عمران خان کی خواہش کے عین مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھارت کے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کو تمام توقعات اور اندازوں سے زیادہ نشستوں پر کامیابی مل رہی ہے۔ مودی کو آئندہ ربع صدی کے لئے بھارت کا غیر متنازع لیڈر ہونے کی پیش گوئیاں اور دعوے کئے جا رہے ہیں۔ ملک پر لگ بھگ نصف صدی تک حکومت کرنے والی نیشنل کانگرس پارٹی کو 2014 کے بعد ایک اور بدترین شکست کا سامنا ہے۔ وزارت عظمی کے لئے اس کے امید وار راہول گاندھی امیٹھی میں اپنی آبائی نشست پر ہار کا اعتراف کر چکے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے کامیابی کے بعد جیت کو عوام کے قدموں میں رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ پانچ برس کے دوران وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملک کے کونے کونے تک پہنچا دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی کو بھارت کے ہر علاقے میں مستحکم کیا جائے گا۔ مبصرین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان انتخابات میں ناقابل یقین کامیابی کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی ملک کی اہم ترین اور ناقابل تسخیر سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی ہے۔
شروع میں اس پارٹی کی کامیابی کو نیشنل کانگرس پارٹی کے تسلسل اور نہرو خاندان کے بھارتی سیاست پر تسلط کے تناظر میں دیکھا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ بھارتی ووٹر یکسانیت سے تنگ آکر تبدیلی کے لئے ووٹ دینا چاہتا تھا۔ تاہم گزشتہ سات ہفتوں کے دوران ہونے والی پولنگ کے مکمل نتائج سامنے آنے کے بعد مبصرین اور سیاسی تجزیہ کرنے والوں کو بی جے پی کی کامیابی اور نریندر مودی کی ذاتی مقبولیت کےبارے میں نئی تحقیق کرنے کی ضرورت ہوگی۔ وزیر اعظم مودی نے کامیابی کا جشن منانے والوں سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے سیاسی پنڈتوں کو رجعت پسند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں بیسویں صدی کی ذہنیت کو ترک کردینا چاہئے۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔
اکیسویں صدی میں مقبول سیاست دنیا بھر کے ملکوں کو اپنی گرفت میں لے رہی ہے۔ ان میں امریکہ کی مثال نمایاں ہے۔ جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی ان کے تازہ بہ تازہ ٹویٹ اور مخالفین پر گھٹیا اور ہتک آمیز نکتہ چینی کا طریقہ مقبول ہتھکنڈے کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ یورپ کے بیشتر ملکوں میں انتہا پسند قوم پرست لیڈر اسی حکمت عملی کے ذریعے روایتی پارٹیوں اور سنجیدہ منشور اور ایجنڈا کے مقابلے میں سادہ نعرے اور تارکین وطن کے خلاف پرجوش اور گمراہ کن باتوں کو بیچ کر کسی ایک لیڈر کی شخصیت کے سہارے مین اسٹریم سیاست کا نقشہ تبدیل کررہے ہیں۔ پاکستان میں عمران خان نے بھی ذاتی مقبولیت اور سادہ نعروں کی بنیاد پر ناقابل یقین کامیابی حاصل کی تھی۔
گزشتہ پانچ برس کے دوران متعدد ناکامیاں سمیٹنے اور کوئی قابل ذکر معاشی کامیابی حاصل نہ کرنے کے باوجود نریندر مودی بھارت میں صرف پھر سے وزیر اعظم بننے میں ہی کامیاب نہیں ہوئے بلکہ اس کامیابی کا سہرا کسی سیاسی اشتراک و اتحاد اور حکمت عملی سے زیادہ نریندر مودی کی ذاتی مقبولیت کے سر باندھا جا رہا ہے۔ اس مقبولیت کا اثر مہاراشٹرا میں ایک ووٹر کے اس جواب میں تلاش کیا جا سکتا ہے کہ جب صحافی نے پوچھا کہ ’آپ کس پارٹی کو ووٹ دیں گے؟‘ تو شہری نے واپس پوچھا کہ ’مودی جی کس پارٹی میں ہیں؟‘۔ ووٹ اسی پارٹی کو دیا گیا ہے جس میں نریندر مودی شامل ہے۔ اس مقبولیت کو کسی حجت اور دلیل کے بغیر انتخابی کامیابی کی سند حاصل ہوئی ہے۔
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ لوک سبھا کے حالیہ انتخابات میں 542 نشستوں کے لئے 90 کروڑ لوگوں نے ووٹ ڈالے ہیں۔ تاہم اس جمہوریت میں انتخابی مہم کے لب و لہجہ سے لے کر اس کے نتائج تک یہ بات واضح ہوئی ہے کہ لوگوں نے کسی سیاسی منشور اور کسی پارٹی پروگرام کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیے بلکہ ہندو قوم پرستی کو بی جے پی اور نریندر مودی کی کامیابی میں کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔ مودی اپنے برجستہ، بے ساختہ، انتہاپسندانہ حتی کہ نفرت انگیز طرز تبصروں اور باتوں کی وجہ سے اکثریت کے دل میں گھر کرچکے ہیں۔
