طفیل ابن ِگُل کی موت کا ایک سال مکمل ہونے پر میری قمر الحق قمر کے ساتھ ملاقات ہوئی تو میں نے اسے بتایا کہ طفیل کی پہلی برسی آ رہی ہے اور آپ نے اس کی برسی کے موقع پر کوئی مضمون تحریر کرنا ہے۔
” ایک سال بیت بھی گیا ہے“؟ قمر الحق نے حیرت سے سوال کیا
”ہاں ایک سال ہوگیا“
”کمال ہے یار وقت کا تو پتہ ہی نہیں چلتا ۔ ایسے ہی کسی روز ہم بھی مرجائیں گے اور پھر لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے دیکھو قمر کی موت کو ایک سال ہوگیا ہے“
قمر الحق قمر کے اس جملے نے مجھے اداس کردیا
”ہاں یار ایک سال بیت گیا ہمیں طفیل کے بغیر زندگی گزارتے ہوئے“
”لیکن یار تم نے اس کی برسی خوب یاد رکھی۔ میں تو بھول ہی گیا تھا۔“
قمر الحق نے تاسف بھرے انداز میں کہا
”میری برسی بھی یاد رکھو گے ناں؟“
قمر کا اگلا جملہ مجھے مزید اداس کر گیا۔طفیل ابنِ گُل ہمارا مشترکہ دوست تھا قمر الحق قمر نے بھی پردیس میں اس کے ساتھ اچھا وقت گزارا تھا، ہم کافی دیر طفیل کی باتیں کرتے رہے اور پھر جدا ہوگئے۔
طفیل ابن گل کی پہلی برسی کی باتیں آج مجھے قمر الحق قمر کی پہلی برسی پر یاد آ رہی ہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ ”ایک سال بیت بھی گیا“۔
قمر الحق قمر اپنی وضع کا انسان تھا سچا، کھرا، منہ پھٹ اور بدلحاظ۔ دوستوں کا دوست اور دشمنوں کا دشمن، اسے دوستی بھی نبھانا آتی تھی اور دشمنی بھی خوب پالتا تھا۔ شاعری سے اپنی زندگی کا آغاز کیا ایک مولوی گھرانے کا فرد، مولانا خیر محمد جالندھری کا پوتا، قمر الحق سے قمر الحق قمر بن گیا۔ مدرسے میں اس کا گھر تھا وہیں تعلیم حاصل کی قرآن پاک حفظ کیا مگر مدرسے کی زندگی اس کے مزاج سے نہ ملتی تھی،کہتا تھا مجھے گھر گھر جا کر روٹیاں جمع کرنا اچھا نہیں لگتا۔ کچھ عرصہ شاعری کی مگر پھر اس سے بھی جی بھر گیا اور اس نے نثر لکھنا شروع کر دی۔ سچی کھری اور دو ٹوک نثر لکھتا تھا ۔کوئی لگی لپٹی نہ رکھتا تھا تحریر میں بھی اور گفتگو میں بھی۔ لڑتا تھا، جھگڑتا تھا، ناراض ہوتا تھا، گلے شکوے کرتا تھا مگر اس لڑائی جھگڑے اور گلے شکوے میں بھی مان ہوتا تھا۔ دوستوں کو ویسا ہی دیکھنا چاہتا تھا جیسا وہ خود تھا۔ مگر اسے معلوم نہیں تھا کہ دوستیوں میں اب خود غرضی بھی شامل ہو گئی ہے اب ہم دوستیاں بھی مفادات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔قمر الحق قمر کسی اور زمانے کا انسان تھا ۔اندر باہر سے بالکل ایک جیسا ۔جیسا تھا ویساہی نظر بھی آتا تھا ۔غصے میں ہوتا تو ”دفعہ ہوجاؤ“اس کے ماتھے پر لکھا ہوتا تھا۔ وہ اپنے غصے کو چھپانے اور چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ لانے کی صلاحیت رکھتا ہی نہیں تھا ۔
