امریکہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اس وقت نئے امریکی صدر کے اقدامات کا انتظار کررہی ہے جس کے بعد یہ جائزہ لیا جائے گا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کس حد تک دنیا میں بحران کا سبب بنے گی۔ اور کیا دوسروں کے لیے مشکلات میں اضافہ کرکے نئے صدر ، امریکی عوام کو مزید خوشحال اور امریکہ کومضبوط اور طاقت ور بنا سکیں گے۔
اس حوالے سے پوری تصویر دیکھنے کے لیے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی صدر امریکہ میں چار سال کے لئے عہدہ سنبھالتا ہے۔ اس کے بعد وہ ایک بار پھر منتخب ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ 2016 کاا نتخاب جیتنے کے بعد صدر ضرور بنے تھے لیکن 2020 میں وہ جو بائیڈن سے انتخابی معرکہ ہار گئے۔ اس طرح انہیں دوبارہ صدر بننے کے لئے چار سال انتظار کرنا پڑا۔ گزشتہ سال نومبر میں منعقد ہونے والے انتخاب میں وہ ڈیمکورٹیک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے اس طرح ان کا دوبارہ صدر بننے کا خواب آج پایہ تکمیل تک پہنچ رہا ہے۔
یہ تو طے ہے کہ سابقہ دور کے مقابلے میں ٹرمپ اس بار زیادہ تیاری سے وہائٹ ہاؤس میں داخل ہوں گے۔ انہیں اب امریکی دارالحکومت میں معاملات کے بارے میں زیادہ بہتر آگاہی ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ صدر کے طور پر کیسے اپنے احکامات پر مؤثر انداز سے عمل کروا سکتے ہیں۔ اسی لیے اس بات کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ صدر کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ آج عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی متعدد صدارتی احکامات پر دستخط کریں گے۔ امریکی سیاست میں یہ طریقہ نیا نہیں ہے بلکہ ہر صدر اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے چند دن کے اندر چند صدارتی احکامات کے ذریعے اپنا سیاسی ایجنڈا واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اور انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کا قصد ظاہر کرتا ہے۔ لیکن یہ بھی واضح ہے کہ ہر صدارتی حکم پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوتا بلکہ انہیں پہلے انتظامیہ میں حائل رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے بعد کانگرس کی مخالفت کی صورت میں بعض اقدامات میں رد و بدل دیکھنے میں آتا ہے۔ اسی طرح متعدد معاملات عدالتوں میں چیلنج ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی عدالت کسی صدارتی حکم کو قانون کے خلاف یا مفاد عامہ کے برعکس سمجھے تو اس پر عمل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
اس پس منظر میں پہلے دن یا آنے والے ہفتے کے دوران میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جاری ہونے والے احکامات کی حیثیت سیاسی اعلامیہ سے زیادہ نہیں ہوگی۔ البتہ اگر ان کی حکومت نے ٹھوس منصوبہ بندی کے ذریعے ان میں سے چند پہلوؤں پر عمل کرانے کی حکمت عملی تیار کی تو ایسی سیاسی خواہشات پر کارروائی کا آغاز ہوسکتا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ سابقہ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے میکسیکو سے غیر قانونی تارکین وطن کی آمد روکنے کے لیے دیوار بنانے کا اعلان کیا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ دیوار چند ہفتوں یا مہینوں میں مکمل ہوجائے گی۔ لیکن گزشتہ عہدہ کی مدت کے دوران ٹرمپ حکومت میکسیکو کے ساتھ لگ بھگ دو ہزار میل طویل سرحد پر صرف ساڑھے چار سو میل دیوار تعمیر کراسکی تھی۔ ڈیموکریٹک پارٹی اس اقدام کو غیر ضروری اور غیر انسانی سمجھتی تھی ، اس لیے بائیڈن کے دور میں دیوار کا کام روک دیا گیا ۔ اگرچہ ٹرمپ نے اس بار انتخابی مہم میں دیوار مکمل کرنے کا اعلان تو نہیں کیا لیکن وہ امیگریشن کو سخت کرنے اور میکسیکو سے انسانوں کی آمد روکنے کے لیے متعدد سخت اقدامات کرنا چاہتے ہیں ۔ بلکہ ا س بار تو وہ دس پندرہ لاکھ ایسے غیر قانونی تارکین وطن کو ڈی پورٹ کرنا چاہتے ہیں جو باقاعدہ کاغذات کے بغیر امریکہ میں مقیم ہیں۔ البتہ اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے ممکن ہے کہ ٹرمپ پہلے ہی دن میکسیکو کی سرحد کے ساتھ دیوار مکمل کرنے کا حکم بھی جاری کریں۔ لیکن ماضی کی طرح اس بار بھی اس صدارتی حکم پر عمل اسی صورت میں ممکن ہوگا جب کانگرس اس مقصد کے لیے فنڈز مہیا کرے گی۔
ٹرمپ کے نزدیکی ذرائع کا کہنا ہے کہ 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ٹرمپ جن درجن بھر صدارتی احکامات پر دستخط کریں گے ، ان میں اکثر کا تعلق امیگریشن اور میکسیکو کی سرحد کو سیل کرنے سے متعلق ہے۔ صدر ٹرمپ سرحدیں سیل کرنے کے لیے مسلح افواج کو متعین کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ اس بارے میں بھی پہلے چند گھنٹے کے دوران ہی صدارتی حکم نامہ جاری ہونے کا امکان ہے۔ انہی میں سے میکسیکو کی سرحد کے ساتھ دیوار مکمل کرنے کا حکم بھی شامل ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر ماضی کے تناظر میں دیکھا جائے تو دو ہزار میل طویل سرحد پر ٹرمپ شاید ان چار سالوں میں بھی دیوار مکمل نہ کراسکیں ۔ البتہ وہ سیاسی طور سے اس کا کریڈٹ ضرور کریں گے۔ میکسیکو کی سرحد مکمل طور سے بند کرنے کے علاوہ ٹرمپ فوری طور سے لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو ملک سے نکالنے کے کام کا آغاز کریں گے۔ اس حوالے سے بھی پہلے چند گھنٹوں یا دنوں میں صدارتی احکامات کا امکان ہے۔ البتہ ماہرین واضح کرچکے ہیں کہ یہ کام نہ تو آسان ہوگا اور نہ ہی سستا ہوگا۔ سالوں سے ملک میں آباد لوگوں کو نکالنے کے لیے امریکی حکومت کو بھاری اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے۔ اس بارے میں البتہ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ قیمت سے خوفزدہ ہو کر امریکی مفاد میں یہ کام روکا نہیں جائے گا ۔ تاہم ٹرمپ حکومت اگر اس مد میں اخراجات برداشت کربھی لے ، پھر بھی ملک بدری کا سامنا کرنے والے لوگ ملکی عدالتی نظام سے داد رسی چاہیں گے اور اس مدت میں ٹرمپ خواہش کے باوجود شاید ان لوگوں کو ڈی پورٹ نہ کرسکیں۔
البتہ جو صدارتی حکم فوری طور سے مؤثر ہوسکتےہیں، ان میں ماحولیات کی بہتری کے لیے پیرس معاہدے سے نکلنے کا حکم شامل ہوگا۔ گزشتہ بار بھی ٹرمپ نے صدر بنتے ہی اس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا تھا لیکن جو بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی اس معاہدے کو دوبارہ قبول کرلیا تھا۔ ٹرمپ اسے ایک بار پھر چھوڑنا چاہتے ہیں کیوں کہ وہ امریکہ میں صنعتی ترقی کے لیے ماحولیات کو قدغن کے طور پر برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ وہ ماہرین کی اس رائے کو نہیں مانتے کہ انسانی اعتدالی کی وجہ سے دنیا کے درجہ حرارت میں خطرناک اضافہ ہورہا ہے۔ اسی لیے متعدد حکومتیں ماحول دوست اقدامات پرزوردیتی ہیں۔ ٹرمپ اس کے برعکس صدر بنتے ہی جو بائیڈن کی ان تمام پالیسیوں کو منسوخ کرنے کا اعلان کرنے والے ہیں جن سے گیس و تیل کی بجائے توانائی کے ماحول دوست ذرائع پر انحصار کیاجاتا ہے۔ صدر ٹرمپ امریکہ میں ایسے سب منصوبوں کی سرکاری سرپرستی بند کریں گے اور گیس و تیل کی دریافت میں اضافہ کیا جائے گا۔
