یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک پر ضیا الحق جیسے ڈکٹیٹر کا قبضہ تھا۔ 14 فروری 1978 کے اخبارات( واردات بارہ مئی کو ہوئی خبریں 13 مئی کو شائع ہوئیں : مدیر ” گرد و پیش “ ) میں سنگین واردات کی خبر شائع ہوئی جو کچھ یوں تھی کہ’’ملک کی ہر دلعزیز اداکارہ شبنم کے ہاں ڈکیتی کی لرزہ خیز واردات‘‘۔ ملزمان نے رات ڈھلتے کوٹھی ( واقع 9 بی گلبرگ لاہور ) کا محاصرہ کیا صبح 4 بجے کے قریب وہ اندر داخل ہوئے، اداکارہ کے شوہر روبن گھوش اور بیٹے رونی کو مار دینے کی دھمکیاں اور 5 لاکھ روپیہ ادا کرنے کے مطالبے پر اہل خانہ کو رسیوں سے باندھ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس گھناؤنی واردات میں ملوث ملزمان نے اجتماعی طور پر اداکارہ کے ساتھ زیادتی بھی کی تھی۔ واردات میں ملوث 7 ملزمان جن میں محمد فاروق بندیال ،وسیم یعقوب بٹ ، طاہر تنویر، جمیل احمد چٹھہ ، جمیشد اکبر ساہی ، محمد ظفراور آغا عقیل احمدشامل تھے۔ اداکارہ شبنم اور ان کے شوہر موسیقار روبن گھوش لوگوں کے محبوب ترین فنکار تھے ان کے ساتھ یوں زیادتی پر پورے ملک پر غم وغصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔ چنانچہ پولیس نے بھاگ دوڑ کرکے واقعہ میں ملوث ملزمان گرفتار کرلئے۔ حیران کن امر تھاکہ تمام ملزمان کھاتے پیتے اور بااثر گھرانوں سے تھے، گروہ کے سرغنہ فاروق بندیال کا تعلق خوشاب سے تھا جس کے حقیقی ماموں اے کے بندیال اس وقت صوبہ پنجاب کے ہوم سیکرٹری تھے۔ فاروق بندیا ل سمیت دوسرے ملزمان پنجاب کے بہترین کالج گورنمنٹ کالج سے فارغ التحصیل تھے۔
مارشل لاء ہیڈ کوارٹر نے اس ہائی پروفائل مقدمہ کی سماعت کے لئے اسپیشل ملٹری کورٹ نمبر 6 قائم کی جس نے تمام ملزمان کو سزائے موت سنائی جس کے باعث مارشل لاحکومت کی نیک نامی ہوئی۔ بعدازاں ملک کے صدر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاالحق نے ملزمان کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا۔ اس قبیح واردات میں ملوث مجرمان سے رعایت برتنے کا جواز معروف وکیل ایس ایم ظفر کے ایک خط کو بنایا گیا۔ جس میں استدعا کی گئی تھی کہ ملزمان پڑھے لکھے اور شریف گھرانوں سے ہیں لہذا انہیں سدھرنے اور جینے کا موقع فراہم کیاجائے۔ حیرت ناک امر یہ تھا کہ ایس ایم ظفر اداکارہ شبنم کے وکیل تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے ملزمان سے رعایت برتنے کی اپیل کی۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملزمان کا تعلق کس قدر بااثر گھرانوں سے تھا جو ملٹری کورٹ کے سزایافتہ مجرمان کو پھانسی گھاٹ سے چھڑا لائے اور اس کے لئے انہوں نے مدعیہ کے وکیل کے ذریعے ہی قانونی جواز ڈھونڈ لیا۔ یہ گروہ جس کا سرغنہ فاروق بندیال تھا اس کے بارے میں مزید تفصیلات سامنے آئیں کہ شبنم ڈکیتی سے قبل یہ اوباش افراد اداکارہ زمرد سمیت بعض دوسری اداکاراوں کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنا چکے تھے۔ یہ اداکارائیں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر اس لئے چپ سادھ گئیں کیونکہ انہیں یقین تھاکہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔ اداکارہ شبنم اور ان کے شوہر روبن گھوش دونوں بنگالی تھے وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر خاموش نہ رہے۔ دونوں نے انصاف کے حصول کے لئے سخت ذہنی اذیت کا سامنا کیا، ان کے اکلوتے بیٹے رونی کو قتل کرنے کی دھمکیاں بھی دیں گئیں لیکن وہ پیچھے نہ ہٹے۔ فاروق بندیال کا نام اس ملک کے لوگوں کے لئے ظلم وبربریت کے ایک استعارہ کے طور پر ہمیشہ یاد رہا ہے۔
40 سال بعد یکایک یہ انکشاف ہوا کہ اس شخص کو پی ٹی آئی میں شامل کر لیا گیاہے۔ ممکن ہے کہ فاروق بندیال کو کوئی ذمہ داری دی جاتی مگر سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا ہو گیا کہ ایک ایسی جماعت جس کا دعویٰ ہے کہ وہ ہر قسم کی کرپشن اور اخلاقی برائی سے ماورا ہے ملٹری کورٹ سے سزایافتہ شخص کو اس پارٹی میں شامل کر لیا گیا ہے۔ جونہی بات سوشل میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا تک پہنچی صرف چند گھنٹوں میں فیصلہ ہو گیا کہ فاروق بندیال کو پی ٹی آئی سے علیحدہ کیا جائے گا۔ اس کا کریڈٹ ان ٹاک شوز کو جاتاہے جنہوں نے چند منٹوں میں عمران خان اور فاروق بندیال کی وہ تصویر ان گنت لوگوں کو دکھادی جس میں کپتان اپنے ہاتھوں سے نئے کھلاڑی کی دستار بندی کررہے ہیں۔ نعیم الحق اور فواد چوہدری نے کہا کہ ایسے شخص کو کسی پارٹی میں نہیں ہونا چاہیے تاہم پی ٹی آئی کے نئے رطب اللسان ندیم افضل چن نے کہا ہے کہ فاروق بندیال کو گزشتہ 30 سا ل سے جانتے ہیں وہ کسی قسم کے اخلاقی جرم میں ملوث نہیں رہے۔ چن نے کہا کہ جب تک فاروق بندیال نون لیگ میں رہا وہ اخلاقی مجرم نہیں تھا۔ پی ٹی آئی میں آتے ہی یہ شخص قومی مجرم بن گیا۔