قمر الحق سے میری ملاقات 1988ء میں ہوئی ۔ میں اُنہی دنوں لاہور سے واپس آیا اور روزنامہ ” قومی آواز “ سے منسلک تھا ۔ قمر الحق قمر روزنامہ ”عدل“ کا نیوز ایڈیٹر تھا ۔ انہی دنوں ملتان یونین آف جرنلسٹس کے انتخابات ہوئے تو ہم نے قمر الحق قمر کو صدارت کا امیدوار نامزد کردیا۔انتخابی مہم شروع ہوئی ۔قمر کے مقابلے میں رانا اکرم خالد امیدوارتھا ۔ ہم نے مختلف ووٹرز سے رابطے کئے ۔ سینئرز کی حمایت حاصل کی ، وہ صحافیوں کی کسی تنظیم کا پہلا الیکشن تھا جس میں ہم نے سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا ۔ ہمیں اس وقت معلوم نہیں تھا کہ انتخابی سیاست کیا ہوتی ہے ؟ ہم یہ سمجھتے تھے کہ جس نے وعدہ کر لیا ہے وہ واقعی ووٹ بھی دے دے گا ۔ مگر الیکشن سے ایک رات قبل کچھ سینئرز حرکت میں آئے ۔ مخالف پینل کے صدارتی امیدوار کے ساتھ ہمارے سیکریٹری جنرل کی ڈیل ہوئی اور قمر الحق قمر ایک دو ووٹ کے فرق سے ہار گیا ۔ اس الیکشن کے دو فائدے ہوئے ایک تو یہ کہ بہت سے دوستوں کے اصل چہرے سامنے آ گئے (یہ تجربہ بعد کے تمام الیکشنوں میں بھی تسلسل کے ساتھ جاری رہا)
اور دوسرا یہ کہ قمر الحق قمر میرا دوست بن گیا ۔ بعد کے برسوں میں صحافیوں کی تنظیمی سیاست میں ہم ہمیشہ ایک ساتھ چلے ۔ جب تک قمر الحق قمر زندہ رہا مجھے یہ حوصلہ رہا کہ وہ جس اخبار سے بھی منسلک ہے وہاں کم از کم مجھے اپنے لئے کمپین کی ضرورت نہیں ۔ پریس کلب کے انتخابات میں وہ ہمارے ساتھ لوگوں کے گھروں میں جاتا اور انہیں اپنے گروپ کیلئے قائل کرتا ۔ پولنگ سے پہلے والی رات کو ہم ”چاند رات “ کہتے ہیں ۔وہ جوڑ توڑ کی رات ہوتی ہے ۔ قمر الحق اس جوڑ توڑ میں ہمارا بھرپور ساتھ دیتا اور رات کو تین چار بجے تک ہمارے ساتھ سرگرم رہتا ۔ کئی بار یوں ہوا کہ انتخابی مہم سے فراغت کے بعد وہ اپنے گھر جانے کی بجائے میرے گھر چلا آیا تاکہ صبح صبح بروقت پولنگ پر پہنچ سکے ۔ قمر الحق یوں تو مجھے بہت سے مواقع پر یاد آتا ہے مگر الیکشن کی رات اس کی یاد شدت اختیار کر جاتی ہے ۔ اس کی بے لوث دوستی اور بے غرض محبت اس موقع پر بڑے منفرد رنگ میں سامنے آیا کرتی تھی ۔
وہ میرے ساتھ بہت سے معاملات میں رکھ رکھاؤ کا قائل تھا ۔ بے تکلفی ایک خاص حد سے آگے نہ جانے دیتا تھا مگر جس روز میری شادی ہوئی اس نے تمام رکھ رکھاؤ کو بالائے طاق رکھ دیا اور اس کے اندر کا شریر بچہ جاگ اُٹھا ۔ وہ ان دنوں روزنامہ ”جرءت “کوئٹہ سے وابستہ تھا۔ رات کو گیارہ بجے میرے گھر کا فون بجا۔ دوسری جانب قمر الحق قمر ایک شرارتی بچے کی طرح قہقہے لگا رہا تھا۔ ”میں نے سوچا تمہیں تنگ کرنے اور مبارکباد دینے کا اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں ہوگا۔“ قمر کافی دیر مجھے تنگ کرتا رہا ۔ تندوتیز جملوں کی ایک بوچھاڑ تھی میں ایک جملے سے بچتا تو دوسرے کا شکار ہو جاتا ۔ یہ تندو تیز جملے اس کے کالموں میں بھی ہوتے تھے ۔ وہ ایک بے رحم قلمکار تھا ۔ مدرسے کے ماحول میں پلنے والا نام نہاد علماء کی اصلیت سے واقف تھا اور انہیں بے نقاب کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا تھا ۔