ایک ووٹر کا کہنا تھا کہ وہ اس لئے مودی کو ووٹ دے گا کیونکہ مودی ’کھٹاک سے بولتا ہے منہ پر‘۔ نریندر مودی کی طرف سے اس کھٹاک سے بولنے کاسب سے شر انگیز مظاہرہ فروری میں پلوامہ سانحہ کے بعد پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہوئے دیکھنے میں آیا۔ اس کے بعد پاکستان پر فضائی حملوں کو انہوں نے ’ گھس گھس کے مارا‘ جیسے مقبول نعرے کے ذریعے انتخابی کامیابی سے تبدیل کیا۔ حالانکہ پلوامہ کے بعد ہونے والی فضائی جھڑپ میں بھارتی فضائیہ کو منہ کی کھانا پڑی تھی۔ اس کا ایک طیارہ بھی مار گرایا گیا اور پائلٹ پاکستان کی تحویل میں آگیا جسے وزیر اعظم عمران خان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری طور سے رہا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ابھے نندن ورتھامن کی رہائی کو بھی نریندر مودی نے نہایت چالاکی سے اپنی کامیابی کے طور پر پیش کیا۔ بی جے پی ابھے نندن کی تصویروں کو پارٹی پوسٹروں پر استعمال کرتی رہی اور جلسوں اور ریلیوں میں مقررین نے اسے نعرے کے طور برتا۔ عمران خان نے یہ اقدام انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیا ہو یا بھارت کے ساتھ کسی بڑے تصادم سے بچنے کے لئے ابھے نندن کو فوری رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہو لیکن یہ بات واضح ہے کہ نریندر مودی نے اس فیصلہ کو پاکستان کی کمزوری اور اپنی کامیابی قرار دیا اور تسلیم کروا لیا۔ انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ ووٹروں نے نریندر مودی کے ان دعوؤں کو ہو بہو مان لیا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ تمام تر حقائق کے باوجود بھارت کے اکثر لوگوں نے حکومت کے اس دعوے کو درست سمجھا کہ بھارت نے پلوامہ سانحہ کے بعد پاکستان سے اس دہشت گردی کا بدلہ لے لیا تھا۔
اکنامک ٹائمز کے معاون مدیر سوامی ناتھن آئر کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کی کامیابی کی ایک ہی وجہ ہے کہ بھارتی انتخابات میں ہندو قوم پرستی کو فتح حاصل ہوئی ہے۔ لوگوں نے قوم پرستی کے نام پر ووٹ دیا ہے۔ سیاسی ایجنڈے میں باقی سب معاملات ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں معیشت یا دوسرے معاملات ووٹروں کو متاثر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے مودی کے نعرے اور ہندوؤں کی بالادستی کے جنون میں بی جے پی کے امیدواروں کو کامیاب کروایا ہے۔ انتخابات میں قوم پرستی کو پہلی ، دوسری اور تیسری اہمیت حاصل رہی ہے۔ باقی معاملات کی باری اس سے کہیں بعد تھی۔ ووٹروں نے ان پر غور کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔
نریندر مودی نے ہندو قوم پرستی کے ایجنڈے کو کبھی پوشیدہ نہیں رکھا۔ بی جے پی نے گزشتہ انتخابات میں مسلمان ووٹروں کے بغیر کامیابی کو اپنی حکمت عملی بنایا اور اس میں کامیاب رہی۔ حالانکہ خیال کیا جاتا تھا کہ بھارت میں کوئی پارٹی مسلمانوں کی بڑی اقلیت کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی لیکن بی جے پی نے اتر پردیش جیسی ریاست میں کسی مسلمان کو امید وار بنائے بغیر واضح کامیابی حاصل کی اور وہاں یوگی ادتیا ناتھ جیسے شخص کو وزیر اعلی بنا دیا۔ اس بار خیال کیا جا رہا تھا کہ اتر پردیش میں بی جے پی کی کامیابی ممکن نہیں ہوگی لیکن اطلاعات کے مطابق اس ریاست میں یہ پارٹی 80 میں سے 50 نشستوں پر کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ اگرچہ یہ جیت گزشتہ کے مقابلے میں کم ہو گی کیوں کہ 2014 میں بی جے پی نے اتر پردیش سے 71 نشستیں حاصل کی تھیں۔
حالیہ انتخابات میں نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں نے مسلمانوں کے ساتھ دلت اور آسی وادیوں کو بھی نظر انداز کیا اور ان کے حقوق کی بات کرنا سیاسی طور سے ضروری نہیں سمجھا۔ لیکن اس کے باوجود بی جے پی اتر پردیش ، مغربی بنگال اور بہار جیسی ریاستوں میں کامیابی سمیٹ رہی ہے جہاں مسلمانوں کے علاوہ دلت باشندوں کی بھی بڑی تعداد رہتی ہے۔ اس طرح بی جے پی نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ ملک کی دو قابل ذکر اقلیتوں کے بغیر بھی انتخابات جیت کر بھارت پر حکومت کر سکتی ہے۔
انتخابات میں ’ہندوستان پر اکثریت کی حکومت‘ کے نعرے کو سلوگن کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ بی جے پی اور نریندر مودی بھارت کے ہندوؤں کے اس خواب کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں کہ بھارت میں ہندو اکثریت میں آباد ہیں لیکن انہیں بلا شرکت غیرے حکومت کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ بدنصیبی سے تاریخی محرومیوں کو ایک جدید ریاست میں سیاسی نعرہ بنانے کی یہ حکمت عملی کامیاب ہوئی ہے جس نے بی جے پی کو کامیاب اور نریندر مودی کو سپر ہیرو بنا دیا ہے۔ مودی نے کامیابی کے بعد کانگرس کی سیکولر سیاسی حکمت عملی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ لوگ سیکولر ازم کے نام پر قوم کو بے وقوف بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے‘۔
اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ نریندر مودی ہندو قوم پرستی کے نام پر بھارتی ووٹروں کو اپنے نام پر ووٹ دینے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ سوال فی الوقت نریندر مودی یا بی جے پی کے پیش نظر نہیں ہے کہ اس سیاسی حکمت عملی سے بھارت کی اقلیتوں اور سماجی ڈھانچے پر کیا اثر مرتب ہو گا۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