ہم تاریخ کے جھٹپٹے میں ہیں۔ اندھیرے اور روشنی کے کھیل میں وہ نقطہ جہاں دونوں وقت آن ملا کرتے ہیں۔ یہ معلوم کرنا مگر مشکل ہے کہ ہم دن کا سفر ختم کر کے ایک طویل رات میں داخل ہو رہے ہیں یا رات کٹ رہی ہے اور بھور اجالا اپنی چھب دکھلانے کو ہے۔ اگر رات آن پہنچی تو اس رات کی آنکھوں میں شناسائی بہت ہے؛ اور اگر دن نکلنے کو ہے تو صف دشمناں کو خبر کرو، لکھو کہ اب بھی وہاں چھتوں پر مدافعت کے علم گڑے ہیں۔ یہ دبدھا اس لئے ہے کہ اچھی بری خبروں کی لین ڈوری بندھی ہے۔
نئے عدالتی سال کا افتتاح کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے ایک پرمغز خطبہ ارزاں کیا۔ محترم چیف جسٹس نے وہ سب کہہ دیا جو ماندگان رہ حیات کے دلوں میں مدت سے کھٹک رہا تھا۔ فرمایا، سیاسی عمل کے لئے راہ دشوار ہو رہی ہے۔ یہ تاثر خطرناک ہے کہ احتساب کا عمل یک طرفہ اور سیاسی انجینئرنگ کا حصہ ہے۔ نیز یہ کہ اختلافی آوازوں کو دبانے سے پھیلنے والی بے چینی جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔
دوسری طرف وزیر قانون فروغ نسیم نے ابتر شہری سہولتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کراچی کو دستور کی شق 149 ( 4 ) کے تحت وفاق کے زیر انتظام لانے کا عندیہ دیا ہے۔ اللہ اکبر! کیسے بابصیرت صاحبان حل و عقد ہیں کہ قوم کی ہیئت تشکیلی سے تعلق رکھنے والے نازک ترین موضوعات پر ٹیلی ویژن پروگراموں میں لب کشائی فرماتے ہیں۔ کشتگان ستم کو ان کی بے بسی کا احساس دلانا چاہتے ہیں یا ممکنہ ردعمل کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں۔ نتیجہ بہرصورت یہ نکلا کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (نواز)، اے این پی اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی طرف سے شدید مزاحمتی ردعمل سامنے آیا ہے۔ ایم کیو ایم کے سرکاری دھڑے کے سوا کسی نے اس تجویز کی حمایت نہیں کی۔
واقعات کی تیسری جہت میں مشرقی اور مغربی سرحدوں پر حالات بدستور نازک ہیں۔ امریکی صدر کے بیانات میں بیک وقت سرد و گرم پھونکیں محسوس کی جا سکتی ہیں۔ حالات کے چوتھے کھونٹ میں معیشت متضاد خبروں کی زد میں ہے۔ وزارت خزانہ نے تردید کی ہے کہ آئی ایم ایف کا کوئی وفد بیل آو ¿ٹ پیکج کی پہلی سہ ماہی کے نتائج کا جائزہ لینے پاکستان آ رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کا جائزہ اجلاس ختم ہو چکا لیکن اس مشق کا حتمی نتیجہ تو اکتوبر کے تیسرے ہفتے ہی میں معلوم ہو سکے گا۔ اور یہ قریب قریب وہی وقت ہو گا جب مولانا فضل الرحمن کا موعودہ آزادی مارچ اسلام آباد پہنچنے کا ارادہ رکھتا ہے اگرچہ اہم اپوزیشن جماعتوں کی سرد مہری کے باعث مولانا کی بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔ اس پیچیدہ تصویر میں محترم چیف جسٹس کے ارشادات اپنی دور رس اہمیت کی بنا پر بندگان دست بستہ سے کچھ گزارشات کا تقاضا کرتے ہیں۔
منصف محترم نے تین ایسے معاملات کا احاطہ کیا جنہیں اقلیدس کی اصطلاح میں ہم مرکز (Concentric) سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر سیاسی قوتوں کے لئے فکر و عمل کی راہیں دشوار ہوئی ہیں اور ان کے جائز احاطہ اختیار میں کمی آئی ہے تو یہ جاننا ہو گا کہ اس آسماں رنگ زمیں پر کس نے قبضہ کیا اور کب؟ یہ سمجھنا قرین انصاف نہیں کہ ناجائز قبضے کا یہ سلسلہ گزشتہ برس تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد شروع ہوا۔ اس کے ڈانڈے اپریل 2012ء اور جولائی 2017ء سے جا ملتے ہیں۔ تب کچھ مہربان ہمیں بالزاک کے اقوال زریں اور ماریو پوزو کے ادب عالیہ کا درس دے رہے تھے۔
احتساب کا عمل غیرمتوازن ہی نہیں، سیاسی کانٹ چھانٹ کا آلہ کار بھی رہا ہے لیکن احتساب کی اس یک چشمی روایت کی جڑیں ہماری تاریخ میں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ جب ملک متروکہ املاک کی چھین جھپٹ اور جعلی کلیم کی وبا سے گزر رہا تھا تو ریاست کا دست چنگیزی ایوب کھوڑو کی مبینہ کرپشن کے 62 الزامات رقم کر رہا تھا۔ 1958ء میں ملک آمریت کے اندھیرے میں اتر رہا تھا اور دست عدل نظریہ ضرورت کی مفید مطلب اصطلاح تخلیق کر رہا تھا تو ایبڈو کے درانتی سے سیاسی قیادت کی ایک پوری نسل کو کاٹ پھینکا گیا۔
اب عمومی اتفاق ہے کہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے پہلے سیاست اہل دولت کے دست طمع سے محفوظ تھی۔ سوچنا چاہیے کہ سیاست کو اہل زر کی باندی بنانے والے کیا وہی عناصر نہیں تھے جنہوں نے بھٹو حکومت کی مبینہ بدعنوانیوں پر قرطاس ابیض شائع کیے۔ آئندہ نسلیں سوال کریں گی کہ 1980ء کی دہائی کے کاروباری معاملات پر 2016 میں گرفت کی گئی، حالیہ برسوں میں کسی سرکاری منصوبے میں خردبرد کا الزام کیوں سامنے نہیں آ سکا؟ آصف زرداری کے خلاف قانون ضرور حرکت میں آئے لیکن گیارہ برس کی اس قید کا حساب بھی دینا چاہیے جس کے کچھ مقدمات ایک ٹیلی فونک گفتگو کا راز کھلنے کے بعد منسوخ ہوئے، ٹھیک اسی طرح جیسے اب اسلام آباد ہائی کورٹ کو ماتحت عدلیہ کی آلودہ انگلیوں سے واسطہ ہے۔
محترم چیف جسٹس کو ذرائع ابلاغ میں گھٹن کا احساس تب ہوا جب ان کے منصب ارفع کی میعاد ختم ہونے میں تین ماہ باقی ہیں۔ صحافت کے بین الاقوامی ادارے برسوں سے ہمارے میڈیا کے مخدوش حالات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ٹیلی ویژن کی اسکرین پر ایک نظر ڈالنے سے صحافت کی تقویم میں تزلزل معلوم کیا جا سکتا ہے۔ کسی کی لاطائل تقریریں رات گئے سماعت کا امتحان لیتی رہیں اور پھر ان کا نام ہی صفحہ قرطاس سے غائب ہو گیا۔ کسی کی پریس کانفرنس نشر مکرر کی سزا وار قرار پائی تو کسی کا جلسہ بھی خبر کا متحمل نہیں ہو سکا۔ صحافی قتل ہوئے، قاتلانہ حملوں کی زد میں آئے، کیا منصف اعلیٰ نے غور فرمایا کہ صحافیوں نے ان چیرہ دستیوں کا الزام سیاسی حکومتوں پر نہیں رکھا؟ اس لئے کہ جس سیاسی انجینئرنگ کی طرف محترم چیف جسٹس نے اشارہ کیا، وہ سیاست دانوں کے دائرہ کار میں نہیں آتی۔ عقل والوں کو اشارہ یہ کہیں اور کا ہے۔
محترم چیف جسٹس حد درجہ قابل احترام ہیں مگر قانون، سیاست، معیشت اور معاشرت کے ان الجھے ہوئے عقدوں کی کشود اب کسی صاحب اخلاص کے حرف حق سے ممکن نہیں۔ اب وقت ہے کہ قوم کے جملہ آئینی، سیاسی، تمدنی اور ریاستی اثاثے ایک میز پر بیٹھیں جہاں قوم کے وسیع تر عمرانی معاہدے کا ایسا خاکہ تیار کیا جائے جس کی روشنی میں سیاست اور ریاست کے دستوری دائرے اپنی حقیقی شکل میں بحال کیے جا سکیں۔ مرحوم شہزاد احمد کے دو اشعار صاحب عدل کے ذوق ادب کی نذر ہیں:
فصل گل خاک ہوئی جب تو صدا دی تو نے
اے گل تازہ بہت دیر لگا دی تو نے
کوئی صورت بھی رہائی کی نہیں رہنے دی
ایسی دیوار پہ دیوار بنا دی تو نے
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)