مرید کے : ٹی ایل پی کے مارچ کے دوران پنجاب پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے لاہور سے اسلام آباد تک ’فلسطین ملین مارچ‘ اور اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے باہر احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔ قافلہ مرید کے پہنچ گیا ہے اور مذہبی جماعت کا کہنا ہے کہ سنیچر کی شب مریدکے میں قیام کیا جائے گا
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تحریکِ لبیک کے مارچ کے پیشِ نظر شہر کے داخلی اور خارجی راستے اور موبائل انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی ہے جبکہ راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ نے شہر میں 11 اکتوبر تک دفعہ 144 نافذ کر دی ہے
تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے پولیس سے جھڑپوں میں اپنے دو کارکنان کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے جن کی نمازِ جنازہ شیخوپورہ کی تحصیل مریدکے میں ادا کی گئی ہے۔ تاہم شیخوپورہ پولیس نے شہریوں کی ہلاکت کے اس الزام کی تردید کی ہے۔
ٹی ایل پی نے سوشل میڈیا پر اپنے دو کارکنان کی نماز جنازہ کی ادائیگی کی ویڈیوز شیئر کیں۔ ٹی ایل پی کے مطابق نماز جنازہ کے بعد نجی ایمبولینسوں کے ذریعے دونوں میتیں آبائی علاقوں کو روانہ کر دی گئی ہیں۔
تاہم شیخوپورہ پولیس کے ترجمان رانا یونس نے اس بات کی تردید کی کہ پولیس کے ساتھ تصادم میں کوئی شہری ہلاک ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی شہری ہلاک ہوا ہو تو اس کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال لایا جاتا ہے۔ پولیس کو کسی شہری کے بارے میں علم نہیں کہ اس کی لاش کو ہسپتال لایا گیا ہو۔‘
دریں اثنا کالا شاہ کاکو کے قریب پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے بعد پولیس نے درجنوں کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے جنھیں مختلف تھانوں میں بند کیا گیا۔ اب تک پولیس حکام کی طرف سے گرفتار ہونے والے کارکنوں کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔
شیخوپورہ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر بلال ظفر شیخ کا کہنا ہے کہ جن مظاہرین نے ’قانون کو ہاتھ میں لیا، ان کی نشاندہی سی سی ٹی وی کیمروں، موبائل فوٹیجز اور عینی شاہدین کے بیانات سے کی جا رہی ہے اور جو قصوروار پائے گئے انھیں حراست میں لے لیا جائے گا۔ پولیس کی چھاپہ مار ٹیمیں کارروائی کررہی ہیں۔‘
صوبائی دارالحکومت لاہور کے ڈی آئی جی آپریشنز محمد فیصل کامران کا کہنا ہے کہ مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے مظاہرین کے ساتھ تصادم میں لاہور پولیس کے 112 افسران اور اہلکار زخمی ہوئے ہیں جبکہ متعدد اہلکار لاپتہ ہیں۔
سنیچر کی شام ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محمد فیصل کامران کا کہنا تھا کہ انھیں خدشہ ہے کہ لاپتہ ہونے والے پولیس اہلکاروں کو مظاہرین نے یرغمال بنا رکھا ہے۔
دوسری جانب تحریک لبیک کا دعویٰ ہے کہ پولیس کی جانب سے کی گئی شیلنگ اور لاٹھی چارج کے باعث ان کے درجنوں کارکن زخمی ہوئے ہیں۔ تحریک لبیک نے چند ہلاکتوں کا دعویٰ بھی کیا ہے تاہم بی بی سی اس کی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں کر پایا ہے۔
فیصل کامران کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ (ٹی ایل پی کارکن) سرکاری اہلکاروں کو یرغمال بنا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اُن کے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز موجود ہیں کہ جن میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اُن کی جانب سے زخمی پولیس اہلکاروں کو ایک لائن میں بٹھا کر جشن منایا جا رہا ہے۔‘
اُنھوں نے کہا کہ پرتشدد جھڑپوں کے دوران مظاہرین کی جانب سے بڑی تعداد میں ’سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ بڑی تعداد میں عام شہریوں نے بھی 15 پر کال کر کے شکایات درج کروائی ہیں کہ اُن سے نقدی، گاڑی اور گاڑی میں موجود قیمتی اشیا چھینی گئی ہیں۔‘
دوسری جانب پنجاب پولیس کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر فراہم کی گئی تفصیلات کے مطابق ان جھڑپوں میں لاکھوں روپے مالیت کی پولیس گاڑیوں کو نقصان بھی پہنچایا گیا ہے۔
( بشکریہ :بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ

