کہ عسکری جتھے پاکستان کی سرزمین سے ہمسایہ ملکوں میں کارروائی کرتے ہیں لیکن پاکستانی حکومت ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتی بلکہ انہیں کسی نہ کسی حد تک سرکاری سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ اور وہی دھمکی بھی دے رہا تھا جو بھارت کی طرف سے دی جاتی ہے کہ وہ خود پاکستان کی سرزمین پر اپنے خلاف سرگرم عناصر کو ختم کرنے کے لئے کارروائی کرے گا۔
تاہم ایران چونکہ امریکہ کی مخالفت اور مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کی پالیسیوں کا مد مقابل ہونے کی وجہ سے خود سفارتی تنہائی کا شکار ہے اور پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات کسی حد تک دوستانہ ہیں، اس لئے اس ایرانی الزام کو نہ تو اہمیت دی گئی اور نہ ہی پاکستان سمیت دنیا کے کسی ملک نے اس الزام کو سنجیدگی سے لیا۔ لیکن جب پاکستانی سرزمین سے ہمسایہ ملکوں پر حملوں کا جائزہ لیا جائے گا اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے گی کہ پاکستان کو اس وقت فنانشل ٹاسک فورس سے لے کر دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں کیوں شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے تو ایران کی شکایت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس پس منظر میں پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے نام زد کیے گئے کالعدم گروہوں کے خلاف اقدامات کرنے، ان کے اداروں اور درس گاہوں پر سرکاری کنٹرول بحال کرنے اور متعدد افراد کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ بی بی سی نے گزشتہ روز اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں یہ واضح کیا ہے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے اس قسم کے اعلانات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں لیکن وقت کے ساتھ متعلق گروہ کسی نہ کسی شکل میں دوربارہ متحرک ہو جاتے ہیں اور سرکاری کنٹرول میں لئے جانے والے مدارس، مساجد اور اداروں پر بھی ان کا قبضہ بحال ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ سرکاری کنٹرول کا اعلان کرنے کے باوجود حکومت ان اداروں میں عام کیے جانے والے پیغام کو تبدیل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ ملک کے سابق صدر اور نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ کے قریب ترین حلیف کا درجہ حاصل کرنے والے پرویز مشرف بھی اس قسم کے بیان دیتے رہے ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ملک کی اسٹبلشمنٹ میں موجود بعض عناصر کالعدم تنظیموں کے خلاف بعض ضرورتوں کے تحت کارروائی کرنے کا اعلان کرنے کے باوجود ان کی سرپرستی سے مکمل طور پر دست بردار نہیں ہوتے۔ اس لئے یہ سوال زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ اس بار پاکستان کا اعتبار کیوں کیا جائے۔ اس وقت کون سے عوامل اسلام آباد کو ماضی کے مقابلے میں مختلف فیصلے کرنے پر مجبور کر رہے ہیں؟
اس حوالے سے اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام آباد میں قائم موجودہ حکومت کو اسٹبلشمنٹ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ پاکستان میں ایک حلقہ کی یہ پختہ رائے ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے ہی تحریک انصاف کی حکومت بنوانے میں کردار ادا کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت کے خلاف بھی یہی اسٹبلشمنٹ متحرک تھی۔ اسی کے نتیجے میں ڈان لیکس جیسے اسکینڈل کے ذریعے نواز شریف کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی اور اسی وجہ سے انہیں ’مودی کا یار‘ جیسا الزام بھی دیا جاتا رہا۔ نواز شریف اور ان کے حامی تسلسل سے یہ کہتے رہے ہیں کہ انہیں اقتدار سے علاحدہ کرنے اور نیب کے ذریعے سزائیں دلوانے میں اسٹبلشمنٹ ہی کا کردار ہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے مئی 2018 میں ڈان کے سیریل المیڈا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر کسی ملک میں دو یا تین متوازی حکومتیں ہوں گی تو آپ اس ریاست کو نہیں چلا سکتے۔ کسی بھی ملک میں صرف ایک ہی حکومت ہونی چاہیے۔ کوئی بھی آئینی حکومت۔ ۔ قربانیاں دینے کے باوجود ہم نے خود کو دنیا میں تنہا کرلیا ہے۔ ہمارا بیانیہ قبول نہیں کیا جاتا لیکن افغانستان کی بات مان لی جاتی ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے۔ ملک میں انتہا پسند تنظیمیں متحرک ہیں۔ آپ انہیں نان اسٹیٹ ایکٹرز کہہ لیں۔ لیکن آپ مجھے اس بات کا جواب دیں کہ کیا ہمیں انہیں سرحد پار کرکے ڈیڑھ سو لوگوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دینی چاہیے؟ کیا وجہ ہے کہ ہم ان کے خلاف اب تک مقدموں کی کارروائی مکمل نہیں کر سکے؟ (نواز شریف کا یہ اشارہ ممبئی حملوں میں ملوث لوگوں کے خلاف پاکستانی عدالتوں میں قائم مقدمات کی طرف تھا) ۔ یہ صورت احوال ناقابل قبول ہے۔ ہم اسی مقصد کے لئے جد و جہد کررہے ہیں‘‘۔
اسلام آباد سے حالیہ دنوں میں انتہاپسند عناصر کے خلاف ہونے والے اقدامات پر غور کیا جائے اور وزیر اعظم عمران خان کے بیانات کو پڑھا جائے تو یوں معلوم ہو گا کہ تحریک انصاف کی حکومت نواز شریف کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کام کر رہی ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو اسٹبلشمنٹ گزشتہ حکومت کو انہی گروہوں کے خلاف کام کرنے سے روکنے کا جتن کر رہی تھی، وہ اب اچانک ان کے خلاف ٹھوس اور قابل اعتبار کارروائی کرنے میں کیوں دل چسپی لینے لگی ہے؟
جولائی 2007 میں اسلام آباد کی لال مسجد کے خلاف ہونے والی فوجی کارروائی کے نتیجے میں ملک میں دہشت گردی کی ایک لہر ابھری تھی۔ کیا کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے حکومت اور طاقت ور اداروں کو یہ اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ ملک میں ویسی ہی صورت احوال دوبارہ پیدا نہ ہو؟ اور اسی لئے ’باہمی مفاہمت‘ سے پابندی لگانے اور مشتبہ لوگوں کو گرفتار کرنے کی کارروائی کی جاتی ہے تا کہ سفارتی اور سیاسی ضرورتوں کو پورا کیا جا سکے اور مشکل وقت گزرنے کے بعد یہ گرفت نرم کر دی جاتی ہے۔
حکومت کو انتہاپسندی کے خلاف اپنے اقدامات پر یقین بحال کروانے کے لئے اپنی پوزیشن واضح کرنا ہو گی اور ملک سے عسکریت پسند گروہوں کی طاقت سے نمٹنے کے لئے عوام کو اعتماد میں لینا ہو گا۔ اس قسم کی اعتماد سازی کے بغیر نہ سرکاری اقدامات پر بھروسا کیا جائے گا اور نہ ہی اس مزاج سے نمٹا جا سکے گا جس کی وجہ سے ملک میں انتہا پسند گروہ پیدا ہوئے اور پروان چڑھے ہیں۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