Close Menu
  • مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • عالمی خبریں
    • تجزیے
  • English Section
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • گوجرانوالا
      • سیالکوٹ
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
Facebook X (Twitter)
جمعہ, نومبر 7, 2025
  • پالیسی
  • رابطہ
Facebook X (Twitter) YouTube
GirdopeshGirdopesh
تازہ خبریں:
  • مغرب میں خواتین کی خود کشی کی شرح مرد حضرات سے زیادہ کیوں ہے ؟ : سیدہ معصومہ شیرازی کا فکر انگیز مضمون ( تیسرا اور آخری حصہ )
  • اگر ظہران ممدانی پاکستانی ہوتا… حامد میر کا کالم
  • ٹرمپ کے شہر نیویارک سے اْبھرا ظہران ممدانی : نصرت جاوید کا کالم
  • نیویارک کا نیا فادر آف دی سٹی زہران ممدانی کون ہے ؟ : ڈاکٹر عباس برمانی کا کالم
  • ملا ملٹری اتحاد اور سیاست پر آسیب کا سایہ : پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین کا تجزیہ
  • پلیٹر مافیا اور مرغن غذاؤں کے پیچھے لپکنے والوں کی کہانی
  • 27 ویں آئینی ترمیم پر مباحثہ ۔۔ اصل اہداف کیا ہیں ؟ سید مجاہد علی کا تجزیہ
  • ستائیسویں ترمیم "آوے ہی آوے” : نصرت جاوید کا کالم
  • ٹرمپ کو دھچکا، نیویارک میں میئر کےتاریخ ساز انتخابات میں مسلم امیدوار ظہران ممدانی کامیاب
  • سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلانے والے سرکاری ملازمین اور پیکا ایکٹ : شہزاد عمران خان کا کالم
  • مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • عالمی خبریں
    • تجزیے
  • English Section
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • گوجرانوالا
      • سیالکوٹ
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
GirdopeshGirdopesh
You are at:Home»لکھاری»daud tahir»مغرب میں خواتین کی خود کشی کی شرح مرد حضرات سے زیادہ کیوں ہے ؟ : سیدہ معصومہ شیرازی کا فکر انگیز مضمون ( تیسرا اور آخری حصہ )
daud tahir

مغرب میں خواتین کی خود کشی کی شرح مرد حضرات سے زیادہ کیوں ہے ؟ : سیدہ معصومہ شیرازی کا فکر انگیز مضمون ( تیسرا اور آخری حصہ )

رضی الدین رضینومبر 6, 20253 Views
Facebook Twitter WhatsApp Email
america women abortion
Share
Facebook Twitter WhatsApp Email

( گزشتہ سے پیوستہ )
حالانکہ قرون وسطیٰ میں اسی مغربی معاشرے میں عورت فساد کی جڑ مجرم ذلت اور رسوائی کا نشان تھی اسی سماجی جبر اور ظلم کے نتیجے میں عورت کا رد عمل بھی شدید اور خوفناک تھا ۔۔یہ عورت جب طاقتور ہوئی تو اس نے ایک مادر پدر آ زادی کی بنیاد رکھی ۔۔ مگر سرمایہ دارانہ نظام کے طاغوتی کارندوں نے اس عورت کو اپنے مالی مفادات کے لیے ایک ایسا کھلونا بنا لیا جو ان کی چابی سے چلتا ہے۔مغربی طاقتوں نے فن اور ادب کے نام پر جنسی آ زادی اور بے راہروی کو عام کیا اور پسماندہ ملکوں کے ذرائع ابلاغ اور نشر و اشاعت کے تمام مراکز پر اس کی ترویج میں مصروف ہوئے گویا مشرق میں ایک سماجی بغاوت کی راہ ہموار کی جا رہی ہے جہاں اگلی نسل امتیازات اور روایات کو چھوڑ کر سرکشی اختیار کرے اور جنسی آ زادی کے سیلاب میں ڈوب جائے تاکہ طاقتور مغرب ان پسماندہ معاشروں کو خوب لوٹ کھسوٹ سکے غفلت اور بے حسی میں نیم بے ہوش معاشرہ مغرب کی جنسی آزادی کے سحر میں گرفتار اپنی سیاسی سماجی اور اقتصادی غلامی سے بے خبر رہے ۔۔
