آج جاگنے کی رات ہے ۔ ایسی بہت سی راتوں میں سے ایک رات کہ جس میں بہت سے وسوسے ہیں، بے یقینی ہے اور ہیجان ہے ۔ ہم جو برس ہا برس سے بے خواب راتوں کے اسیر ہیں ایسی راتوں کو بار بار جھیلنے کے باوجود ان کے عادی کیوں نہیں ہو سکے ؟ اس سوال کا جواب آج کی رات تو تلاش ہی نہیں کیا جا سکتا ۔
یہ پانامہ نائیٹ ہے ۔ انتظار کی رات ہے۔ ایسی رات کہ جس میں ہم خود کو ایک بار پھر دوراہے پر دیکھ رہے ہیں۔ ایک راستہ ہے کہ جس کے بارے میں معلوم ہی نہیں کہ یہ ہمیں کس گلی میں لے جائے گا ؟ اور ہمیں اس دوراہے پر آواز سنائی دیتی ہے کسی چوکیدار کی جو سیٹی بجاتا ہے اور معمول کے مطابق آواز لگاتا ہے
’’ جاگتے رہنا بھئی ، جاگتے رہنا ‘‘
یہ آواز رات کے اس پہر بھی سنائی دے رہی ہے کبھی بہت دور سے اور کبھی بہت قریب سے ۔ اور چوکیدار کی یہ آواز ہمیں مزید پریشان کر رہی ہے ۔ ذہن میں سوال یہ ابھرتا ہے کہ اگر چوکیدار ہماری حفاظت کے لئے خود بھی جاگ رہا ہے تو ہمیں جاگتے رہنے کی تنبیہ کیوں کر رہا ہے ؟
صبح عدالت لگے گی ، تاریخ گواہ ہے کہ عدالت جب بھی لگی فیصلہ ہمارے حق میں نہیں آیا ۔ تو کیا صبح جو عدالت لگے گی وہ واقعی ہمارے حق میں فیصلہ دے گی ؟ اور کیا جو فیصلہ ہمارے حق میں ہو گا اس سے ہمیں کوئی فائدہ بھی ہو گا ؟ یا وہ فیصلہ بھی پاکستان کے ‘‘ وسیع تر مفاد‘‘ میں ہو گا ؟
سو آیئے آج کی رات بھی جاگ کر گزارتے ہیں کہ یہ رات کہیں سازش کی رات نہ ہو ۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں کیا ہو رہا ہے ہم غلاموں کا بھلا اس سے کیا لینا دینا ۔ ہم جاگنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں ناں تو پھر پریشانی کس بات کی ۔۔ آئیں آج کی رات بھی جاگتے ہیں کہ خواب دیکھنے والوں کی بے خواب راتیں ان کے جیون کا حصہ ہوتی ہیں۔
سوچتے ہیں ، غور کرتے ہیں، الجھے ہوئے تار سلجھاتے ہیں اور پھر خود سے الجھتے ہیں ۔ طاقت کے کھیل میں طاقت ور کون ہے ؟ اور طاقت کا سرچشمہ کہاں ہے ؟
آج کی رات انہی سوالوں میں الجھنے کی رات ہے اور صبح کیا ہونا ہے اس پر سوچ بچار کی رات ہے اور کیا آج کی رات کے بعد واقعی صبح ہونے والی ہے ؟ یہ تو مضحکہ خیز سوال ہے ۔ آج کی رات ایسے سوال کرنے والے کرپشن کے حامی کہلائیں گے سو ان سوالات کو کل پر اٹھا رکھتے ہیں اور فیصلے کا انتظار کرتے ہیں
فیس بک کمینٹ