کوئی باخبر آدمی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ ملک اس وقت سنگین صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ اسے نہ صرف سرحدوں پر معاندانہ قوتوں کا سامنا ہے بلکہ عالمی منظر نامہ پر اس کی سفارتی کوششیں بارآور نہیں ہو رہیں۔ بھارت مسلسل ایک چھوٹے مگر ایٹمی قوت کے حامل پاکستان کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کر رہا ہے اور پاکستان کے بار بار تقاضوں کے باوجود مذاکرات کی میز پر آنے کےلئے تیار نہیں ہے۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت آنے کے بعد واشنگٹن سے مسلسل پاکستان کے خلاف سخت حکمت عملی اختیار کرنے کے اشارے دیئے جا رہے ہیں۔ ملک کی حکومت اور فوج نہ صرف یہ کہ افغان حکومت کا اعتماد کھو چکی ہے بلکہ طالبان کی قیادت بھی اس کے مشورہ اور تجاویز پر غور کرنے کےلئے تیار نہیں ہے۔ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے، قطر کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرنے اور ایران کے خلاف محاذ کھولنے کے اعلانات کے بعد پاکستان ایک ایسے دوراہے پر آ کھڑا ہوا ہے جہاں نہ وہ کھل کر سعودی عرب کی حمایت کا اعلان کر سکتا ہے اور نہ اس سے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی پالیسیاں خطہ میں ایک ایسی جنگ شروع کرنے کا سبب بنیں گی جس میں مسلمان خسارے میں اور مسلمانوں کو تقسیم کرکے عالمی سیاسی و اسٹریٹجک مفادات حاصل کرنے والی قوتیں فائدہ میں رہیں گی۔ لیکن پاکستان کی حکومت ہو یا عدالتیں، سیاسی پارٹیاں ہوں یا میڈیا ۔۔۔۔۔ ان کےلئے ان مسائل کی خاص اہمیت نہیں ہے۔ پاناما کیس اور نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے بارے میں فیصلہ اہم ترین معاملہ کے طور پر قومی منظر نامہ پر چھایا ہوا ہے۔
پاکستانی اخبارات پڑھنے، ٹیلی ویژن مباحث دیکھنے اور سیاسی لیڈروں کے بیانات سنتے ہوئے یہ قیاس کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ قوم اس قدر ذہنی عیاشی کی متحمل ہو سکتی ہے کہ وہ ایک ایسے معاملہ پر اپنا وقت، وسائل اور صلاحیتیں برباد کرے جس میں سے بار بار کی تحقیق و جستجو کے بعد بھی کوئی واضح بات سامنے آنے کا امکان نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے 20 اپریل کو اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہوئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنا کر یہ ثبوت اکٹھے کرنے کا فیصلہ کیا تھا کہ کیا نواز شریف پر مالی بدعنوانی ثابت کی جا سکتی ہے۔ اسی فیصلہ میں دو سینئر ججوں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے تو یہ موقف اختیار کیا کہ چونکہ قرائن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے، اس لئے انہیں قومی اسمبلی کی نشست سے معزول کر دینا چاہئے۔ ان دو ججوں نے نواز شریف کےلئے گاڈ فادر اور سسلی مافیا جیسے الفاظ استعمال کرکے بھی ملک کے اکثر قانون دانوں کو حیران کر دیا تھا۔ صادق اور امین کی شرط آئین کی شق 62 اور 63 کے تحت قومی اسمبلی کے ارکان کےلئے عائد کی گئی ہے۔ یہ شقات فوجی آمر ضیا الحق کی ملک میں اسلامی نظام لانے کی کوششوں کا نتیجہ تھیں۔ اسی لئے یہ ہمیشہ سے متنازعہ رہی ہیں۔ البتہ سیاستدان ملک میں مذہبی جماعتوں کی بڑھتی ہوئی قوت کے خوف کی وجہ سے انہیں آئین سے نکالنے کا حوصلہ نہیں کر سکے۔ حالانکہ کسی فرد کی صداقت اور امانت کے بارے میں فیصلہ صادر کرنا نہ تو کسی سرکاری افسر کےلئے ممکن ہے اور نہ ہی کوئی عدالت ایسا فیصلہ صادر کر سکتی ہے۔ اور اگر کوئی عوامی نمائندہ اپنی حیثیت اور عہدہ سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے خلاف متعلقہ قوانین کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ اسی لئے یہ دیکھا اور سنا جا سکتا ہے کہ جو لوگ ہر ٹی وی ٹاک شو یا سیاسی بیان بازی میں ہر وقت بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، غلط الزام عائد کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان پر 62 اور 63 کا اطلاق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی البتہ ایک منتخب وزیراعظم اور سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر کے خلاف ایسا فیصلہ صادر کرنے سے عدالت کے بعض جج اپنی دیانت اور خود مختاری کا ثبوت فراہم کر سکتے ہیں۔ لہٰذا انہیں ایسی متنازعہ شقات کو استعمال کرتے ہوئے بھی کوئی احتراز نہیں ہوتا۔