ریکارڈ کے مطابق نون لیگ کے قائدین جلسے جلوسوں ،کالموں ،کتابوں اور الیکٹرانک میڈیا میں ہی پارسائی کے دعوے کرتے ہیں حقیقت میں تو مالیاتی کرپشن کے علاوہ ان صفوں میں تعزیرات پاکستان کو عنوان دیتا ہر نمونہ دستیاب ہے۔ پیپلز پارٹی ایسی جماعت ہے جس کے خلاف یوں تو ’’عجب کرپشن کی غضب کہانیاں ‘‘نشر کی گئیں لیکن چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرنے والوں کو اس سے دور رکھا گیا۔ وینا حیات کے ساتھ زیادتی کے جرم میں ملوث عرفان اللہ خان مروت جو سابق صدر غلام اسحاق خان کے داماد ہیں نے جب آصف زرداری سےاس خیال سے ملاقات کی کہ وہ پیپلز پارٹی کا حصہ بنیں گے تو آصفہ اور بختاور نے اس ناپسندیدہ عمل کی اس قدر شدت سے مخالفت کی کہ افہام وتفہیم کے’’وائس چانسلر‘‘ کو اپنی ڈاکٹرائن بدلنا پڑی۔ زرداری صاحب ،سابق صدر اسحاق خان کے داماد کو بھی گلے لگانے کے لئے تیار تھے جنہوں نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف کرپشن کے الزامات عائد کرکے اسے چلتا کیاتھا۔
چار دہائیاں بعد فاروق بندیال کا نام منظر عام پر آنے سے یوں محسوس ہوا جیسے زخموں سے دوبارہ خون رسنا شروع ہوجائے۔ شبنم ڈکیتی کیس اپنے زمانے کا ہائی پروفائل مقدمہ تھا جس میں ملزمان کے وکلاء صفائی میں کئی نامور نام شامل تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے اس پینل میں ڈاکٹر باسط، خالد رانجھا ، مظفر قادر، عاشق حسین رضوی ، رانا اعجاز احمد اور خواجہ سلطان احمد وغیرہ موجود تھے۔ شبنم کے ساتھ زیادتی پر ساری فلم انڈسٹری متحد تھی خاص طور پر اداکار محمد علی اور ندیم نے متاثرہ میاں بیوی کا خوب ساتھ نبھایا جبکہ شاعر خواجہ پرویز نے فنکار برادری میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے مجرموں کو معافی دلانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔
میں ان دنوں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا اور اس کیس سے متعلق تمام خبریں پڑھا کرتا تھا۔ ایک اخبار نے شبنم کی عدالتی پیشی کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا تھا کہ ’’شبنم فیروزی رنگ کی پھولدار ساڑھی میں ملبوس اور سفید چادر اوڑھے ہوئی تھیں، وہ اگرچہ اداس دکھائی دے رہی تھیں لیکن جاذب نظر اور ُپر وقار لگ رہی تھیں، عدالت کے باہر اپنی پسندیدہ اداکارہ سے اظہار یک جہتی کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا‘‘۔ ایک اخبار نے شبنم کی طرف سے ملزمان کی شناخت کرنے کے عمل کا نقشہ کھینچا تھا’’عدالت نے کہاکہ کیا آپ ملزمان کو پہچانتی ہیں؟ سوال سن کر کٹہرے میں کھڑی شبنم نے سرجھکا لیااور اس کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے، اگرچہ اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی لیکن عدالت میں پھیلی خاموشی میں اس کی سسکیاں سب سن رہے تھے، اس بار عدالت نے سخت لہجے میں کہا اپنے آپ کو سنبھالیں یہاں آپ کو قانون کے مطابق شہادت دینی ہے۔ یہ منظر دیکھتے ہوئے ملزمان کی ہوا نکل چکی تھی مگر فاروق بندیال اور جمیل چٹھہ زیر لب مسکرا رہے تھے ان کا خیال تھاکہ شبنم ان کے خلاف گواہی نہیں دے سکے گی مگر شبنم نے عدالت میں اپنے ساتھ ہونے والا ظلم بیان کیا جس کی بنا پر مقدمہ کا فیصلہ ہوا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے روبن گھوش اور شبنم کو لائف ٹائم اچیف منٹ ایوارڈ دیا تھا۔ روبن گھوش اب اس دنیا میں نہیں رہے جبکہ شبنم دوبارہ پاکستان آ گئی ہیں اور ان دنوں کراچی میں رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم شبنم کو اس قدر پیار اور احترام دیں کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی اُس زیادتی پر ہمیں دل سے معاف کردیں۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ )
فیس بک کمینٹ