میں یو کے آ کر خود کو بہت پرسکون محسوس کر رہا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی دنوں سے کچھ لکھنے کی تحریک نہیں مل رہی تھی۔ میں نہیں جانتا رضی بھائی یہ کالم گردوپیش میں پبلش کریں گے یا نہیں؛ لیکن آج کے واقعے پر ان کا ردعمل دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اسے اپنی ویب سائٹ میں جگہ ضرور دیں گے۔ جن کی آنکھیں اور کان بند ہیں ان کی اطلاع کے لیے آج اچھرہ بازار لاہور میں ایک معصوم خاتون کو توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر ہجوم کے ہاتھوں قتل کرنے کی کوشش کی گئی جسے ایک بہادر خاتون پولیس افسر نے ناکام بنا دیا۔ خاتون نے جو لباس پہن رکھا تھا وہ ایک برانڈڈ کمپنی کا لباس تھا۔ اس لباس پر عربی رسم الخط میں خطاطی کی کوشش کی گئی تھی۔ مجھے سوشل میڈیا سے ہی پتا چلا ہے کہ خطاطی کے ڈیزائن والا یہ لباس آج کل پاکستانی خواتین میں مقبول ہو رہا ہے۔ خیر اچھرہ بازار میں تحریک لبیک پاکستان سے تعلق رکھنے والے کچھ مذہبی جنونی موجود تھے۔ انہوں نے خاتون کے لباس پر عربی حروف لکھے دیکھے تو خاتون پر الزام لگا دیا کہ وہ حروف مقدس ہیں اور وہ لباس پہن کر خاتون نے دین اسلام کی توہین کر دی ہے۔
خاتون نے شروع میں شاید مزاحمت کی جس پر وہاں موجود لوگ مشتعل ہو گئے۔ انہوں نے خاتون سے مطالبہ کیا کہ وہ فوراً یہ لباس اتار پھینکیں ورنہ وہ انہیں مار ڈالیں گے۔ خاتون کی خوش قسمتی کہ اسی دوران وہاں ایک خاتون پولیس افسر شہربانو نقوی پہنچ گئیں۔ انہوں نے بہت جراتمندی سے مشتعل ہجوم سے خطاب کیا اور اسے پرسکون کرنے کی کوشش کی۔ پھر وہ شیرنی کی طرح مبینہ توہین کی ملزمہ کو اس متشدد ہجوم کے چنگل سے نکال کر لے گئیں جو خاتون کا سر تن سے جدا کرنے کے روایتی دہشت ناک نعرے لگا رہا تھا۔ یہ ایک انتہائی غیرمعمولی صورتحال تھی جس کو نوجوان خاتون پولیس افسر محترمہ شہربانو نقوی نے بلا کی ذہانت اور جرات سے قابو کیا اور لڑکی کی جان بچا لی۔ واقعے کے بعد پولیس اسٹیشن میں شہربانو صاحبہ نے مولویوں اور ملزمہ کے ساتھ ایک ویڈیو بنائی جس میں مولویوں نے تسلیم کیا کہ لباس پر موجود حروف مقدس نہیں تھے۔ اس کے باوجود ملزمہ نے گڑگڑا کر سب سے معافی مانگی اور عہد کیا کہ وہ آئندہ اس قسم کا لباس زیب تن نہیں کریں گی۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے۔
پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر ایک ذہنی بیماری ہے جس کا شکار کسی بھی پرتشدد یا ہولناک واقعے کا شکار ہونے والے تمام افراد ہوتے ہیں۔ کچھ کم اور کچھ زیادہ۔ خاتون فوٹیجز میں جتنی سہمی ہوئی ہیں، صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ خوفناک واقعہ اب عمر بھر ان کے اور ان کے خاندان کے ساتھ رہے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ مذہبی جنونیت اور تشدد پسندی کی ذمہ دار پاکستان کی ملا ملٹری ریاست ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ملاؤں اور ان کے بیانیوں کی پشت پناہی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لنچنگ یا مذہبی ہراسانی کے واقعات کا ارتکاب کرنے والے بالکل بےخوف ہوتے ہیں۔ اب تک ایسا کرنے والے کسی بھی فرد کو پھانسی کی سزا نہیں دی گئی ہے۔ اس کی بجائے وکٹم بلیمنگ کی جاتی ہے۔یعنی جو جھوٹے الزامات کا نشانہ بنتا ہے اسی کو خود پر ہونے والے نفسیاتی یا جسمانی جبر کے لیے مورد الزام بھی ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اس واقعے میں الٹا ذہنی تشدد کا شکار ہونے والی خاتون ہی کو معافی مانگنا پڑی جب کہ الزام لگانے والے نتھنے اور سینے پھلائے بےشرمی سے وہاں بیٹھے رہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست آخر ان مذہبی جنونیوں کو کیوں پالتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جبر کے نتیجے میں محنت کش عوام میں غصے اور بے چینی کی کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں۔ اگر اس غصے اور بےچینی کو درست رہنمائی مل جائے تو عوام سرمایہ دار مافیا کے محلات کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں۔ ایسے میں ریاست مذہبی بیانیے بناتی ہے اور ان کے علمبرداروں کو سہارا دیتی ہے۔ مذہب چونکہ ایک حساس معاملہ ہے اس لیے پہلے سے پریشان عوام اپنا غم و غصہ ان معاملات پر نکال لیتے ہیں۔ یوں ریاست عوام کو گمراہ کر کے اپنی لوٹ مار جاری رکھتی ہے۔
پاکستان کے محنت کش عوام مجموعی طور پر بہت باشعور ہیں۔ انہیں صرف درست رہنمائی کی ضرورت ہے تاکہ وہ توہین مذہب جیسے گمراہ کن بیانیوں کو مسترد کر کے سرمایہ دار مافیا کا تختہ الٹ کر محنت کشوں کی عوامی جمہوری حکومت قائم کر سکیں۔
فیس بک کمینٹ