مغرب کی عورت جب اپنی طاقت سے اقتصادی میدانوں میں نکلی تو اس سے جڑے خاندانی مذہبی اور اجتماعی احساسات کمزور پڑ گئے مردوں کے برابر آ کر اس نے ایک ایسی آ زادی کے میدان میں قدم رکھا جہاں وہ اپنی لطیف سچائیوں کو بھول کر فطری اور روحانی تقاضوں کو توڑ کر خود مختار اور آزاد ہو گئی ۔۔یہ ایک تباہ کن رد عمل تھا اس سختی جبر اور حقوق کی پامالی کا کہ جس کے بعد وہ عورت اب مجبور نہیں تھی کہ وہ قربانی دے ایثار کرے اور افراد خانہ کے لیے اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال دے یہ عورت عشق فداکاری ایثار روحانی اور اخلاقی قدریں سب بھول کر فقط اپنی ذات کے لیے جینے کا جذبہ لے کر آگے بڑھی۔
طلاق اور گھر ٹوٹنے سے معاشرہ سماجی حوالے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگا بچوں کے لیے قربانی دینے کا تصور عقلی طور پر ٹھکرا کر عورت معاشرے سے اجتماعی تعلق کمزور کر کے ایسی تنہائی کا شکار ہو گئی کہ خود کشی تک جا پہنچی کیونکہ اخلاقی اقدار میں ایثار و قربانی اور وفا ہی انسان کو اجتماعی زندگی کا کامیاب فرد بناتے ہیں شاید اس لیے مغرب میں خواتین کے خودکشی کے بے شمار واقعات سامنے آتے رہتے ہیں مردوں کی نسبت عورتوں میں یہ شرح زیادہ ہے خودکشی کی یہ شرح ایک سنگین سماجی مسئلے کی صورت مغرب کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے مذہب انسان کو ایک دوسرے سے مربوط کر کے خدا تک پہنچاتا ہے اور مادر پدر آ زادی انسان کو انسانی اور الہی راستوں سے بے تعلق کر کے ہر فرد کو ایک دوسرے سے بے نیاز کر دیتی ہے!! یاد رہے کہ تنہائی اور خودکشی دو ہمسائے ہیں جن کی دیواریں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں…
عورتوں میں آزادی کی خواہش اور مردوں کا ذمہ داریوں سے فرار ان دو المیوں نے نکاح اور گھر جیسی نعمت کو مغرب سےچھین لیا گھر بنے بھی تو اتنی تاخیر سے کہ ان گھروں میں خالص جذبوں کی حرارت نہ رہی نہ ہی گھر کی وہ خوبصورت وحدت تشکیل پا سکی جس میں مرد اور عورت ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو کر ایک بہترین اور خوبصورت چار دیواری کی بنیاد رکھتے ہیں پھر اس ٹوٹے پھوٹے گھریلو نظام میں جو اپنی رغبتیں اور آ زاد جنسی رابطوں سے تھک ہار کر بالاخر ایک گھر بنا لیا گیا وہ ایک بے جان اور بے ذائقہ رشتوں کی صورت وبال بن گیا اور دکھاوے کے لیے ہاتھ پکڑنا مصنوعی جذبوں کا اظہار کرنا اور پھر اپنا معاش کمانے کے لیے اپنے راستوں پر نکل جانا یہ گھر نہیں بلکہ دو تھکے ہارے لوگوں کا ایک باہمی سمجھوتہ ہے جہاں خوشیاں نہیں جذبات نہیں بلکہ مجبوری کے رشتے ہیں حتی کہ اس گھر کا بچہ بھی اس سرد مہری اور خود غرضی کا تیسرا کردار بن کر سامنے آتا ہے نہ ماں باپ بچے کے لیے اپنا وقت قربان کرنے پر تیار ہیں اور نہ بچہ ماں باپ کے لیے کوئی وقت نکال سکتا ہے میاں بیوی اس سے پہلے کے بے شمار جنسی تجربات کے بعد اب اس منزل پر پہنچ چکے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے میں کوئی کشش نظر نہیں آتی سو پورا گھر ایک سخت سرد مہری میں ہوٹلوں اور کلبوں میں پناہ ڈھونڈتا ہے ۔۔۔
عورت نے چھین کر ازادی تو لے لی مگر سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے مفادات کے تحت گھر کی جنت سے منہ موڑتی عورت کو جنس اور ہوس کے اس استحصال میں اپنا شکار بنا لیا جہاں فنون لطیفہ جو لطیف احساسات پر مبنی سلسلے تھے اسے عورت کے برہنہ وجود کی عیاشی کا ذریعہ بنا دیا گیا گویا سرمایہ دارانہ نظام عورت کو بطور تفریح پیش کر کے اصل مسائل سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عورت کو اپنی مصنوعات کا اشتہار بنا کر اسے اپنے مادی مقاصد میں بطور کنیز استعمال کرتا ہے ۔۔۔
