ہم کوئٹہ شہر کے جناح روڈ پر یوں تو علی احمد کرد کے بتائے ہوئے دفتر کو تلاش کر رہے تھے مگر اچانک ہم اسی جگہ پر آ گئے جہاں قائد اعظم قیام کرتے تھے ۔ جناح روڈ جو تب بروس سڑک کے نام سے مشہور تھی ۔ اسی جگہ پر حاجی اینڈ سنز کی بڑی دکان تھی جہاں سے پہلے گورنر جنرل این اے حسین قائد اعظم کے لیے سات روپے کے عوض ولز کی جرابیں خرید لایا تھا اور مسٹر جناح نے وہ جرابیں اس لیے تبدیل کروائی تھیں کہ وہ پہلے سے استعمال شدہ تھیں ۔ مسٹر جناح کوئٹہ بہت بار تشریف لاتے تھے ۔ 1934 میں تو انہوں نے دو ماہ یہاں قیام کیا ۔ قائد اعظم نے اسی دوران کوئٹہ اور زیارت کے علاوہ مستونگ، قلات، پشین ، ڈھاڈراورسبی سمیت اندرون صوبہ کئی دورے بھی کیے۔ قائد اعظم کے مشہور14 نکات کے اندر اسی صوبے میں اصلاحات کا مطالبہ بھی شامل تھا ۔
جناح کیپ کے نام سے شہرت پانے والی اور ان کی شخصیت کا حصہ بن جانے والی قراقلی ٹوپی بھی ان کو کوئٹہ ہی میں پیش کی گئی تھی۔
ہم کوئٹہ سے زیارت کے نکلے تو اسی روز بالائی علاقوں میں برف باری کی پیش گوئی کی گئی تھی ۔ کوئٹہ سے زیارت کا فاصلہ ایک سو چھپن کلومیٹر ہے مگر ہمیں وہاں پہنچنے میں تین گھنٹے لگ گئے ۔ صنوبر کے درختوں سے مہکتا زیارت اس روز بادلوں میں گھرا تھا اور ہمارے سامنے زیارت ریذیڈنسی کی قدیم عمارت تھی جس کا چپہ چپہ قائد اعظم کی خوشبو سے مہکتا تھا ۔ ریذیڈنسی کے پہلو میں ایستادہ قدیم درخت کی سنجیدہ روی بتاتی تھی کہ کبھی اس چھاؤں کو مسٹر جناح نے معتبر بنایا ہوگا۔
زیارت شہر جنوری دو ہزار پچیس میں بھی جدید سہولیات سے خالی تھا اور میرا سر درد سے پھٹا جاتا تھا مگر یہاں کے کسی میڈیکل سٹور سے درد کش وہ گولی نہیں مل رہی تھی جو ملتان کے ایک ڈاکٹر نے تجویز کی تھی ۔ کئی فارمیسیوں سے خالی ہاتھ لوٹا تو مسٹر جناح کا معصوم بوڑھا چہرہ میری نم ہوتی آنکھوں میں یوں امڈ آیا کہ صنوبر کے قدیم پیڑ دھندلے سے ہونے لگے ۔
زیارت کا یہ علاقہ اپنے قدرتی حسن کی بنا پر انیسویں صدی کے وسط میں انگریز پولیٹیکل ایجنٹ کی نظر میں آگیا اور پھر 1882ءمیں یہاں ریذیڈنسی بنا دی گئی۔ 1887ءمیں اسے برطانوی حکومت نے استعمال کرنا شروع کیا۔ زیارت کا قدیم نام کوشی تھا ۔ اٹھارویں صدی میں ایک خراوری نام کے بزرگ تھے۔وہ فوت ہوئے تو ان کو جنوب میں 9 کلو میٹر دور دفن کرکے مزار بنایا گیا۔ لوگ اس مزار کی زیارت کرنے آتے تھے ، اس نسبت سے اس کا نام زیارت پڑگیا۔ 1886ءمیں اسے باقاعدہ زیارت کا نام دیدیا گیا۔1903ءمیں اسے ضلع سبی کا گرمائی مقام قرار دیا گیا۔ 1974ءمیں اسے تحصیل کا درجہ دیا گیا اور 1986ءمیں ضلع کا درجہ دیا گیا۔ ریذیڈنسی کے اندر داخل ہوئے تو آگے پیچھے اور اوپر نیچے چار چار کمرے ہیں۔ دائیں پہلے کمرے میں جہاں دو میزیں سائیڈ پر اور ایک درمیان میں ہے جس کے ساتھ چار کرسیاں دھری ہیں۔ یہاں قائد اعظم کھانا کھاتے تھے۔ اس کمرے میں لکڑی ایک اسٹینڈ ہے جس میں پیتل کا تھال لٹکا ہوا ہے جو گھنٹی کاکام دیتا تھا۔ چونکہ اس زمانے میں یہاں بجلی کا نظام نہ تھا اس لیے تھال بجا کر گھنٹی کاکام لیا جاتا تھا اور ویٹر یا خدمت گزار کو بلایا جاتا تھا۔ اس کمرے میں اب قائد اعظم کا لباس کوٹ اور تحریک پاکستان کے دور کی تصاویر آویزاں ہیں۔ اس کمرے کے بالکل سامنے بائیں طرف کے پہلے کمرے میں قائد اعظم مہمانوں سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ دائیں طرف کا پہلے والا کمرہ قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید کے لیے مخصوص تھا جو بعد میں آزاد کشمیر کے صدر بھی بنے اور گوجرانوالہ میں ایک حادثہ کا شکار ہو گئے تھے۔ اس کے بالمقابل بائیں جانب والے کمرے میں قائد اعظم کا دفتر تھا۔ اس طرح ان چاروں کمروں کے درمیان میں چوبی زندہ ہے جس کے قدمچے پتھر کے ہیں۔
اوپر بھی نیچے کی طرح دائیں بائیں دو دو کمرے ہیں۔ بالائی منزل پر بائیں ہاتھ کا پہلا کمرہ قائد اعظم کا بیڈ روم تھا جبکہ دائیں ہاتھ کا پہلا کمرہ ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کا بیڈ روم تھا۔ اس کمرہ کا دروازہ کھلا ہو تو قا ئداعظم کا کمرہ واضح نظر آتا ہے۔ قائد اعظم کے بیڈ روم میں ایک ڈریسنگ ٹیبل ہے جبکہ دوسری طرف کرسی میز ہے جہاں وہ اپنے قیام کے دوران حکومتی فرائض سرانجام دیتے تھے۔ اب اس کمرے میں ان کی جوانی کے دور کی تصاویر آویزاں ہیں اورلکڑی کی وہ ٹوکری بھی ہے جو ان کے زیر استعمال رہتی تھی۔ اس سے پیچھے والے کمرے میں بیڈ روم تھا جبکہ محترمہ فاطمہ جناح کے کمرے کے پیچھے والا کمرہ مہمانوں کے لیے مخصوص تھا۔ بالائی منزل پر بھی ان کمروں کے آگے برآمدہ ہے اور کوریڈور ہے جہاں سے ریذیڈنسی کا احاطہ واضح نظر آتا ہے۔ ریذیڈنسی کے احاطہ میں اخروٹ اور چنار کے درخت ہیں جو ریزیڈنسی کے قیام کے وقت لگا ئے گئے تھے ۔
تمام کمروں کا فرنیچر قائد اعظم کے دور کا تھا مگر کچھ شرپسندوں نے پندرہ جون دو ہزار تیرہ میں بم دھماکوں سے حملہ کیا تو سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا مگر پھر تمام سامان قدیم انداز میں بنایا ہے ، اسی طرز پر لکڑی سے عمارت بنائی بھی گئی اور سجائی بھی گئی۔
اس دور میں یہاں بجلی نہیں تھی اس لیے جنریٹر استعمال کیا جاتا تھا۔ اب 2025 میں بھی لوڈ شیڈنگ تھی ۔ پوری عمارت کے اکتیس دروازے اور اڑتالیس کھڑکیاں ہیں جبکہ ملازمین کے لیے عمارت کے پیچھے کوارٹرز ہیں۔ ریذیڈنسی زیارت جہاں قائد اعظم نے اپنی زندگی کے آخری دورکے دس یوم گزارے۔ سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ بلند ہے۔ 92- 1891ءمیں اس کی تعمیر پر 39012 روپے کی رقم خرچ کی گئی۔ گورنر جنرل کے نمائندہ اے جی جی اور چیف کمشنر یہاں موسم گرما کی چھٹیاں گزارتے تھے۔ قائد اعظم کے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارنے کے سبب 1985ءمیں صدر ضیاءالحق نے اسے قومی یاد گار قرار دیتے ہوئے آثارِ قدیمہ میں شامل کردیا اور اس عمارت کا نام قائد اعظم ریذیڈنسی رکھ دیا گیا۔ 7 جنوری 1989ءکو سینیٹ آف پاکستان نے اس کی منظوری بھی دیدی تھی۔
ہم زیارت میں ہزاروں برس پرانے صنوبر کے وہ درخت دیکھنے آئے تھے جو ایک صدی میں صرف تین انچ بڑھتے ہیں مگر ان درختوں سے جھانکتی قائد اعظم کی یادوں نے ہمیں مزید اداس کر دیا ۔ زیارت میں جب برف باری شروع ہوئی تو شام کے سائے اس روشن یادگار کو اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے۔ شام کے آثار داخلی دروازے پر لگی افتتاحی تختی پر کنندہ جسٹس فائز عیسی کے نام اور ایک کونے میں لگے نیم مردہ پودے کے پاس آہنی پلیٹ پر لکھے سابق وزیر اعظم عمران خان کے حروف سے یکساں نمایاں تھے ۔
قائد اعظم کے آخری ایام کی حقیقت کی طرح اس لان کی گھاس بھی برف کے سفید گالوں میں چھپ چکی تھی۔ کھلے صحن میں پھیلی تاریخی تنگدستی ہمیں الوداع کہہ رہی تھی اور ہمارا ڈرائیور ڈی آئی جی پولیس زیارت کے بنگلے کے سامنے گاڑی اسٹارٹ کر کے ہمارا منتظر تھا۔ پولیس میس کی کھڑکیوں سے جنریٹر کی توانائی سے روشن مرکری بلبوں کی روشنی جھانکتی تھی اور قائد اعظم کے کمرے میں گھپ اندھیرا تھا ۔
فیس بک کمینٹ