ریاست نے دینی مدارس کو محکمہ تعلیم کے سپرد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ دینی مدارس میں شدت پسند پروان چڑھتے ہیں، دہشتگردوں کے سرپرست اور سہولت کار پناہ لیتے ہیں، دہشت گردی کی ٹریننگ دی جاتی ہے، دینی طالب علموں کے اندر ریاست سے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری جاتی ہے اور یہ نفرت عوام کے لئے خطرات کا باعث ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دینی مدارس کو ایک طویل عرصے سے مخصوص مقاصد کیلیے استعمال کیا گیا اور اس مقصد کیلیے اندرون اور بیرون ملک سے بڑی مقدار میں فنڈنگ کروائی گئی اگر یہ سرمایہ پیشہ ورانہ اعلیٰ تعلیم اور صنعت کاری پر خرچ ہوتا تو آج پاکستان دنیا کے صف اول کے ممالک میں شامل ہوتا لیکن بدقسمتی سے اس سرمائے سے مساجد و مدارس کا پورے پاکستان میں جال بچھا دیا گیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ مذہبی شدت پسندی کا وہ طوفان اٹھا کہ جسے قابو کرنے کیلیے اب کئی دہائیاں درکار ہوں گی ۔ دینی مدارس کی مالی سرپرستی، آمد و رفت کی نگرانی، نصابِ تعلیم پر نظرِثانی یہ سب ضرور ہونا چاہیئے لیکن جس محکمہ تعلیم کے سپرد ان اداروں کو کیا جانا مقصود ہے اس کی اپنی کیا حالت ہے ؟ مثال کے طور پر ابھی صوبہ سندھ میں انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحان جاری ہیں اس سے پہلے میٹرک کے امتحانوں کی جو درگت بنی وہ سب کے سامنے ہے اب انٹرمیڈیٹ کے پرچے دھڑلے سے سوشل میڈیا پر آؤ ٹ ہو رہے ہیں ، سرعام نقل کروائی جارہی ہے ، امتحانی سینٹر باقاعدہ بولی لگا کر نیلام ہوتے ہیں اور یہ صورت حال کم و بیش پورے ملک کی ہے ۔ گھوسٹ سکولوں و گھوسٹ اساتذہ کی پورے ملک میں بھرمار ہے ۔ کیا اس نظام تعلیم میں مزید 20 سے 25 لاکھ دینی طالب علموں کو کھپایا جا سکتا ہے ؟ ہماری رائے یہ ہے کہ دینی مدارس پر اضافی وسائل صرف کرنے کے بجائے ریاست اگر اپنے بنیادی اداروں کو ٹھیک کر دے، اپنی کوئی معیاری تعلیمی پالیسی تشکیل دے ، دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور سرپرستوں کو بلا امتیاز کیفرِکردار تک پہنچائے، اپنے پروفیشنلز کے نصاب تعلیم کو معیاری بنالے ، تمام سرکاری دفاتر اور خاص طور پر محکمہ تعلیم کے دفاتر میں میرٹ اور چیک اینڈ بیلنس قائم کردے ، اس کے علاوہ ریاست لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرے، ان کے حوالے سے اسمبلیوں میں قانون سازی کرے، ان کی تفتیش کے دوران ان کے بچوں کے اخراجات اور معیاری تعلیم و تربیت کا انتظام کرے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ریاست یہ تسلیم کرے کہ اگر ریاستی تعلیمی ادارے ٹھیک ہو جائیں تو دینی مدارس سمیت باقی سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ چونکہ دینی مدارس کو بھی پٹڑی سے اتارنے والے کوئی اور نہیں یہی ریاستی ادارے ہیں۔ ریاستی ادارے کسی بھی درخت کی جڑوں کی مانند ہوتے ہیں، اگر جڑیں تروتازہ اور شاداب رہیں تو درخت سرسبز رہتا ہے، لیکن اگر جڑیں سوکھ جائیں تو پھر درخت سرسبز نہیں رہ سکتا۔اور سب سے ضروری بات یہ کہ دینی مدارس کو ضرور محکمہ تعلیم کے سپرد کرو لیکن محکمہ تعلیم کو بھی ماہرین ” تعلیم ” کے سپرد کرو ۔
فیس بک کمینٹ