آج مشرق کی عورت بھی اپنے معاشرے کے غیر حقیقی اور جاہلانہ جبر سے فرار حاصل کرنا چاہتی ہے اور مغرب ایسے مفرور قیدی کا بآسانی شکار کر رہا ہے۔۔مشرقی معاشرے نے عورت کو حقیر کمزور اور شوہر کی کنیز بنا کر رکھنا چاہا اور اس نے مغرب کی چکا چوند کی طرف قدم بڑھانے شروع کیے ہیں ہم اس عورت کو حضرت فاطمہ اور حضرت زینب کے کردار میں ڈھلنے کے مشورے دیتے ہیں جس کی قوت فکر میں اتنی طاقت بھی نہیں کہ وہ ان عظیم الشان انسانی اقدار کی محافظ اور باعظمت ہستیوں کو پہچان سکے جنہوں نے قدم قدم پر انسانیت، محبت، ایثار ،شجاعت ،وفا اور استقامت کے طاقتور معجزے دکھائے ہماری عورت کو عالمانہ محفلوں میں علمی و تبلیغی اجتماعات میں قران و حدیث و فلسفہ کی امور میں یہاں تک کہ مساجد میں بھی جانے کی اجازت نہیں دی جاتی وہاں فقط مرد جمع ہوتے ہیں عورت صرف مجلس عزا تک جا سکتی ہے جہاں پر اسے ان باعظمت خواتین کی لامثال کردار کی بجائے ان کے غم سنا کر گریہ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے یہی عورت مغرب کی آزادی کے نعرے کا شکار ہوتی ہے یہ آزادی علم و دانش تخلیق و تہذیب اور تمدن کی آزادی نہیں نہ اس کی شعوری سطح اور فکر و نظر کی بلندی کی آزادی ہے بلکہ یہ آزادی شکاریوں کی وہ قینچی ہے جو اس کی چادر کاٹنے کے در پے ہے ۔۔۔اور دوسری طرف مغربی مصنوعات کی پجاری وہ عورت ہے جس نے اپنے میک اپ اور ظاہری لبادے کو رنگین بنانے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے اس مصیبت میں نہ پچھلی روایتی عورت اس مغربی یلغار کے مقابلے ڈٹ سکتی ہے اور نہ ہی وہ جدید عورت جس کی مثال ایک چابی کی گڑیا کی سی ہے ۔۔ان فکری حملوں کا مقابلہ کرنے کی اہل وہ عورت ہے جو نئے سرے سے خود کو دریافت کرنا چاہتی ہے جو مغرب کے نجس ہاتھوں میں کھیلتی نعرہ آزادی لگاتی اس عورت کے کریہ چہرے کی حقیقت بھی جان چکی ہے اور کہنہ روایات میں پھنسی بیچاری عورت کی حقیقت سے بھی خوب اگاہ ہے یہی وہ خواتین ہیں جو اس وقت تمام حقیقتوں سے واقف ہو کر شکاریوں کے جال میں پھنسی ہوئی بے راہ عورتوں کے سانچے میں ڈھلنے کے لیے تیار نہیں ہیں وہ اپنی ذات کے لیے ازادی اور انتخاب کا حق چاہتی ہیں حقیقی آ زادی اور حقیقی انتخاب اور وہ مثالی انتخاب !!پیغمبر کی بیٹی فاطمہ ہے!!
جناب فاطمہ کی ولادت اس معاشرے میں ہوئی جہاں آبرو مند مرد بیٹے کا باپ بننا پسند کرتا تھا یہ قبائلی عہد مادری عہد سے پدری عہد میں داخل ہو چکا تھا یہاں عزت کا نشان فقط مردوں کی اونچی پگڑیاں تھیں بچی کے لیے سب سے بہتر داماد قبر قرار دی گئی تھی . بیٹی کو دفن کر دینا خاندانی عزت کے تحفظ کے لیے ضروری تھا عورت معاشی حوالے سے بھی ایک ناکارہ بوجھ سمجھی جاتی تھی عورت فقط ضعف ،ذلت اور پستی کی علامت تھی البتہ بنی ہاشم کی عورتیں صاحب عزت تھیں قرآن نے غیرت عزت اور پگڑیوں کو رد کرتے ہوئے اسے فقط اقتصادی مفادات کا شاخسانہ قرار دیا سورہ انعام اور سورہ اسراء میں خدا فرماتا ہے کہ اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی رزق عطا کرتے ہیں۔۔یہاں بیٹے سے محروم شخص کو ابتر کہا جاتا تھا یعنی جو بانجھ ہو بے ثمر ہو۔۔بے مایہ ہو!! اس کے مقابلے میں حضرت فاطمہ کی عطا پر لفظ کوثر یعنی برکت کی تمثیل بیان فرمائی گئی یعنی کثرت اولاد کی خوشخبری سنائی گئی ..
