اسلام آباد پولیس نے عمران خان کی دو بہنوں سمیت تحریک انصاف کے درجنوں کارکنوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ شہر کو کنٹینر لگا کر بند کیاگیا ہے اور اسلام آباد کے علاوہ راولپنڈی میں موبائل سروس معطل ہے۔ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور بڑے جلوس کے ہمراہ اسلام آباد پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں اور ان کا اعلان ہے کہ وہ ہر قیمت پر ڈی گراؤنڈ پہنچیں گے کیوں کہ یہ ان کے قائد کا حکم ہے۔ تاہم تحریک انصاف نے آج ڈی گراؤنڈ میں لوگوں کو جمع کرنے میں ناکامی کے بعد ہفتہ کے روز لاہور کے مینار پاکستان پر مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اسلام آباد کے علاوہ پنجاب کے بیشتر شہروں میں دفعہ 144 نافذ ہے جس کے تحت کسی قسم کے اجتماع کی اجازت نہیں ۔ اس کے باوجود عمران خان بار بار ’پر امن‘ احتجاج کرنے کی کال دے رہے ہیں اور تحریک انصاف کے لیڈر الزام لگاتے ہیں کہ وہ تو پر امن احتجاج کے لیے نکلتے ہیں لیکن حکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے تشدد کرتی ہے جس کی وجہ سے حالات خراب ہوتے ہیں۔ البتہ حقیقت یہی ہے کہ تحریک انصاف گزشتہ چند ہفتوں کے دوران بار بار کوشش کرنے کے باوجود کوئی بڑا احتجاجی جلسہ منعقد کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اگرچہ یہ بھی درست ہے کہ حکومت نے اس قسم کے اجتماع کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی اور جلسہ کرنے کی اجازت دینے کے لیے کڑی شرائط عائد کی جاتی رہی ہیں۔ اسلام آباد میں جلسہ کے دوران ان شرائط کی خلاف ورزی پر تحریک انصاف کے متعدد لیڈروں کو مقدمات کا سامنا ہے جبکہ لاہور میں ایسا ہی اجتماع پولیس نے مقررہ وقت پر ختم کروادیا۔ گویا اس جلسہ میں مظاہرین کی اتنی تعداد بھی موجود نہیں تھی کہ وہ پولیس یا انتظامیہ کی زور ذبردستی کا مقابلہ کرسکتی۔
اس حکمت عملی میں ناکام ہونے کے بعد ہی عمران خان نےگزشتہ اتوار کو لیاقت آباد میں حسب پروگرام جلسہ کرنے کے اعلان کو واپس لے کر اچانک احتجاج کرنے اور جلوس نکالنے کا حکم دیا۔ تحریک انصاف کی یہ کوشش بھی ناکام ہوئی تھی۔ وزیر اعلیٰ کے پی کے بڑے ہجوم اور رکاوٹیں ہٹانے والی مشینری کے ساتھ لیاقت باغ کی طرف رواں دواں تھےکہ اچانک انہوں نے واپس پشاور جانے کا ارادہ کرلیا۔ اس ناکامی کے بعد تحریک انصاف میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں اور خبروں کے مطابق عمران خان ، علی امین گنڈا پور سے سخت ناراض ہوئے ۔ اس کے ساتھ ہی 4 اکتوبر کو ڈی گراؤنڈ پر احتجاج کرنے کی کال دی گئی اور خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ سے کہا گیا کہ انہیں ہر صورت ڈی گراؤنڈ پہنچنا ہے چاہے اس کے لیے انہیں کتنا ہی وقت کیوں نہ صرف کرنا پڑے۔ پاکستان سے موصول ہونے والی خبروں کے مطابق رات گئے تک علی امین گنڈا پور پشاور سے روانہ ہونے کے باوجود اسلام آباد نہیں پہنچ سکے تھے ۔ وہ راستے میں ہی قیام کرتے ہوئے پر جوش تقریروں سے اپنے لوگوں کا دل گرما رہے ہیں اور اعلان کررہے ہیں کہ وہ ہر صورت ڈی گراؤنڈ پہنچیں گے خواہ وہ احتجاج کرنے والے اکیلے ہی رہ جائیں، جس نے گولی مارنی ہے مار دے۔ حالانکہ امین گنڈا پور کے علاوہ تحریک انصف کی پوری قیادت کو علم ہے کہ کسی ایک آدمی کے ڈی گراؤنڈ پہنچنے سے حکومت کو کوئی مسئلہ نہیں ۔ حکومت کی پریشانی یہ ہے کہ تحریک انصاف احتجاج کے نام پر لوگ جمع کرکے حساس اداروں یا پارلیمنٹ پر حملے کرنے کی تاریخ دہرائے جائے گی۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے گزشتہ روز تحریک انصاف سے اپیل کی تھی کہ ملائیشیا کے وزیر اعظم سرکاری دورے پر پاکستان آئے ہوئے ہیں، اس لیے پارٹی احتجاج کا پروگرام مؤخر کردے۔ آج وزیر داخلہ نے بتایا ہے کہ خیبر پختون سے آنے والا ہجوم مسلح ہوکر آرہا ہے۔ یہ کوئی عام احتجاجی نہیں ہیں بلکہ اسلام آباد پر ’حملہ آور ‘ ہونے کے لیے آرہے ہیں۔ اس قسم کے احتجاج اور لاقانونیت کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس دوران میں جمیعت علمائے اسلام (ف) کے قائد مولانا فضل الرحمان نے بھی تحریک انصاف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس وقت اسلام آباد آکر احتجاج کا ارادہ ترک کردیں کیوں کہ بیرون ملک سے اہم مہمان دارالحکومت آئے ہوئے ہیں۔ دس بارہ دن میں اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس بھی ہونے والا ہے۔ اس اجلاس کے بعد احتجاج کا پروگرام بنا لیا جائے۔ اگرچہ تحریک انصاف حکومت کے خلاف سیاسی اتحاد بنانے کے لیے مولانا کے ساتھ پینگیں بڑھا رہی ہے لیکن ان کے اس مشورہ پر عمل کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ یوں لگتا ہے کہ عمران خان احتجاجی سیاست کے لیے اکیلے ہی میدان عمل میں سرگرم رہنا چاہتے ہیں۔ البتہ وہ اب تک اپنی حکمت عملی میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ البتہ جیسے وہ احتجاج کے لیے اپنے کارکنوں کو باہر نکلنے پر اکساتے ہیں، اس سے کسی بھی وقت کسی بڑے تصادم کا اندیشہ موجود ہے۔ تصادم میں انسانی جانوں کے ضیاع سے کوئی سیاسی مسئلہ تو حل نہیں ہوگا لیکن ملک میں انتشار و بے چینی میں مزید اضافہ ہوگا۔
تحریک انصاف کی بے چینی کی سب سے بڑی وجہ عمران خان کی مسلسل حراست ہے۔ پارٹی کا مؤقف ہے کہ عمران خان کو جان بوجھ کر کسی جائز قانونی بنیاد کے بغیر قید رکھا گیا ہےاور وہ ان کی رہائی کے لیے اپنا آئینی و قانونی حق استعمال کررہی ہے۔ اس حد تک بات قابل فہم ہے۔ حکومت کو بھی پارٹی کی اس بے چینی کا اندازہ ہونا چاہئے۔ حکومتی عہدیداروں سمیت سب لوگ ملک کے موجودہ جمہوری انتظام میں پرامن احتجاج کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن حیرت ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت اس کے باوجود تحریک انصاف کو جلسے کرنے یااب احتجاجی جلوس نکالنے کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ ا س کی کوئی بھی انتظامی وجوہات ہوں لیکن حکومت کے پاس اس کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف ایک طرف پر امن احتجاج کی بات کرتی ہے لیکن اس کے لیڈروں کے بیانات اور طرز عمل اشتعال انگیز ہوتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ وہ مرنے یا مارنے پر تلے ہوئے ہیں اور ملک میں کوئی بڑا انقلاب لاکر ہی دم لیں گے۔
گو کہ موجودہ حکومت غیر مقبول ہے اور انتخابات کے بارے میں پائے جانے والے شبہات کی وجہ سے اس کے حق حکمرانی پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ البتہ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا کسی ایک غیر قانونی اقدام کے بعد اس کا مقابلہ کرنے کے لیے قانون ہاتھ میں لینا جائز ہے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کوئی عمدہ اور مثبت مثال قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہورہی۔ اس کے لیڈر نہ صرف اشتعال انگیز بیانات دیتے ہیں بلکہ جلسوں میں بھی ایسی تقاریر کی جاتی ہیں جو قانون کی گرفت میں آتی ہیں۔ اسی طرح دفعہ 144 نافذ کرنے کے خلاف کسی عدالت سے حکم لینے کی بجائے اس کی خلاف ورزی کرنے کا اعلان کسی بھی لحاظ سے پر امن احتجاج کے ضمن میں نہیں آتا۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف اپنی تضاد بیانی اور طرز عمل سے حکومت کو یقین دلانے میں کامیاب نہیں ہے کہ وہ حقیقتاً قانون کی پابندی کرے گی اور لوگوں کو احتجاج کے نام پر تشدد اور فسادپر نہیں اکسائے گی۔
