اچھے انسانوں کو یاد کرنا بذات خود نیکی ہے۔ اس سے دھوپ کی تپش کچھ کم ہو جاتی ہے اور باد و باراں کے خیال سے دل میں حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ استاذی منیر لاہوری ہمیں پنجابی پڑھاتے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے انگریزی چوزوں میں مادری زبان کی محبت جگانا آسان نہیں تھا۔ منیر لاہوری کا بوٹا سا قد تھا اور لب و لہجے میں لاہور کی گھلاوٹ۔ علم کے کومل سروں میں پنجابی ادب کی پرتیں کھولتے چلے جاتے تھے۔ جدید، قدیم کی کوئی قید نہیں تھی۔ لکھنے والا ترقی پسند ہے یا روایت پسند، انہیں بیان اور خیال کی نزاکتیں سمجھانے سے غرض تھی۔ ایک روز سلیم کاشر کی غزل پڑھائی جس کا ایک شعر حافظے کی لوح پر ثبت ہو گیا۔ جو احباب پنجابی نہیں سمجھتے ان کی سہولت کے لیے اردو میں مفہوم عرض ہے۔ ’سوجھ بوجھ والے تو لمحوں کی سولی پر لٹک رہے ہیں لیکن ہم نے نادان لوگوں کو ہاتھ کا سرہانا کیے بے خبری کی نیند سوتے دیکھا ہے‘۔
وزیر اعظم عمران خان نے اگلے روز فرمایا کہ حکومت کرنا بہت آسان ہے۔ اس پر دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔ ونسٹن چرچل کی سرکاری سوانح چھ جلدوں میں محفوظ ہے۔ 5 جون 1944 کی رات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں۔ اگلی صبح اتحادی فوجوں نے رودبار انگلستان کے پار نارمنڈی کے ساحل پر حملہ کرنا تھا۔ انسانی تاریخ کے اس پیچیدہ ترین حملے کی تیاری دو برس سے جاری تھی۔ دوسری طرف جرمن فوج نے ناقابل بیان دفاعی انتظامات کر رکھے تھے۔ چرچل کی سوانح میں لکھا ہے کہ رات گئے چرچل سونے کے لئے اپنی خواب گاہ میں گیا تو اس کی بیوی دنیا و مافیا سے بے خبر سو رہی تھی۔ چرچل نے کلیمنٹائن کے چہرے کی طرف دیکھا اور بڑبڑایا، ’تمہیں کیا خبر، کل صبح جب تم بیدار ہو گی تو برطانیہ کے ہزاروں جوانوں کے بے جان لاشے ساحل نارمنڈی پر بکھرے ہوں گے۔‘چرچل کے حواس پر اپنی قوم کی مشکل صورت حال اور شہریوں کی ذمہ داری کا احساس چھایا ہوا تھا۔ قیادت کی ذمہ داری کی ایک اور مثال دیکھنا ہو تو ابراہم لنکن کی 19 نومبر 1863 والی گیٹس برگ تقریر پڑھ لیجئے۔ کل 271 الفاظ پر مشتمل اس عظیم تقریر میں لنکن نے خانہ جنگی میں مارے جانے والوں کے لئے اپنا درد سمو دیا ہے۔ اہم بات یہ کہ جانی زیاں کے گہرے دکھ میں غنیم سے نفرت کا ایک لفظ نہیں، نظریں قوم کے اتحاد اور آنے والی منزلوں کے نشان پر ہیں۔
عمران خان ابھی لذت خواب سحر میں ہیں۔ انہیں غالباً ادراک نہیں کہ پاکستان 1971 کے بعد سے اب تک کے مشکل ترین بحران سے دوچار ہے۔ ان کی حکومت کو جمہوری جواز کا بحران درپیش ہے۔ اسے Crisis of Authenticity کہنا چاہیے۔ حزب اختلاف نے گزشتہ انتخاب کے نتائج کو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر عملی طور پر تسلیم کر لیا کیونکہ جمہوری تسلسل کا دروازہ کھلا رکھنا تھا۔ ایسی آوازوں کی کمی نہیں تھی کہ حلف اٹھانے سے انکار کر کے Crisis of the Regime پیدا کر دیا جائے۔ اگر صرف 36 ارکان کی حزب اختلاف 1977 کے انتخابی نتائج کو ملیامیٹ کر سکتی تھی تو صرف چار ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہونے والی پا در ہوا حکومت کو مفلوج کرنا کیا مشکل تھا۔ مگر گمبھیر زمینی حقائق کے پیش نظر اعتدال اور تحمل سے کام لیا گیا۔ اس کے باوجود عمران حکومت نے پارلیمانی نظام کی مشمولہ نوعیت سے سمجھوتے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
