جب کوئی اداروں کو دہشت گردی کا ذمہ دارقراردیتا ہے اور ان کی دہشت گردی کی بات کرتا ہے تو اسے ملک دشمن اور پاکستان کی سلامتی کے منافی پروپیگنڈے کا ذمہ دارقراردے دیاجاتا ہے۔لیکن جب دہشت گردی کے خلاف سرگرم ادارے خود دہشت گردی کرتے ہیں تو سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے ۔محکمہ انسداد دہشت گردی اسلام آباد کے ہاتھوں اسامہ ستی کے قتل پرہمیں حیرت نہیں ہوئی اورایسے واقعات پر حیرت اس لیے نہیں ہوتی کہ یہ اب معمول بن چکے ہیں۔ تین چار روز یا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ یہ معاملہ زیربحث رہے گا۔پھر سب اسے بھول جائیں گے ۔ بس اس کے والدین عمر بھر آنسو بہائیں گے کہ ان کے درد کا تدارک کوئی انکوائری اور کوئی معطلی یاگرفتاری نہیں کرسکتی۔
ایسے واقعات ہر دوسرے تیسرے ہفتے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ کبھی کراچی ،کبھی لاہور اور کبھی کسی اور شہر میں کوئی سڑک کسی کے ناحق خون سے سرخ ہوجاتی ہے۔ایسے واقعات کی روک تھام اس لیے نہیں ہوتی کہ مارنے والوں کو اپنی طاقت،یعنی بندوق کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔سانحہ ساہیوال کے مجرموں کوعدم ثبوت کی بنا پر نہ صرف بری کیاگیابلکہ ان میں سے بعض ترقی پا کر اگلے قتل پر معموربھی ہوگئے۔اصل مسئلہ یہی ہے کہ ہماری یادداشت بہت کمزورہے۔ ہم نے اس اختصاریئے کے آغاز میں لکھا ہے کہ چند روز بعد ہم اس واقعے کوبھی فراموش کردیں گے تو اس کی سب سے بڑی مثال دوماہ پہلے سیالکوٹ موٹروے پر رونما ہونے والے اجتماعی زیادتی کے واقعہ کی ہے۔اس واقعہ کے ذمہ داروں کی گرفتاری سے پہلے ہی لاہور پولیس کے سربراہ نے انتہائی غیرذمہ داری کامظاہرہ کیاتھا لیکن اس کے باوجود وزیراعظم سمیت بہت سے وزراعمرشیخ کی شان میں رطب اللسان رہے اور اس وقت تک انہیں عہدے سے نہ ہٹایا جاسکا جب تک کہ انہوں نے کسی وزیر کو ناراض نہیں کردیا۔اسامہ ستی جیسے نوجوانوں کا اس کے سوا کوئی قصور نہیں کہ انہوں نے انتہائی جوش وخروش کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا اور اب بے روزگار ہوکر یا اپنی جانیں دے کر کفارہ ادا کررہے ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ جب سے یہ واقعہ رونما ہوا ہے ہمارے سادہ لوح عوام اور دانشوروزیرداخلہ شیخ رشید کو برا بھلاکہہ رہے ہیں لیکن انہیں موردالزام ٹھہرانے والے بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جیسے حکومت چلانا ہمارے حکمرانوں کے اختیار میں نہیں اسی طرح سی ٹی ڈی جیسے طاقتور محکمے بھی وزیرداخلہ کے اختیار سے باہر ہیں۔وزیر داخلہ کی نوکری صرف اتنی ہے کہ وہ پاک فوج کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے والوں کے خلاف 72گھنٹوں میں مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دیں کہ ملکی سالمیت کامعاملہ اسامہ ستی جیسے بے گناہوں کے قتل سے زیادہ اہم ہوتاہے۔دوسری جانب شیخ رشید کو وزارت داخلہ سے ہٹائے جانے کی جو باتیں گزشتہ ہفتے سے جاری ہیں اورجن کی جانب مولانا فضل الرحمن نے بھی اشارہ کیا ہے ۔سوال صرف یہی ہے کہ اسامہ ستی کے قتل کاواقعہ کہیں شیخ رشید کو ان کی وزارت سے ہٹانے کا پیش خیمہ تو ثابت نہیں ہوگا۔
ٌ( بشکریہ ؛ روزنامہ سب نیوز اسلام آباد )
فیس بک کمینٹ