قمر الحق قمر سیماب صفت انسان تھا پل میں تولہ پل میں ماشہ، کڑوی سے کڑوی بات کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا، مگر ہم سب جانتے تھے کہ وہ بات دل میں نہیں رکھتا منہ پر کہہ دیتا ہے۔ اس سے ملاقات ہوتی تھی رات کے پچھلے پہر شہر کے کسی چوراہے پر یا سڑک کنارے کسی چائے خانے پر اور پھر یہ ملاقات صبح کی اذان تک جاری رہتی تھی۔ وہ ہمارے معمولات کا حصہ تھا کبھی صبح چار پانچ بجے اس کا فون آ جاتا، یہ وقت صرف اسی کے فون کے لئے مخصوص تھا اور اس وقت فون کی گھنٹی بجتی تو میں آواز سنے بغیر سمجھ جاتا تھا کہ یہ قمر الحق ہوگا۔ وہ جب مصنوعی لوگوں سے تھک جاتا تو پھر اس کا ایک طویل فون آتا جو عموماً اس جملے پر ختم ہوتا تھا ”اچھا یار اب میرا دل ہلکا ہوگیا ہے اب سونے کی کوشش کرتا ہوں۔“ موت سے ایک روز قبل وہ چوک ڈیرہ اڈہ میں بیٹھا تھا رات کے بارہ بجے کا وقت ہوگا میں خود اپنے سینے کے درد کا علاج کرا کے نشتر ہسپتال سے واپس آ رہا تھا۔چوک سے گزرا قمر کو بیٹھے دیکھا ایک لمحے کے لئے جی چاہا کہ میں دو منٹ اس کے ساتھ بیٹھ کر حال احوال لے لوں مگرمیری اپنی طبیعت اتنی زیادہ خراب تھی کہ میں رُکے بغیر آگے بڑھ گیا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ یہ جو لمحہ میرے ہاتھ سے نکل رہا ہے یہ میرے لئے عمر بھر کا پچھتاوا بن جائے گا۔ میں عمر بھر یہی سوچوں گا کہ اگر میں اس روز قمر الحق کے پاس رک جاتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ اگلے روز اس کی موت کی خبر آ گئی ۔عارضہ قلب کا تو وہ دو سال سے شکار تھا دوستوں کو اس کی صحت کے بارے میں تشویش بھی رہتی تھی مگر ہم میں سے کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اس طرح چپ چاپ ہمیں تنہا چھوڑ جائے گا۔ اسے ڈاکٹروں نے بتا دیا تھا کہ اس کی زندگی کو خطرہ ہے ۔ اس نے ڈاکٹروں کی ہدایت پر سگریٹ تو چھوڑ دیا مگر شب نوردی جاری رکھی۔ دوستوں نے کئی بار اسے سمجھایا کہ رات کو جلدی گھر چلے جایا کرو مگر وہ ہنس کر ٹال جاتا تھا ۔ 12 جولائی 2003 ءکو دوستوں نے اشک بار آنکھوں کے ساتھ اسے لحد میں اتارا۔ میں جنازہ میں شریک تو ہوا مگر دوستوں کے اصرار کے باوجود اس کا آخری دیدار نہ کر سکا ۔جس کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر سڑکوں پر گھوما کرتا تھا اس کے جنازے کو کندھا دینے کا حوصلہ ہی نہ ہوا۔ آج اس کی پہلی برسی پر مضمون لکھنے بیٹھا ہوں تو مجھے بار بار اس کا وہی جملہ یاد آرہا ہے جو اس نے طفیل ابن ِگل کی پہلی برسی پر کہا تھا ”ایک سال بیت بھی گیا؟“۔
(مطبوعہ : روزنامہ جنگ ملتان ۔۔
10 جولائی 2004 ء)