لاہور ہائی کورٹ کے ریویو بورڈ نے جماعت الدعوۃ کے سربراہ اور دہشت گردی کے الزام میں عالمی طور سے مطلوب حافظ محمد سعید کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ حافظ سعید نے رہائی کے اس حکم کو بھارت کے منہ پر طمانچہ قرار دیا ہے۔ یوں تو ملک کی ایک اعلیٰ عدالت نے ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے جو بھارت سے دشمنی کو پاکستان کی سرخروئی قرار دینے والا ہر ’’مغرور‘‘ پاکستانی فرد یا ادارہ بھی سرانجام دینا چاہتا ہے۔ ملک میں ایسے دعویداروں کی کمی نہیں ہے جو دہلی کے لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کو اہل پاکستان کا نصب العین قرار دیتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ اگر حکومت میں حوصلہ اور دم ہو تو پاک فوج کسی مشکل کے بغیر یہ کارنامہ سرانجام دے سکتی ہے۔ لیکن اس تعلّی سے قطع نظر اگر ملک کے حالات اور پاکستان کے دنیا بھر کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو حافظ سعید کی رہائی امریکہ کے اس دعوے اور بھارت کے پروپیگنڈا کی حوصلہ افزائی کرے گی کہ پاکستان دہشت گرد عناصر کی سرپرستی کرتا ہے اور ہمسایہ ملکوں میں خواہ وہ بھارت ہو یا افغانستان، مسلح جنگجوؤں کی حمایت کرتا ہے تاکہ اس طرح وہ اپنے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ اب تو ایران بھی دبے لفظوں میں پاکستان پر ایسے ہی الزامات عائد کرتا ہے۔
اس کے باوصف لاہور ہائی کورٹ کے فاضل جج یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حافظ سعید یا ان کی سرپرستی میں سرگرم عناصر کیوں کر پاکستان کے مفادات کےلئے مضر ہیں۔ ہائی کورٹ کے ریویو بورڈ نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ یہ وضاحت کرے کہ ایک شخص کی رہائی سے کون سی قیامت برپا ہو جائے گی اور صرف حافظ سعید کی وجہ سے ملک کو مالی امداد اور خارجہ تعلقات میں کیوں کر مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ البتہ حکومت نے وزارت خزانہ کے جس بزرجمہر کو اس موقف کی وضاحت کےلئے ہائی کورٹ بھیجا تھا، وہ فاضل ججوں کی تسلی کروانے اور یہ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ حافظ سعید اور ان جیسے چند دوسرے افراد عالمی سطح پر ملکی مفادات کےلئے شدید نقصان کا سبب بن رہے ہیں۔ اس لئے اب حکومت کو کسی ایسے فاضل شخص کی تلاش ہونی چاہئے جو فاضل ترین ججوں کو یہ باور کروا سکے کہ حافظ سعید کو عالمی دہشت گردوں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اور ایک ایسے عہد میں جب عقیدہ اور مذہبی افتخار کا نعرہ بلند کرتے ہوئے دنیا کے پر خطہ میں بے گناہ انسانوں کو ہلاک کرنے کا سلسلہ روز بروز دراز ہو رہا ہے، وہ تمام لوگ کسی بھی ملک کی شہرت کے لئے بدنما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں جو دہشت ، جنگ جوئی اور تشدد کا پرچار کرتے ہیں۔ اس مقصد کےلئے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور نوجوانوں کی تربیت کرکے انہیں ’’خودکش‘‘ حملے کرنے یا دھماکے کرنے کے لئے روانہ کرنے میں ملوث ہوتے ہیں۔ حافظ سعید کے بارے میں بھلے لاہور ہائی کورٹ کے جج یہ قیاس کئے بیٹھے ہوں کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں ہے لیکن اگر وہ اخبار کا مطالعہ کرتے ہوں یا حالات حاضرہ سے باخبر ہوں تو انہیں علم ہونا چاہئے کہ ان کا نام نہ صرف عالمی دہشت گردوں میں شامل ہے بلکہ ان پر 2008 میں ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام ہے۔ ان حملوں میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے 164 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں چند امریکی بھی شامل تھے۔ اسی لئے امریکہ نے حافظ سعید کی گرفتاری یا ہلاکت پر 10 ملین ڈالر کا انعام مقرر کیا ہوا ہے۔
پاکستان میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ امریکہ نے یہ اقدام بھارت کو خوش کرنے کےلئے کیا ہے کیونکہ اس کے ساتھ امریکہ کے اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات وابستہ ہیں۔ لیکن یہ دلیل دینے والوں سے یہ استفسار کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ امریکہ روایتی طور پر پاکستان کا حلیف رہا ہے۔ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ یہ دوستی اور باہمی اعتماد آہستہ آہستہ مخاصمت، ضد ، الزام تراشی اور بداعتمادی کی حدود کو پار کرتا ہوا دشمنی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بھلے پاکستان نے گزشتہ چند دہائیوں میں چین جیسی بڑی ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کے ساتھ مراسم استوار کئے ہوں۔ اور خواہ چین بھی پاکستان میں اپنے مفادات کی وجہ سے اس کی سفارتی امداد کرنے کےلئے ہر حد عبور کرنے پر آمادگی ظاہر کرتا ہو لیکن کیا پاکستان جیسا غریب، ترقی پذیر اور دشمنوں میں گھرا ہوا ملک امریکہ جیسی سپر پاور کے ساتھ دشمنی کا خطرہ مول سکتا ہے۔ رہا سوال چین کی دوستی کا تو پاکستانی حکام اور عوام کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ چین اگرچہ وقتی سفارتی اور سیاسی ضرورتوں کےلئے پاکستان کے بعض تقاضے پورے کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جن میں بھارت کی بار بار کوششوں کے باوجود مولانا مسعود اظہر کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہونے سے روکنا شامل ہے ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن چینی حکومت اپنے ہی صوبے سنکیانگ میں چینی مسلمان آبادی کے ساتھ جو سلوک روا رکھتی ہے، اس سے چین کی اصل پالسی یا طویل المدت حکمت عملی کے بارے میں کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونا، خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