اس حوالے سے خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کا کردار بھی مشکوک اور ناقابل قبول ہے۔ وہ اپنی حرکتوں اور بیانات سے یہ تاثر دیتے ہیں جیسے ایک صوبہ وفاق یا اس کی دیگر اکائیوں یعنی پنجاب کے خلاف جنگ آزما ہے۔ سیاسی مقصد خواہ کتنا ہی مقدس کیوں نہ ہو لیکن اگر اسے حاصل کرنے کے لیے ایک صوبے کی انتظامی طاقت کو بروئے کار لایا جائے گا تو یہ ملک میں فساد پیدا کرنے کا سبب ہی بنے گا۔ علی امین گنڈا پور جب بھی جلوس لے کر پنجاب یا وفاقی دارالحکومت آنے کا اعلان کرتے ہیں تو ان کے ساتھ بھاری مشینری اور دیگر ساز وسامان ہوتا ہے اور ان کی للکار سے یہی گمان ہوتا ہے جیسے وہ کسی دشمن ملک پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ کسی بھی صوبے کی حکومت کو وفاق یا دوسرے صوبے کے خلاف ایسی محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہئے۔ اس کے برعکس خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ اور ان کے معاونین پنجاب پولیس کو اٹھالینے اور کے پی کے لے جا کر ان کے ساتھ وہی ’سلوک‘ کرنےکا اعلان کرتے ہیں جو بقول ان کے پنجاب پولیس ان کے ساتھ روا رکھتی ہے۔
پنجاب پولیس کے طرز عمل اور غلط حکومتی فیصلوں کے باوجود کیا کسی ایک صوبے کے انتظامی سربراہ کو کسی دوسرے صوبے کی حکومت اور انتظامیہ کے خلاف ایسے دھمکی آمیز بیانات دینے سے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ اس وقت یوں لگتا ہے کہ تحریک انصاف خیبر پختون خوا میں اپنی سیاسی و انتظامی طاقت کی بنیاد پر پورے ملک کی حکومت حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ بدقسمتی سے اگر ملک میں یہ روایت قائم ہوگئی تو اس ملک میں جمہوریت ہی نہیں بلکہ کسی بھی باختیار حکومتی انتظام کو خیر باد کہہ دینا چاہئے۔ دریں حالات خیبر پختون خوا کی حکومت کے طرز عمل کی وجہ سے یہ امکان روشن ہوتا جارہا ہے کہ تحریک انصاف اپنی کوتاہ اندیشی کی وجہ سے اس صوبے میں دو طرح سے ناکام ہوسکتی ہے۔ ایک وفاقی حکومت، صوبائی حکومت کی غیر قانونی حرکتوں کی وجہ سے وہاں گورنر راج نافذ کردے اور منتخب حکومت کو ختم کردیا جائے۔ دوئم تحریک انصاف کی حکومت اگر صوبے کے عوام کوسہولتیں دینے کی بجائے اپنی تمام صلاحیتیں احتجاج اور پنجاب یا وفاق کی حکومت کو نیچا دکھانے پر صرف کرے گی تو عوام کی اکثریت آئیندہ اتخاب میں بیزار ہوکر پی ٹی آئی کو ووٹ دینے سے گریز کرے ۔
سیاسی ختلافات کو پرامن حکمت عملی سے حل کرنا ضروری ہے۔ حکومت سے ضرور اس کا مطالبہ ہونا چاہئے لیکن اپوزیشن کو بھی قانون شکنی کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ عمران خان ضرور مقبول لیڈر ہیں لیکن کسی بھی لیڈر کی مقبولیت انتخابات میں لازمی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتی۔ عوام کی اکثریت ایسے لوگوں کو ووٹ دینا چاہتی ہے جو اقتدار میں آکر ان کے لے سہولتیں فراہم کریں۔ اگر کوئی پارٹی ووٹ لے کر عوام کی مشکلات میں مسلسل اضافہ کرے گی تو یہی رائے اس کے خلاف بھی ہموار ہوسکتی ہے۔ اس وقت جو صورت حال پیدا کی گئی ہے، اس میں تو یہی لگتا ہے کہ صرف حکومت ہی بدحواس اور ہراساں نہیں ہے بلکہ تحریک انصاف بھی شدید گھبراہٹ کا شکار ہے۔
تحریک انصاف کو ضرور احتجاج کرنا چاہئے لیکن اس کے لیے کچھ ضابطے مان لینے چاہئیں۔ سیاسی احتجاج کے لیے سوشل میڈیا پر مخالفین کے بارے میں اختیار کی جانے والی بے راہروی اختیار کرنے سے پارٹی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچے گا۔ یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ تمام تر خواہش و کوشش کے باوجود عمران خان یا تحریک انصاف اتنی بڑی تعداد میں لوگ گھروں سے باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہورہی جس سے کوئی سیاسی تاثر قائم ہوسکے یا حکومت اس ہجوم کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور ہوجائے۔ حکومت کے جبر سے زیادہ یہ ناکامی درحقیقت تحریک انصاف کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے بہتر حکمت عملی اور ٹھوس سیاسی منصوبے کی ضرورت ہے۔ ایک صوبے کے اقتدار کو ناقص سیاسی حکمت عملی کی نذر کرنا دانشمندی نہیں ہوگی۔
( بشکریہ :کاروان ۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