مکہ میں بنو ہاشم کی معنوی قدر و منزلت کا روشن چہرہ محمد اور خدیجہ کا گھر ہے آقا فاتح مکہ ہیں ابتر کہنے والوں کو اپنی رحمت کے اعلان میں آزاد فرماتے ہیں تمام جزیرہ عرب ان کے زیر نگیں ہے ان کے ایک ہاتھ میں سرداری اور دوسرے ہاتھ میں نبوت ہے شکوہ اقتدار کے نقطہ عروج پر ہیں یہ وہ شجر نور ہے جس کی نمود غار حرا میں ہوئی ہے جس کا نور تمام روئے زمین پر چھا چکا ہے اس باعظمت شاہ عرب کا کل سرمایہ ان کی بیٹی فاطمہ ہے انسانیت کی بلند اقدار کی وارث فقط فاطمہ ہے ۔۔خدائے ابراہیم نے تمام انسانیت میں اپنے گمنام سپاہی کے طور پر ایک خاتون کو منتخب کیا جو ہاجرہ کہلائی! کسی نبی کو طواف گاہ میں دفن ہونے کی اجازت نہیں ملی فقط ہاجرہ وہ باعظمت کردار ہے جسے خدا نے ابراہیم کو حکم دے کر اپنی طواف گاہ کے چوتھے پائے میں دفن کروایا خدا نے عورت کی عظمت کے اس انقلاب کی پہلی اینٹ رکھی اور پھر اس عز و شرف کا دوسرا اظہار فاطمہ کو بنایا جو شجرہ نبوت کو دوام دینے والی پیغمبر کی نسل اور ان کے مقصد کی وارث ایک باعظمت طاقتور مضبوط باحوصلہ خاتون ہے جس کے لیے شہنشاہ عرب کھڑے ہو کر اپنی مسند پیش کرتے ہیں۔۔فاطمہ ایک عظیم انقلاب کے میدان کی سپاہی ہیں اور فاطمہ اس انقلاب میں اپنی حیثیت خوب جانتی ہیں ۔۔
خانہ پیغمبر اور خانہ زہرا ایک دوسرے سے متصل ہیں اور یہ دونوں گھر مسجد نبوی کے احاطے میں ہیں پیغمبر سفر پر جاتے ہوئے سب سے اخر میں فاطمہ کو سینے سے لگاتے ہیں اور واپسی پر سب سے پہلے فاطمہ کے نورانی چہرے پر نظر ڈالتے ہیں فاطمہ بطن خدیجہ میں اپنی والدہ کی سماجی تنہائی پر ان سے گفتگو فرماتی ہیں جس کا اظہار جناب خدیجہ رسول اللہ سے بھی فرماتی ہیں رسول پر آئیں سختیوں میں فاطمہ ان کی ہمدم اور انیس ہیں اور بعد از رسالت اپنے شوہر علی کا سارا بار غم اپنے با حوصلہ کندھوں پر اٹھاتی ہیں۔۔۔
شعب ابی طالب کی جانکاہ سختیوں میں فاطمہ اپنے بابا اور اپنی ماں کے ساتھ پوری استقامت سے تاریخ کے اس مشکل ترین دور سے گزر رہی ہیں جہاں بھوک فاقہ سماجی تنہائی اور عداوت کے نوکیلے لہجے ہیں انہی حسرت ناک دنوں میں پیغمبر کی مشکل زندگی کی رفیق زوجہ حضرت خدیجہ اپنی دختر فاطمہ سے مخاطب ہیں ،،اے فاطمہ قریش کی کسی عورت نے ایسا راحت و ارام نہ اٹھایا ہوگا جو مجھے میسر ایا مجھے وہ کرامت نصیب ہوئی جو کسی کے نصیب میں نہ آسکی میں خدا کی محبوب ترین بندے کی زوجہ بنی اور اس کے منتخب پیغمبر کی شریک حیات ہوں میرے فخر کے لیے کافی ہے کہ میں نے دعوت رسالت پر سب سے پہلے لبیک کہا اور رسول اللہ کی امت کی ماں کہلائی،، شعب ابی طالب کی مشکل وادی سے نکلتے ہی حضرت فاطمہ ماں کی مفارقت کا