پاکستانی اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی سادہ لوحی طرفہ تماشا ہے۔ ایک طرف انہیں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ایک شخص ملک کے مفادات کےلئے کیوں کر نقصان دہ ہو سکتا ہے تو پاناما مقدمہ میں سپریم کورٹ کے ججوں کو وزیراعظم کو برطرف کرنے کےلئے لغت میں معانی تلاش کرکے ، اپنے دلائل مرتب کرنے میں مضائقہ نہیں ہوتا۔ اس قسم کے عدالتی احکامات غربت کی ستائی، مسائل کی ماری اور نعروں پر آگے بڑھتی پاکستانی قوم میں مقبولیت کا سامان تو بہم پہنچا سکتے ہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا وہ قانون کے تقاضے اور انصاف کے اصول پر پورا اترنے میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں۔ قانون اور آئین کو موم کی ناک نہیں ہونا چاہئے کہ فیض آباد کے دھرنے پر سپریم کورٹ یہ کہہ کر از خود نوٹس لے سکے کہ اس سے عوام کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے لیکن دوسری طرف عالمی دہشت گردی کے بارے میں یہ سوال کیا جائے کہ اسے آزاد کرنے سے ملک کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ عدالتوں کو اگر سیاسی معاملات کو آئین و قانون عینک سے دیکھنا ہے تو انہیں چند اصول واضح کر لینے چاہئیں اور یہ طے کر لینا چاہئے کہ کیا پاکستان کسی ایسے جزیرے کا نام ہے کہ اس میں کئے گئے اقدامات عالمی منظر نامہ پر ابھرنے والی حقیقتوں سے بے خبر ہو کر کئے جا سکتے ہیں اور ان سے پاکستان اور اس کے عوام کو نقصان بھی نہیں پہنچے گا۔ پاکستان اس دنیا کا حصہ ہے جسے اب گلوبل ولیج قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں لوگ اور قومیں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ ایک جگہ کہی ہوئی بات اور کیا گیا اقدام دوسری جگہ پر رجسٹر ہوتا ہے اور اس کا ردعمل بھی سامنے آتا ہے۔
حافظ سعید اور اس قسم کے دیگر دہشت گرد عناصر کے حوالے سے حکومت پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان لوگوں سے ملک کو فائدہ پہنچتا ہے یا وہ نقصان کا سبب بن رہے ہیں۔ پاک فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کی دعویدار ہے اور واضح کرتی ہے کہ وہ واحد منظم عسکری قوت ہے جس نے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب جنگ کی ہے۔ لیکن وہ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر نظر آتی ہے کہ کون سے دہشت گرد ۔۔۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج صرف ان عناصر کو دہشت گرد مانتی ہے جو اس کی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہیں یا اس کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ ان عناصر کی سرپرستی کرتی ہے جو ہمسایہ ملکوں میں خوں ریزی میں ملوث ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں اسے اپنے مفادات کے تحفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چند برس پہلے تک پاکستان میں اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح عام تھی۔ عملی طور سے اب بھی صورتحال تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ لیکن آپریشن ضرب عضب شروع کرنے کے بعد سے یہ دعویٰ ضرور کیا جانے لگا ہے کہ اب اچھے اور برے طالبان کی تخصیص ختم کر دی گئی ہے اور ہر قسم کا جنگجو فوجی پیش قدمی کی زد میں ہے۔ قباحت صرف یہ ہے کہ امریکہ ہو یا افغانستان اور بھارت ۔۔۔۔۔ وہ اس دعویٰ کو تسلیم نہیں کرتے۔ اور جب تک یہ اتفاق رائے پیدا نہ ہو، تمام تر خلوص نیت کے باوجود دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کی باتیں دعوؤں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔
لشکر طیبہ، جیش محمد اور حقانی نیٹ ورک ایسے چند گروہوں کے نام ہیں جو کسی نہ کسی صورت پاکستان کے مفادات میں ہاتھ بٹانے کےلئے پیدا کئے گئے تھے۔ جب ان سے وابستہ عناصر کے خلاف نہ استغاثہ عدالتوں میں ثبوت لانے پر آمادہ ہو اور نہ عدالتیں ان کی تخریب کاری کو ہلاکت خیز سمجھنے پر تیار ہوں تو خرابی پیدا ہونا لازم ہے۔ اس صورتحال کو ختم کرنے کےلئے پاکستانی اداروں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ 80 کی دہائی کی پالیسیاں اور ان پر عمل کرنے والے ہرکارے، 21 ویں صدی میں مہلک ہو چکے ہیں۔ یہ زہر آلود عناصر نہ صرف عالمی سطح پر پاکستان کی تنہائی کا سبب بن رہے ہیں بلکہ ان کے شدت پسندانہ نظریات ملک کے اندر افتراق، انتشار، نفرت ، عناد اور تصادم کی کیفیت پیدا کرنے کا باعث ہیں۔ عدالتوں سمیت سب اداروں کو کوئی یہ بات سمجھا نہیں سکتا۔ انہیں خود اس کا ادراک کرنا ہوگا ورنہ وہ ایک دوسرے سے تو دست و گریباں ہو سکتے ہیں لیکن عملی طور پر ان کا طرز عمل پاکستان اور اس کے عوام کےلئے مشکلات و مصائب پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )