سپریم کورٹ کے جسٹس گلزار احمد نے کراچی ماسٹر پلان پر عمل درآمد کرنے کے حکم کی تعمیل میں ناکامی پر وزارت دفاع، سندھ حکومت، پی آئی اے اور دیگر سرکاری اداروں کی سخت سرزنش کی ہے۔ گزشتہ روز اس حوالے سے جنوری میں دیے گئے حکم پر عمل درآمد کے معاملہ کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت میں یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ اگر عدالت کے حکم پر عمل ہی نہیں کرنا تو کیا سپریم کورٹ کو بند کردیا جائے؟ ایک موقع پر جسٹس گلزار احمد نے شہیدوں کے حوالے سے ہونے والی گفتگو پر ریمارکس دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہو سکتا ہے کہ’ میں بھی شہید کردیا جاؤں‘۔
جسٹس گلزار احمد چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بعد سب سے سینئر جج ہیں اور اس سال کے آخر میں جسٹس کھوسہ کی ریٹائرمنٹ پر وہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ اتنے سینئر جج کے منہ سے ریمارکس کی صورت میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو بند کرنے یا خود اپنے مار دیے جانے کے بارے میں کہی گئی باتوں کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ عدالتی کارروائی کے دوران ججوں کے ریمارکس، صورت حال کو سمجھنے اور قانونی نکات کی تفہیم و تشریح کے نقطہ نظر سے کئے جاتے ہیں۔ اس لئے ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔
گزشتہ دنوں نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست پر غور کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک عدالت میں کی گئی ججوں کی کوئی بات تحریری فیصلہ کا حصہ نہ بن جائے اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ اس وضاحت کے باوجود جب اعلیٰ عدالتوں کے جج عدالتی کارروائی کے دوران گفتگو کرتے ہیں اور یہ بات بھی ان کے علم میں ہوتی ہے کہ میڈیا کے نمائندے اس کی رپورٹنگ بھی کریں گے، تو ان ریمارکس اور ججوں کے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کی سماجی، قانونی اور ملکی نظام کے حوالے سے حیثیت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس گلزار احمد کی باتوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے اور جانچنے کی ضرورت ہے۔
یہ بات خواہ غصہ کے اظہار میں کہی گئی ہو یا اس سے اپنی جھنجھلاہٹ کم کرنا مقصود ہو لیکن ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا سینئر ترین جج جب وزارت دفاع کی طرف سے ایک فیصلہ پر عمل نہ کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے، عدالت بند کرنے کی بات کرتا ہے، تو اس کے پس منظر اور جواز کو پرکھنا ضروری ہے۔ سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا کوئی جج خواہ وہ مستقبل میں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہی بننے والا ہو، ملک کی سپریم کورٹ بند کرنے کا حکم جاری کر سکتا ہے؟ یا کیا عدالت عظمی بطور ادارہ یہ فیصلہ صادر کرسکتی ہے کہ حکومت کے مختلف ادارے چونکہ اس کی بات نہیں سنتے اور اس کے احکام پر عمل نہیں ہوتا لہذا عدالت کے دروازے بند کئے جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی انہونی ہے کہ جس کا اختیار نہ تو ایک جج کے پاس ہو سکتا ہے، نہ ہی عدالت بطور ادارہ ایسا فیصلہ کرنے کی مجاز ہو سکتی ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کوئی ایسا قانونی یا آئینی اقدام کرسکتی ہے کہ عدالت کو بند کردیا جائے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس قسم کا کوئی حکم نہیں دیا جا سکتا اور کوئی ادارہ یہ فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہے تو سپریم کورٹ کے سینئر جج اس قسم کی ’غیر ذمہ دارانہ‘ بات کیوں کر زبان پر لانے کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ کیا مذکورہ جج اپنی پوزیشن اور اس حیثیت میں کی گئی باتوں کی اہمیت اور اثر کا اندازہ کرنے سے قاصر ہیں۔ یا ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں ججوں کو ’خبر‘ بننے کے مقصد سے کچھ بھی کہنے اور کمرہ عدالت کے احترام و وقار سے کھیلنے کا حق حاصل ہے۔ کیا اس قسم کے تبصروں اور سرزنش کے طریقے پر متعلقہ جج سے باز پرس کا کوئی انتظام اس نظام میں موجود ہے کہ نہیں؟
اگرچہ یہ بات ایک عدالتی حکم پر عمل درآمد کے حوالے سے کی گئی ہے۔ لیکن اس معاملہ میں بھی تصویر کے دو پہلو ہیں۔ ایک سیکرٹری دفاع کا مؤقف ہے کہ انہوں نے عدالتی حکم پر عمل درآمد کی رپورٹ پیش کی ہے۔ تاہم معزز جج اس رپورٹ کو نامکمل اور دکھاوا سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ عدالت کے فیصلہ میں جو حکم دیا گیا تھا، اس پر عمل درآمد نہیں ہؤا۔ اس طرح ایک رپورٹ کے بارے میں دو مؤقف سامنے آتے ہیں۔ جب تک سپریم کورٹ کسی جائز طریقے سے ایک مؤقف کو مسترد نہ کر دے اس وقت تک دونوں کی حیثیت اپنی جگہ پر موجود رہے گی۔ ایسے میں جج یک طرفہ طور سے یہ طے کرتے ہوئے کیسے یہ قرار دے سکتے ہیں چونکہ وزارت دفاع بھی سپریم کورٹ کا حکم ماننے سے انکار کر رہی ہے لہذا اسے بند کردینا چاہئے۔ سوچنا چاہئے کہ اگر اس انہونی پر عمل ہوجائے تو اس سے مفاد عامہ کا کون سا مقصد حاصل ہو گا؟
اسی کارروائی کے دوران جسٹس گلزار احمد نے اس بات کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کیا کہ مسلح افواج کے زیر انتظام چلنے والے شادی ہالوں کا منافع شہیدوں کے بچوں اور اہل خاندان کی بہبود پر صرف ہوتا ہے۔ اس حوالے سے جسٹس گلزار احمد اور اٹارنی جنرل کا مکالمہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ جسٹس گلزار کی طرف سے سرکاری زمین کو الاٹ کرنے کے بارے میں فوج کے اختیار پر کئے گئے سوال پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ ہمیں اس کا علم نہیں اور نہ ہی اس کا ریکارڈ موجود ہے‘۔ اس پر جسٹس گلزار نے فرمایا کہ ’ کراچی میں تمام پارک اور کھیل کے میدانوں پر قبضہ کرکے انہیں شہیدوں سے منسوب کردیا گیا ہے۔ شہیدوں کے معاملے میں ہم دنیا میں سب سے آگے ہیں۔ کون جانتا ہے کہ میں بھی ایک روز شہید ہوجاؤں یا مار دیا جاؤں‘۔ اٹارنی جنرل نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگرشہیدوں کو اعلیٰ مرتبہ حاصل ہے تو شہید بننے کے لئے کئی شرائط بھی پورا کرنا پڑتی ہیں‘۔ جسٹس گلزار نے اس وضاحت پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ’ آپ کا مطلب ہے کہ میں شہید بھی نہیں ہو سکتا؟ ہم تو پیدا ہی شہید ہونے کے لئے ہوئے ہیں‘۔
جسٹس گلزار احمد کے ان ریمارکس کا زیر بحث معاملہ سے تعلق سمجھنا بعید از قیاس ہے۔ کیا وہ یہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جو بھی شخص خواہ وہ سپریم کورٹ کا سینئر ترین جج ہی کیوں نہ ہو،ملک میں فوج کی من مانی اور بالادستی پر بات کرے گا تو اس کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس تبصرہ کو اگر ملک میں لاپتہ افراد کے تنازع اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے تناظر میں سمجھا جائے تو انسانی حقوق اور اداروں کی سرکشی کے حوالے سے تکلیف دہ صورت سامنے آتی ہے۔ جب سپریم کورٹ کا جج اس پس منظر میں فوج کے ناجائز تصرف کا ذکر کرتے ہوئے اپنے شہید ہونے یا مار دیے جانے کی بات کرتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہوسکتا ہے۔ جسٹس گلزار احمد کو اس بات کی وضاحت کرنا چاہئے۔
سپریم کورٹ کا جج جب اسی کے ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ ’ہم تو پیدا ہی شہید ہونے کے لئے ہوئے ہیں‘ تو بھی ملک کے موجودہ سماجی و معاشرتی اور سیکورٹی حالات کے تناظر میں اس کے معانی سے صرف نظر ممکن نہیں ہے۔ پاکستان میں شریعت نافذ کروانے کی خواہش رکھنے والے یا توہین مذہب کی من پسند توجیہ متعارف کروانے اور اس کے مطابق ہر مخالف رائے رکھنے والے کو عبرت کانشان بنانے والے عناصر بھی اپنے عقیدت مندوں سے اسی قسم کی گفتگو کرتے ہیں۔ انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے جج کو قانون کے مطابق فیصلے صادر کرنا ہوتے ہیں۔ اس کا کوئی ایسا فقرہ یا رائے قبول نہیں کی جا سکتی جس کی وجہ سے مذہبی انتہا پسندی یا جنونیت کی حوصلہ افزائی کا امکان پیدا ہو۔ بہت سے عناصر ملک کے نوجوانوں کو شہید کے منصب پر فائز ہونے کا فرض یاد دلاتے ہوئے گمراہ کرنے کے کام میں مصروف ہیں۔ کیا یہ قبول کیا جاسکتا ہے کہ عدالتوں کے جج اپنی گفتگو کے دوران اس قسم کے پروپیگنڈا کو جائز قرار دینے کا سبب بنیں؟
سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں اس ڈرامائی کارروائی کا پس منظر سپریم کورٹ کا یہ حکم ہے جس کے تحت عدالت شہر کے 1960 کے ماسٹر پلان پر عمل درآمد چاہتی ہے۔ اس فیصلہ کے مطابق جو عمارتیں بھی اس پلان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیر کی گئی ہیں انہیں گرایا جائے گا۔ اسی طرح اس فیصلہ کے تحت عسکری و دیگر اداروں کے زیر انتظام چلنے والے شادی ہالوں کو گرانا بھی مقصود ہے۔ کیونکہ طے کیا گیا ہے کہ یہ سب تجاوزات کے زمرے میں آتے ہیں۔
عدالت کا فیصلہ نیک نیتی پر مبنی ہو گا لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ اس میں کراچی جیسے تیزی سے پھیلتے ہوئے شہر کے معروضی حالات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس فیصلہ پر مکمل عمل درآمد کے نتیجہ میں 500 سے زائد عمارات گرانا پڑیں گی اور متعدد آبادیاں متاثر ہوں گی۔ سوال تو صرف اتنا ہے کہ کیا شہری منصوبہ بندی بھی اب عدالتی فیصلوں کی محتاج ہوگی۔ یا پچاس ساٹھ برس پہلے بنایا گیا ماسٹر پلان کراچی کی موجودہ ضرورتیں پوری کرسکتا ہے؟ ان سوالات کے جواب تلاش کئے بغیر بے رحمی سے عمارتوں کو گرانے کا حکم صادر کرنا بجائے خود عدالتی دائرہ کار، اختیار اور صوابدید پر سوالیہ نشان بن سکتا ہے۔
کراچی کی صورت گری ہونی چاہئے لیکن سپریم کورٹ کے ججوں کو اپنے سوا باقی سب اسٹیک ہولڈرز کو بے ایمان اور بدعنوان قرار دینے کا اختیار بھی نہیں دیا جا سکتا۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