امرتا نے یہ سوال سنا تو حیران رہ گئی۔ وہ بیٹے سے اس سوال کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ بیٹا نوروز اپنی ماں کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ ایسے میں امرتا نے کہا:
’’جی ہاں بیٹا! اچھے تو مجھے بھی لگتے ہیں پر اگر یہ سچ ہوتا تو مَیں تم کو ضرور بتا دیتی۔‘‘
قارئین کرام! آج ہم ساحر اور امرتا کو اس لیے یاد کر رہے ہیں ساحر نے 25 اکتوبر 1980ء میں کوچ کیا جبکہ امرتا پریتم نے اکتوبر کی 31، 2005ء کو رختِ سفر باندھا۔ زندگی میں ایک دوسرے کو نہ ملنے والے موت کے بعد اکتوبر کے آخری دنوں میں زمین کا رزق بن گئے۔
امرتا نے اپنے مرنے سے قبل کہا تھا:
’’انسان زندہ ہونے کے باوجود زندگی کو نہیں سمجھ سکتا۔ وہ مرے بغیر موت کو کیسے سمجھ سکتا ہے۔‘‘
امرتا زندگی میں ساحر کو نہ پا سکی اور نہ ہی سمجھ سکی اس لیے وہ زندگی کے بعد موت کے راستے کی راہی ہوئی۔ ساحر سے پہلے اور بعد میں بھی امرتا کی زندگی میں لوگ آئے لیکن امرتا نے ساحر اور امروز کے علاوہ کسی اور کے لیے شاعری نہ کی۔ امرتا بتاتی تھیں لاہور ریڈیو کے ایک افسر تھے جن کو ادب سے لگاؤ تھا۔ مَیں پروگرام کر کے نکلی تو اچانک میرے سامنے آ کر کہنے لگے:
’’اگر مَیں نے آپ کو چند برس پہلے دیکھا ہوتا تو مَیں مسلمان سے سکھ ہو گیا ہوتا یا آپ سکھ سے مسلمان ہو گئی ہوتیں۔‘‘
امرتا کے سامنے یہ الفاظ اچانک ہوا میں اُبھرے اور اچانک ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ تمام زندگی ساحر کو اپنی شاعری کی وجہ سے جبکہ امرتا کو اپنی شاعری اور حسن کی وجہ سے اس سے ملتے جلتے فقرے سننے کو ملتے رہے۔
1947ء میں جب امرتا لاہور سے دہلی کی طرف سفر کر رہی تھیں تو لاہور سے دلی تک جو انہوں نے افسوسناک قتل و غارت دیکھی تووہ بے ساختہ بول اٹھی:
اَج آکھاں وارث شاہ نوں
کتوں قبراں وچوں بول
تے اَج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقاپھول۔۔۔
اِک روئی سی دھی پنجاب دی
تو بکھ بکھ مارے وین
اَج لکھاں دھیاں دھیاں روندیاں
تینوں وارث شاہ نوں کہن
اٹھ درد منداں دیا دردیا!
اٹھ تک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب۔۔۔
یہ نظم ہندوستان میں کم اور پاکستان میں زیادہ مقبول ہوئی لیکن اس نظم کی تخلیق کے باوجود بھارت میں امرتا پریتم کے احترام میں کہیں کمی نہ آئی۔ وہ مرتے دم تک پوری دنیا میں چاہی گئی۔ اسی چاہت کی وجہ سے وہ لکھتی رہی اور خوب لکھتی رہی۔
عشق پوچھتا ہے اے زندگی بتا
دن کیسے گزارے؟
زندگی کہتی ہے
مَیں نے تمہارے نام کی مہندی لگائی
تیرے سپنے سجائے
عشق پوچھتا ہے اے زندگی بتا
نین کیسے روتے ہیں
زندگی کہتی ہے
مَیں نے تیری زلفوں میں لاکھوں ستارے گوندھے
عشق پوچھتا ہے اے زندگی بتا
آگ کیسے بڑھی
زندگی کہتی ہے
مَیں نے تیری آتش پروں کے نیچے چھپائی ہے
عشق پوچھتا ہے اے زندگی بتا
عمر کیسے بیتی
زندگی کہتی ہے
مَیں نے تیرے نام پر یہ عمر سو مرتبہ واری
عشق کے نام اپنی زندگی سو مرتبہ ساحر اور امروز پر وارنے والی کبھی ساحر کے نام خط لکھتی ہے تو کہتی ہے میرے سپنے میں صرف ساحر آتا ہے اور جب امرتا کی زندگی میں امروز کی پریم کہانی داخل ہوتی ہے تو وہ اس کینوس کے سامنے کھڑے ہو کر کہتی ہے:
مَیں تینوں فیر ملاں گی
کِتھے؟ کس طرح؟ پتا نہیں
شاید تیرے تخیل دی چھنک بن کے
تیرے کینوس تے اتراں گی
یا ہورے تیرے کینوس دے اُتے
اک رہسمئی لکیر بن کے
خاموش تینوں تکدی رواں گی
یا ہورے سورج دی لو بن کے
تیرے رنگاں اچ گھلاں گی
یا رنگا دیاں باہنواں اچ بیٹھ کے
تیرے کینوس نو ولاں گی
پتا نئیں کس طرح، کتھے
پر تینوں ضرور ملاں گی
یا ہورے اک چشمہ بنی ہوواں گی
تے جیویں جھرنیاں دا پانی اڈدا
مَیں پانی دیاں بونداں
تیرے پنڈے تے ملاں گی
تے اک ٹھنڈک جئی بن کے
تیرے چھاتی دے نال لگاں گی
مَیں ہور کج نئیں جاندی
پر اینا جاندی آں
کہ وقت جو وی کرے گا
اے جنم میرے نال ٹرے گا
اے جسم مُکدا اے
تے سب کج مُک جاندا
پر چیتیاں دے تاگے
کائناتی کنا دے ہوندے
مَیں انہاں کنا نو چناں گی
تاگیاں نو ولاں گی
تے تینوں فیر ملاں گی
فیس بک کمینٹ