اسی بینچ کے تین ججوں کا خیال تھا کہ اگر وہ جے آئی ٹی کے ذریعے شواہد اکٹھے کروا لیں تو آسانی سے وزیراعظم کو بری کرنے یا قصور وار ٹھہرانے کا فیصلہ کیا جا سکے گا۔ اب دعوؤں اور شفافیت اور غیر جانبداری کے اعلانات کے جلو میں بنی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کے سہ رکنی بینچ کو پیش کر دی ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں نواز شریف اور ان کے اہل خاندان کے بارے میں جو لب و لہجہ بھی اختیار کیا گیا ہو لیکن وہ بھی کوئی ایسا ٹھوس ثبوت سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ نواز شریف اور ان کے بیٹوں نے مالی بدعنوانی کی ہے، سرکاری وسائل میں خرد برد ہوئی ہے یا ٹیکس دینے سے گریز کیا گیا ہے۔ البتہ جے آئی ٹی کے ارکان کا قیاس ہے کہ چونکہ وزیراعظم اور ان کے اہل خاندان کا طرز زندگی اور مالی اثاثے ان کے معلوم وسائل آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، اس لئے نیب ان کے خلاف ریفرنس دائر کرے۔ اس حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ میں متعدد نیب قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ نیب کو تحقیقات کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا چاہئے۔ حیرت کی بات صرف اتنی ہے کہ یہ وہی نیب ہے جسے سپریم کورٹ نے 20 اپریل کے فیصلہ میں ناکارہ اور نااہل قرار دیتے ہوئے وزیراعظم کے خلاف تحقیقات کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے کر غیر معمولی اقدام کرتے ہوئے جے آئی ٹی بنانے اور اس کی تحقیقات کی بنیاد پر حتمی فیصلہ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اب سپریم کورٹ ہی کی مقرر کردہ جے آئی ٹی اسی گیند کو لڑھکا کر ایک بار پھر نیب کی طرف روانہ کرنے کا مشورہ دے رہی ہے۔
اس دوران حکومت کے نمائندوں نے گزشتہ دو ماہ کے دوران جے آئی ٹی کے ارکان، طریقہ کار اور گواہ بلانے کے معاملہ کو بنیاد بنا کر طوفان بدتمیزی بپا کئے رکھا۔ دو روز قبل اعلان کر دیا گیا تھا کہ حکومت اور مسلم لیگ (ن) جے آئی ٹی کی ایسی رپورٹ کو قبول نہیں کرے گی جس میں قطری شہزادہ حمد بن جاسم الثانی کا بیان شامل نہیں ہوگا۔ اس بیان میں وہ یہ کہنے والے تھے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے نام ایک خط میں میاں محمد شریف مرحوم کے ساتھ خاندانی تجارتی تعلقات اور 80 کی دہائی میں 12 ملین درہم وصول کرنے کے بارے میں جو بیان دیا تھا، وہ اس پر قائم ہیں۔ یہ بیان اس ٹکنیکل بنیاد پر ریکارڈ نہیں ہو سکا کہ جے آئی ٹی اگر ویڈیو لنک کے ذریعے بھی بیان لیتی تو شہزادہ حمد بن جاسم کو پاکستانی دائرہ حکومت یعنی یا تو قطر میں پاکستانی سفارت خانہ میں آ کر یا اسلام آباد میں جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر یہ بیان ریکارڈ کروانا چاہئے تھا۔ کسی ضدی بچے کی طرح جے آئی ٹی نے یہ سخت موقف کیوں اختیار کیا، اس کا جواب جے آئی ٹی اور اس کی محافظ سپریم کورٹ ہی دے سکتی ہے۔ البتہ نواز شریف کے ترجمانوں نے اس رپورٹ پر نظر ڈالے بغیر ہی اسے مسترد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ بعینیہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کسی خاص تردد کے بغیر جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد ایک بار پھر نواز شریف اور شہباز شریف کو لٹیرے قرار دے کر فوری استعفیٰ دینے کا مطالبہ دہرایا اور دعویٰ کیا کہ شریف خاندان کی 30 سالہ لوٹ مار کے بعد ان کے سارے الزام درست ثابت ہو سکے ہیں۔
تاہم حتمی فیصلہ تو سپریم کورٹ نے کرنا ہے جس کے حکم پر جے آئی ٹی بنی اور جس کے مطالبے پر 60 دن کے اندر ایک ناممکن کام کو ممکن بنا دیا گیا۔ یعنی حتمی رپورٹ تیار کر لی گئی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس میں کیا وہ شواہد اور قانونی بنیاد فراہم کر دی گئی ہے کہ اکثریتی فیصلہ لکھنے والے تین جج بھی اپنے دو سینئر ساتھیوں کی طرح نواز شریف کو سسلی مافیا کا سربراہ قرار دیتے ہوئے جھوٹا اور بدنیت ہونے کا حکم جاری کر دیں۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ اب سارے ثبوت فراہم ہو چکے ہیں اور ساری حجت پوری ہو گئی۔ لیکن ان کا تو گزشتہ برس اپریل میں پاناما پیپرز سامنے آنے کے بعد بھی یہی موقف تھا۔ البتہ اب سیاسی طور سے خود کو زندہ رکھنے کےلئے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے بھی نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا ہے۔ یہ بات بھی عرصہ ہوا طے ہو چکی کہ نواز شریف کسی جذباتی کیفیت یا سیاسی دباؤ میں استعفیٰ دینے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ تو کیا اب سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی کارکردگی سے مطمئن ہو کر عمران خان کو وہ ’’تحفہ‘‘ دے سکتی ہے جسے پانے کےلئے وہ گزشتہ 4 برس سے بے چین ہیں۔ یعنی نواز شریف کا استعفیٰ تاکہ پیپلز پارٹی کے جاہ پسند بھگوڑوں کی طرح مسلم لیگ (ن) کے بھگوڑوں کو ساتھ مل کر وہ بالآخر انتخاب جیتنے اور ملک کا وزیراعظم بننے کے مقصد میں کامیاب ہو سکیں۔
سپریم کورٹ کو البتہ اس حوالے سے کوئی جلدی نہیں ہے۔ اس نے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر غور کرنے کےلئے ایک ہفتہ کا وقت لیتے ہوئے مقدمہ کی سماعت 17 جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔ البتہ آج کی سماعت میں متعدد ایسے احکامات جاری کئے گئے جو اس تماشہ کو طول دینے کا سبب بنیں گے۔ سب سے پہلے تو سپریم کورٹ نے جنگ گروپ کے پبلشرز میر شکیل الرحمان اور میر جاوید الرحمان کے علاوہ رپورٹر احمد نورانی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا ہے کہ اس کے اخبارات جنگ اور دی نیوز میں آج صبح یہ خبر کیوں شائع ہوئی کہ جے آئی ٹی نواز شریف کے خلاف مالی بدعنوانی کا کوئی ثبوت لانے میں کامیاب نہیں ہوئی بلکہ رپورٹ میں ان کے صاحبزدگان کی بے قاعدگیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ سپریم کورٹ کو ایک خبر کی اشاعت میں تو ججوں کی توہین دکھائی دیتی ہے لیکن وہ سانپ کو پکڑنے کی بجائے لکیر پیٹنے پر مصر ہے۔ یعنی ان لوگوں کا سراغ لگانے کی بجائے جو ایسی خبریں فراہم کرتے ہیں ایک رپورٹر اور پبلشرز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے سہ رکنی بینچ نے دوسرا حکم یہ جاری کیا ہے کہ جے آئی ٹی کی پیشی کے دوران حسین نواز کی تصویر جاری کرنے والے شخص اور ادارے کا نام سامنے لایا جائے تاہم اس کے ساتھ تین رکنی بینچ میں شامل معزز جج حضرات نے یہ حیران کن حکم بھی دیا ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، اس لئے حکومت اس معاملہ کی تحقیقات کا اہتمام کرے۔ گویا وزیراعظم کی پگڑی اچھالنے اور قوم کو غیر ضروری ہیجان میں مبتلا رکھنے کے سارے معاملات میں سپریم کورٹ بااختیار ہے لیکن اپنی ہی نگرانی میں کام کرنے والی جے آئی ٹی کی بے قاعدگی پر غور کرنے اور فیصلہ کرنے کی خود کو مجاز نہیں سمجھتی۔ حیرت انگیز طور پر سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے متعدد لیڈروں کے بیانات کا متن فراہم کرنے کا حکم بھی دیا ہے تاکہ یہ طے ہو سکے کہ انہوں نے توہین عدالت تو نہیں کی۔ عدالت عظمیٰ کے حساس ججوں کو یہ حکم دیتے ہوئے، یہ غور بھی کرنا چاہئے تھا کہ ان کی عدالت میں کتنے ہزار مقدمے کتنے برسوں سے زیر سماعت ہیں اور کتنے لوگ پاناما قضیہ اور سپریم کورٹ کی طرف سے راست سیاست کا اصول طے کرنے کے ’’عزم‘‘ کی وجہ سے مزید غیر معینہ مدت تک انصاف کےلئے آسمان کی طرف دیکھتے رہیں گے۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد جس طرح معاملہ طے ہونے کی بجائے مزید الجھا ہے، اسی طرح سپریم کورٹ اب اس رپورٹ پر جو بھی فیصلہ کرے، اس پر ہنگامہ آرائی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ بہتر ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فاضل جج یہ تسلیم کر لیں کہ سیاست کے پانی کو بلونے سے کبھی مکھن سطح پر نہیں آئے گا۔ اس لئے جج حضرات اس سے متعلق معاملات میں توہین عدالت کا پہلو تلاش کرنے کی بجائے جس قدر جلد اپنا دامن بچاتے ہوئے اس قضیہ سے باہر نکل سکیں ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کی شہرت کےلئے اتنا ہی اچھا ہوگا۔ ججوں کے علاوہ سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں سے بھی یہی عرض کی جا سکتی ہے کہ پاناما کیس پر انہوں نے بہت طبع آزمائی کرلی۔ اب اس قوم کی حالت پر رحم کریں۔ اصل مسائل پر توجہ دینے اور ان کے بارے میں قوم کی رہنمائی کرنے پر بھی غور کیا جائے۔
(بشکریہ:کاروان ۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