گزشتہ برس یہی رخصت ہوتے جاڑوں کے دن تھے جب مجھے برادر فاروق عادل کی کتاب ’جو صورت نظر آئی‘موصول ہوئی۔ قومی اور انفرادی سطح پر یہ بارہ مہینے کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والے فیصلے امید کی کھیتیاں روندتے رہے۔ عدالتوں میں سنائے جانے والے فیصلوں سے حرف قانون کی پاسداری کی خوشبو گم ہوتی رہی۔ سڑکوں پر شہریوں کا احترام مجروح ہوتا رہا۔ اخبار میں لکھے لفظ سے ضمیر کی آزادی بخش طراوت کا احساس محدود ہوتا چلا گیا۔ آواز کی لہروں پر سفر کرتی خبر سے دیانت کی کھنک سنائی دینا بند ہو گئی۔ جمہور کی رائے کا تعین کرنے والا کاغذ کا وہ ٹکڑا بازار کی جنس فروخت میں ڈھلتا رہا، جسے ووٹ کہا جاتا ہے۔
یہ تو رہے اجتماعی حادثے، فرد کی ذات پر گزرنے والی آزمائش کیا تھی؟ سادہ سی بات ہے، شہری کی خوشی، تحفظ، اعتماد اور خواب کسی خلا میں جنم نہیں لیتے۔ فرد اس چوڑے پاٹ والے دریا کی ایک بے نام موج ہی تو ہے، جسے قوم کہتے ہیں۔ اگر دریا کو زندگی بخشنے والے سوتے خشک ہونے لگیں، اگر دریا کے کناروں پر بنے حفاظتی پشتوں میں رخنے نمودار ہو رہے ہوں، اگر دریا میدانوں کو سیراب کرتے ہوئے مانوس ساحلوں کی طرف بڑھنے کی بجائے صحرا کی ریت میں دم توڑنے لگیں تو فرد اپنی ذات کے جزیرے میں بیٹھ کر چین کی بنسی نہیں بجا سکتا۔
درویش کی نسل نے پچھلی چار دہائیوں میں بہت سے مدوجزر دیکھے۔ طاقت کی تاریک میقات برسوں پر محیط رہی، انصاف کا ستارہ پل دو پل کی جھلک دکھا کر اوجھل ہوتا رہا۔ نوجوانی کا ایک احسان یہ ہوتا ہے کہ آنے والے برسوں کی ایک ممکنہ پونجی دل کے نیم تاریک گوشوں میں جگنو جیسی لو دیتی ہے۔ عمر کی نقدی کم ہونے کے ساتھ ساتھ امید کی تار پر بھروسہ بھی کمزور پڑنے لگتا ہے۔ دل کا سنبھلنا مشکل ہو رہا ہو تو علی افتخار جعفری بے طرح یاد آتے ہیں
گل کیا جاتا رہا اور سرکشی کرتا رہا
کوئی تھا جو رخت شب میں روشنی کرتا رہا
گزشتہ فروری میں عاصمہ جہانگیر کی ناگہانی وفات کے بعد کچھ اندازہ ہوا کہ صاف ضمیر سے ملنے والی جوہری طاقت نے اس چھوٹے سے قد کی دھان پان عورت کو کیسی شکتی بخش دی تھی کہ اس کی اکیلی آواز نے ایک لشکر کا حوصلہ بندھا رکھا تھا۔ جب ایسا سہارا اٹھ جاتا ہے تو اکھڑتی سانسوں کو چھوٹے چھوٹے اشاروں میں پناہ ملتی ہے۔ مجھ سے پوچھیے تو پچھلے ایک برس میں بھائی فاروق عادل کی اس مختصر کتاب نے زندگی، نیکی اور خوبصورتی پر یقین قائم رکھنے میں مجھے بہت مدد دی۔ کوئی تیس کے قریب شخصیات کے مختصر خاکے ہیں جنہیں فاروق عادل نے دیکھا، سمجھا اور پھر اپنی فہم کا عطر اڑھائی سو صفحات میں سمیٹ کر ہمارے سامنے رکھ دیا۔
کتاب کیا ہے، فاروق عادل کے ذہین دماغ، محبتی دل اور ہنر مند قلم کی ریاضت کا کرشمہ ہے۔ ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ ریاضت شاید ہنر کی مشق کو کہتے ہیں۔ اصل ریاضت تو زندگی نبھانے سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر زندگی کی اونچ نیچ سے مقابلے میں اصول، شرافت اور بلند نگاہی کا بھرم قائم رکھا تو اسم عظیم کی کلید مل جاتی ہے۔ پھر اس سے چاہیں تو میر تقی کی غزل لکھیے، مائیکل اینجلو کا مجسمہ تراشیے، طبلے پر استاد اللہ رکھا کی تال کے جوہر دکھائیے، شہنائی سے بسم اللہ خان کی تان نکالیے، مارٹن لوتھر کنگ کی خطابت سے صدیوں کے ظلم کی بنیاد اکھاڑ لیجئے، دنیا کیوب ازم کی اقلیدس نما مصوری پر ہنس رہی تھی کہ شوخ چشم پکاسو نے ’گیورنیکا‘جیسی تصویر سے فاشزم کا حقیقی روپ دکھا دیا۔ اسد محمد خان سانس کے تیشے سے زندگی کا پہاڑ کاٹنا سیکھ لے تو پھر اس کی رضا ہے کہ گیت لکھے یا افسانہ، تصویر بنائے یا گل تراشے۔