ابھی ایک برس مکمل نہیں ہوا کہ حکومتی کارکردگی کا پردہ چاک ہو گیا۔ پنجاب کی صوبائی حکومت ہو یا وفاق کی معاشی ٹیم، ناکردہ کاری دیوار پر لکھی ہے۔ معیشت کا بحران اب کوئی راز نہیں۔ احتسابی عمل سے انتقامی جذبے کی تسکین کے سوا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا۔ سرمایہ کاری رک گئی ہے۔ پیداوار میں نمو صفر ہو گئی۔ محصولات کا ہدف پورا نہیں ہو سکا۔ خارجہ پالیسی کی وہی کیفیت ہے جو چوہدریوں کے ڈیرے پر بیٹھے غریب رشتے دار کی ہوتی ہے۔ اور اب آئی ایم ایف کا سونامی دستک دے رہا ہے۔ ڈالر کی قیمت پر حکومتی اختیار ختم کر کے 5300 ارب روپے کا ریونیو ہدف مقرر کیا جائے گا، دس لاکھ نئے بے روزگار افراد سے بجلی اور گیس کی نئی قیمتیں وصول کی جائیں گی تو آتش فشاں کا دہانہ کھل جائے گا۔ از رہ کرم اس کا الزام اسد عمر یا کسی دوسرے حکومتی رکن پر نہیں رکھیے۔ حکومت مریخ پر قائم نہیں ہوئی۔ موجودہ حکومت کا بندوبست چلانے والے اسی ملک کا حصہ ہیں جہاں کے افرادی وسائل سے چنے گئے لوگ گزشتہ برسوں میں لشٹم پشٹم معاملات نمٹا رہے تھے۔ ہماری روایت ہے کہ ہر ناکامی کے گلے میں قربانی کے بکرے لٹکا دیے جاتے ہیں۔
پاکستان کے موجودہ بحران کی وجہ کسی کی انفرادی نااہلی نہیں، یہ صورت حال اس عبوری تمثیل کا ناگزیر نتیجہ ہے جس کی جولائی 2018ءمیں رونمائی کی گئی تھی۔ یہ وسائل کی تقسیم پر اجارہ قائم رکھنے کے لئے اختیار کئے گئے طرز حکمرانی کا بحران ہے۔ فرانسسکو گویا نے کہا تھا کہ جہاں عقل و خرد کو اونگھ آ جاتی ہے، وہاں آسیب جنم لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں آسیب آئی ایم ایف کی صورت میں نمودار ہو رہا ہے۔ غالب دلی کے جیل خانے سے رہا ہوئے تو ان کے دوست کالے خان تالیف قلب کے لئے انہیں اپنے گھر لے گئے۔ کسی آشنا نے مرزا نوشہ کو رہائی کی مبارک باد دی تو فرمایا” کون مردود آزاد ہوا ہے۔ پہلے گورے کی قید میں تھا، اب کالے کی قید میں ہوں۔” ہمارے ضمن میں رنگوں کی یہ ترتیب الٹ دیجئے۔ پہلے کالے خان کے پنجہ زبردست میں تھے، اب گورا صاحب کی گرفت میں ہیں۔ یاں کے سیاہ و سفید میں ہمارا دخل معلوم؟
عمران خان کے لئے حکومت کرنا آسان ہے۔ اس ملک کے رہنے والوں پر ان کی حکومت بھاری پڑ رہی ہے۔ وجہ یہ کہ 22 کروڑ کا ملک چھپرکھٹ کا کھیل نہیں۔ عمران خان کی سیاست مقتدرہ کے ٹہنے سے لپٹی بے جڑ کی طفیلی بیل ہے۔ طفیلی پودوں پر پھل نہیں لگتا۔ اس کی فکر انہیں ہی کرنا ہو گی جن کے پرکھوں کی ہڈیاں اس زمیں میں دفن ہیں اور جن کی آئندہ نسلوں کو آج کی غلطیوں کا تاوان دینا پڑے گا۔ عمران خان کی آسانی اور ہماری مشکل کا فرق فیض صاحب لکھ گئے ہیں:
ناموس جان و دل کی بازی لگی تھی ورنہ
آساں نہ تھی کچھ ایسی راہ وفا شعاراں
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