بارہ سال کی لڑکی کی آبرو ریزی کا بدلہ لینے کے لئے اہل خاندان نے متاثرہ بچی کے اٹھارہ سالہ بھائی کو ملزم کی سترہ سالہ چچیری بہن کے ساتھ ریپ کرنے کا حق دے دیا۔ معاملہ آپس میں طے کرلیا گیا۔ ملتان کے نواحی علاقے مظفر آباد میں پیش آنے والے اس المناک سانحہ کا انکشاف اس وقت ہوا جب جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی ایک لڑکی کے اہل خانہ نے باہمی ’معاہدہ ‘ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پولیس میں شکایت درج کروادی۔ اس طرح دوسرے خاندان نے بھی اپنی بچی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا مقدمہ درج کروایا۔ یہ واقعہ ایک ایسے ملک اور سماج میں پیش آیا ہے جہاں اخلاقیات کو ترجیح دی جاتی ہے، غیرت کے نام پر جان دی اور لی جاتی ہے، معاشرہ میں مذہب کے بارے میں سنگین مباحث کئے جاتے ہیں اور عقیدہ کو بنیاد بنا کر ہر دم کفر کے فتوے صادر کرنے کا اہتمام ہوتا ہے۔ معاشرہ کی دو کمسن بچیوں کے ساتھ بدترین جنسی ظلم کے بعد معاشرہ کے سب نمائیندوں سے صرف یہی پوچھا جا سکتا کہ یہ کون سی روایت ، کون سا عقیدہ اور کس قسم کی غیرت ہے۔ یہ تو گمراہی ، جہالت اور استحصال کی بدترین سطح ہے۔
سوال ہے کہ اس کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے گی۔ کیا وہ خاندان اس کا ذمہ دار ہے جس کے بڑے خود اپنی بچی کو جنسی زیادتی کا بدلہ لینے کے لئے ’تاوان‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اپنی موجودگی میں ایک کم سن بچی کو جنسی زیادتی کے لئے ایک نوجوان کے حوالے کردیتے ہیں۔ یا اس کی ذمہ داری پولیس اور قانون کی بالا دستی برقرار رکھنے والے اداروں پر عائد کی جائے گی کہ وہ اس وقت وہاں موجود نہیں ہوتی اور نہ ہی اس وقت مداخلت کرکے ایک بھیانک جرم کو روکنے کی کوشش کرتی ہے، جب یہ سرزد ہو رہا ہوتا ہے۔ لیکن بعد ازاں خبر سامنے آنے پر ، اس کے افسران آگے بڑھ کر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یا وہ سیاستدان اس کے سزاوار ہیں جو معاشرہ میں انصاف عام کرنے اور اداروں کو استوار کرنے میں ناکام ہیں جس کی وجہ سے عام لوگ ملک کے نظام اور اداروں پر یقین کرنے کی بجائے خود ہی برے بھلے فیصلے کرکے معاملے نمٹانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یا ملک کی عدالتوں پر اس ظلم کا بوجھ ڈالا جائے جہاں نہ فیصلے ہوتے ہیں اور اگر فیصلہ ہو جائے تو ان کے نفاذ کی نوبت نہیں آتی۔ یا معاشرہ کا مذہبی پیشوا اس صورت حال کا ذمہ دار ہے جہاں ماں باپ خود اپنے ہی معصوم بچوں کو بدترین زیادتی کے لئے پیش کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔
شاید ان میں سے کوئی بھی اس صورت حال کا ذمہ دار نہیں ہے یا سب نے اپنے اپنے طور پر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کردار ادا کیا ہے جہاں انسان کی عزت نفس، خود داری اور انفرادیت کو مسترد کرکے صرف زور زبردستی اور بالا دست کی مرضی کا تابع بنا دیا گیا ہے۔ یہ قصور اس ملک کے ہر اس شخص پر عائد ہوگا جو کسی بھی انسان کو دوسرے انسان کی ملکیت کے تصور کو مستحکم کرنے میں کسی بھی طرح کردار ادا کررہا ہے۔ یہ فرد کسی خاندان کا سربراہ بھی ہو سکتا ہے، سیاست دان بھی ہے، مسجد کا پیش امام بھی ہو سکتا ہے اور اسکول کا استاد بھی جو یہ تعلیم دینے سے قاصر ہے کہ کسی بھی شخص کو کسی بھی تعلق اور رشتے سے کسی دوسرے انسان کی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے خواہ وہ فرد اس کی اپنی ہی اولاد کیوں نہ ہو۔
یہ سانحہ بنیادی طور پر ملک میں عام کئے گئے اس مزاج کا شاخسانہ ہے کہ عورت مرد کی ملکیت ہے۔ شادی سے پہلے باپ اور شادی کے بعد شوہر کسی عورت کے بارے میں فیصلے کرنے کا مجاز ہے۔ یہ اس تعلیم اور اس سماجی روایت کا کیا دھرا ہے جس میں بچیوں کو خود مختار اکائی سمجھنے اور انہیں اپنے جسم اور اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق دینے سے انکار کیا جاتا ہے۔ یہ مزاج بچیوں کو مرضی کی شادی سے روکنے کے لئے تشدد اور جبر کا مظاہرہ کرنے سے لے کر اپنی ہی بیٹیوں کو جنسی زیادتی کا بدلہ لینے کے لئے پیش کرنے تک کے رویہ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس کا خاتمہ کرنے کے لئے ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر کسی ایک فرد یا خاندان پر سارا بوجھ ڈال کر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ یہ صورت حال بدلنے کے لئے عورت کے احترام اور ہر انسان کی خواہ وہ عورت ہو یا مرد، بچہ ہو یا بڑا ۔۔۔ انفرادیت کو تسلیم کرنے کے اصول کو قبول کرنا ہوگا۔
یہ طے کرنا ضروری ہے کہ بچی خواہ چھوٹی ہو یا بڑی اس کے باپ کو نہ تو ذبردستی اس کی شادی کرنے کا حق ہے، نہ اسے تعلیم حاصل کرنے سے روکنا اس کے اختیار میں ہے اور نہ ہی وہ لین دین میں بچیوں اور عورتوں کو جنس کے طور پر استعمال کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ صنفی استحصال کے خاتمہ کی یہ تحریک ہر گھر اور ہر گلی میں شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ جو عناصر مذہب، اخلاق یا تہذیب کے نام پر اس کی مزاحمت کرنے کی کوشش کریں ، سب سے پہلے انہیں سماجی جرائم کا ذمہ دار قرار دے کر ان کا ہاتھ، زبان اور دسترس کو روکنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔
(بشکریہ:کاروان ۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