فاروق عادل سے اس درویش کی نیاز مندی کی حکایت بھی عجیب رہی۔ 2007ءمیں ایک اردو روز نامے کا اجرا ہوا۔ پختہ کار اخبار نویس جہاں تھے، پہاڑ کی صورت قائم تھے۔ نئے اخبار کا رخ کیوں کرتے؟ سو، ادارتی صفحے کی ذمہ داری درویش بے نشاں کو سونپی گئی۔ باقاعدگی سے ہر ہفتے ایک تحریر موصول ہوتی تھی، ٹھکی ہوئی زبان، خبر درست، معلومات مکمل، تجزیہ متوازن۔ لکھنے والے سے تعارف نہیں تھا، مگر تحریر خود اپنا تعارف تھی۔ سو بغیر کسی پس و پیش کے شائع کرتا تھا۔ پھر ایک روز افسران بالانشین نے تادیب کی کہ یہ شخص فاروق عادل کس خوشی میں شائع کیا جا رہا ہے، یہ تو جماعت اسلامی کی فکر سے تعلق رکھتا ہے۔ عرض کی کہ جماعت اسلامی کی فکر سے اتفاق رکھنا جرم نہیں، اگر خود کو روشن خیال سمجھنے والے بھی اختلافی آواز کا تحمل نہیں رکھتے تو یہ مکالمہ تو نہ ہوا، نری عصبیت ٹھہری۔
لو بھائی، اس طرح سے فاروق عادل سے رسم و راہ پیدا ہو گئی۔ کیا حسن اتفاق تھا۔ میری محدود رائے میں موجودہ نسل کی اردو صحافت کو تین لکھنے والوں نے وقار بخشا، خورشید ندیم، فاروق عادل اور وسعت اللہ خان۔ باقی دو اصحاب کی تحسین ایک الگ باب ہے لیکن فاروق عادل نے اپنا ایک رنگ پیدا کیا ہے۔ واللہ، پروفیسر غفور احمد، میاں طفیل محمد، ایئر مارشل اصغر خان، قاضی حسین احمد، بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کوئی اجنبی نام تو نہیں ہیں لیکن فاروق عادل کے قلم سے ان سب کے بارے میں پڑھ کر ان سے باقاعدہ محبت ہو جاتی ہیں۔ فاروق عادل کی نثر کا معجزہ ہے کہ فاروق لغاری، آصف علی زرداری، شیخ رشید اور الطاف حسین کے بارے میں وہ سب کہہ دیا جو تاریخ کا قرض تھا لیکن مجال ہے کہ شرافت قلم سے فروتر ایک لفظ بھی سرزد ہوا ہو۔
فاروق عادل چند لفظوں میں پوری شخصیت بیان کر دیتے ہیں۔ شیخ رشید کے خاکے کی آخری سطر ملاحظہ کیجئے، ’مرتب، خوش نما اور خالی‘۔ مشاہد اللہ خان کا ذکر تھا، اس جوالا مکھی کو ایک جملے میں سمیٹ لیا،’گونجتا ہوا قہقہہ، جرات مندانہ فیصلہ، پیار بھری گالی اور برمحل شعر‘۔ ایک بات اور، قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں دفتر لکھے گئے ہیں، بیشتر مرعوب نگاری کے نمونے یا واقعاتی روزنامچے۔ کوئی پینسٹھ برس پہلے سعادت حسن منٹو نے ’میرا صاحب‘ کے عنوان سے جو تخلیقی خراج عقیدت پیش کیا تھا، اس کا جواب نہیں مل سکا تھا۔ اب فاروق عادل نے ’دور اندیش‘ کے عنوان سے بابائے قوم کی ایک جھلک دکھائی ہے۔ خاکساری کے پردے میں قد آدم سے نکلتی ہوئی ایسی تصویر کھینچی کہ لطف آ گیا۔ فاروق عادل کی کتاب ایک برس سے میرے سرہانے رکھی ہے۔ بلامبالغہ درجنوں بار پڑھ چکا لیکن اس کا جادو کم نہیں ہوتا۔ جب دل اداس ہوتا ہے، ’جو صورت نظر آئی‘ اٹھا لیتا ہوں، جو شکل نظر آئی، تصویر نظر آئی۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