البتہ ایک سیاسی اعلان ایسا ہےجس پر ٹرمپ عمل کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ صدر بننے کے بعدایک حکم کے ذریعے امریکہ میں پیدا ہونے والے بچوں سے امریکہ کا شہری ہونے کا حق واپس لے لیاجائے گا۔ ٹرمپ اس حق کو ناجائز اور احمقانہ کہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اگر اس بارے میں صدارتی حکم جاری کرتے بھی ہیں تو اس کی حیثیت کاغذکے ایک پرزے سے زیادہ نہیں ہوگی۔ کیوں کہ امریکی سرزمین پر پیدا ہونے والوں کو شہریت کا حق امریکی آئین میں دیا گیا ہے جسے ایک صدارتی حکم سے منسوخ نہیں کیا جاسکے گا۔ البتہ وہ ان مجرموں کو معاف کرنے کا حکم دے سکتے ہیں اور اس پر فوری عمل بھی ہوجائے گا جن پر 6جنوری 2021 کو کانگرس پر حملے اور توڑ پھوڑ کرنے کا الزام ثابت ہؤا تھا۔ البتہ وہ خود بھی تسلیم کرچکے ہیں کہ ان میں سے بعض واقعی حد سے بڑھ گئے تھے۔
اس حوالے سے خبروں کے ہجوم میں غائب ہوجانے والی ایک چھوٹی سی خبر بے حد اہم اور امریکی سیاست، جمہوریت اور صورت حال کی عکاسی کرتی ہے۔ صدر جو بائیڈن نے اقتدار چھوڑنے سے چند گھنٹے پہلے ایک صدارتی حکم پر دستخط کیے جس کے ذریعے ایسے تمام لوگوں کو کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی سے پیشگی معافی دے دی گئی ہے، جن کے بارے میں ٹرمپ اعلان کرتے رہے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔ ان لوگوں میں امریکی افواج کے سابق چئیرمین آف دی جائنٹ چیفس آف اسٹاف مارک ملی اور وہائٹ ہاؤس کے سابق ہیلتھ ایڈوائزر انتھونی فاؤچی شامل ہیں۔ امریکی صحافی باب ووڈ ورڈ نے اپنی تازہ کتاب ’وار‘ میں مارک ملی سے منسوب یہ بیان شامل کیا ہے کہ ٹرمپ درحقیقت ’فاشسٹ‘ ہیں۔ اسی طرح فاؤچی کورونا وبا کےسوال پر ٹرمپ سے اختلاف کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس صدارتی حکم میں کانگرس کے ان تمام ارکان کو بھی معافی دی گئی ہے جو 6جنوری کو کانگرس پر حملے کی تحقیقات میں شامل رہے ہیں اور جنہیں ٹرمپ اپنا دشمن قرار دیتے رہے ہیں۔ صدر بائیڈن نے حکم نامہ پر دستخط کرتے ہوئے کہا کہ ’ ان سرکاری ملازمین نے خلوص نیت اور اعزاز کے ساتھ قوم کی خدمت کی ہے۔ انہیں غیر منصفانہ اور سیاسی بنیادوں پر مقدمات کا سامنا نہیں کرنا چاہئے‘۔ البتہ انہوں نے اس موقع پر ٹرمپ کا نام نہیں لیا۔
ایک جمہوری نظام میں جانے والے صدر کی طرف سے ایک صدارتی حکم کے ذریعے سرکاری افسروں اور منتخب ارکان کانگرس کو نئے صدر کے ’عتاب‘ سے بچانے کا حکم درحقیقت یہ واضح کرتا ہے کہ ٹرمپ کی شکل میں امریکہ کو کس چیلنج کا سامنا ہے۔ ٹرمپ کی بیشتر پالیسیاں امریکہ میں معاشی بہتری کے لیے ہوں گی لیکن وہ اپنے متقمانہ و تحکمانہ مزاج کی وجہ سے بعض ایسے انتہاپسندانہ اقدام کرسکتے ہیں جس سے امریکہ کو فائدہ کی بجائے نقصان کا سامنا ہو۔ دوسری بار ٹرمپ کے صدر بننے پر اگرچہ دنیا بھر میں سراسیمگی محسوس کی جارہی ہے لیکن وہائٹ ہاؤس کا نیا مکین اپنے تمام تر جوش و خروش اور دعوؤں کے باوجود دنیا میں کوئی بہت بڑی تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔
ٹرمپ یا امریکی قوم واقعی دنیا سے لاتعلق ہوکر امریکہ کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں تو انہیں دوسرے ملکوں کو دھمکیاں دینے کی بجائے، دنیا بھر پرحکومت کرنے کی امریکی خواہش کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ امریکہ جب تک تمام دنیا کو زیر نگیں رکھنے کے لیے فوجی اڈے قائم رکھے گا اور دوستی و دشمنی پالتا رہے گا تو اسے بھی دیگر ملکوں کی طرح اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