زخم اٹھاتی ہیں اور اس کے بعد یہ فاطمہ ہیں جو اپنے بابا کی ہمدرد و غمگسار اور انیس بن کر ہر پل ان کی غمگسار ہیں قربانی، شہادت، ایثار اور فداکاری اس عظیم الہی انقلاب کی بنیادی شرائط ہیں جس کا نقطہ آغاز فاطمہ ہے اور اس انقلابی تاریخ کو حرارت توانائی اور اعتبار دینے والی شخصیت علی ہے!! جو بچپن سے ہی دعوت ذوالعشیرہ میں پیمان وفا کر چکے ہیں اور ابو طالب کے مہربان سائے کا دوسرا رخ بن کر بیت پیغمبر میں آ چکے ہیں اب وہ ہارون رسالت ہیں اور رسول فرما رہے ہیں کہ اسلام کی طاقت ثروت خدیجہ اور سیف علی ابن ابی طالب ہے۔۔ کم عمری میں ہی علی پیغمبر گرامی کے محافظ عاشق اور سپاہی ہیں علی کا بچپن بابا ابو طالب کے گھر نہیں خانہ پیغمبر میں گزرا بالکل ایسے جیسے آقا کا بچپن چچا ابوطالب کے گھر میں بسر ہوا۔۔مکی کی زندگی کے تیرہ سال مکمل ہوئے اور مصیبتوں تنہائیوں اور دشمنیوں کی ہرزہ سرائیوں کے بعد اب باب مدینہ کھلنے والا ہے مدنی زندگی کا سنہرا دور اغاز ہو چکا ہے پیغمبر پہلوئے مسجد میں قیام فرما چکے ہیں مواخات میں مصطفیٰ رشتہ اخوت میں علی کو اپنا بھائی قرار دے چکے ہیں علی و فاطمہ وحی کے نور میں پروان چڑھے آغوش نبوت کی خوشبو میں پلے اور عقیدے اور روحانی منزلوں میں قدم بقدم مصطفیٰ کے ساتھ چلے ایک ہی سرچشمہ ہدایت سے فیضیاب ہوئے ۔۔مصیبتوں دکھوں اور تکلیف دہ ساعتوں میں نور پیغمبر کے رفیق و دمساز دو عظیم نور !جنہیں خدا نے اپنی رحمتوں کے سائے میں ایک کر دیا عالمین میں سب سے مکمل اسوہ رکھنے والے گھر کی تکمیل جہاں شاہ مردان یعنی مردوں کا سردار علی ہے اور عورت عالمین کی عورتوں کی سردار ہے یہ گھر عالمین کے انسانوں کے لیے بطور بہترین انتخاب ہے ایک باعزت پر افتخار اور باعمل خاتون اور خدا کے پسندیدہ رنگوں میں ڈوبا ایک عظیم الشان مرد دونوں کردار جانتے ہیں کہ زندگی کی معراج جہاد حقوق اللہ اور حقوق العباد میں پوشیدہ ہے فاطمہ امور خانہ انجام دے رہی ہیں اور علی کے پرسکون گھر میں قناعت اور صبر کے ساتھ کوثر کی جنت بسا رہی ہیں اور علی مجاہدہ حق میں میدانوں میں علم توحید سربلند کر رہے ہیں اس روحانی طمانیت میں فاطمہ ظاہری فقر سے بے نیاز ہیں اور منزل شکر پر فائز ہیں ۔۔فاطمہ کو معلوم ہے کہ علی کی عظمتوں کے ساتھ علی کی آزمائشوں میں بھی شریک ہو چکی ہوں۔ فاطمہ رسالت کے بعد اب ولایت کے مراتب کی بھی امین بنا دی گئی ہیں آزادی اور عدالت کے شجرہ طیبہ کی نگران اور وارث فاطمہ انسانی حقوق، ایثار، قربانی ،جانبازی ،وفا اور تسلیم کا مظہر بن کر زمین پر خدا کی نورانی جنت تعمیر کرنے والی ایک عظیم ماں!! ایک مثالی بیوی !!اور ایک باعظمت بیٹی !!!!!!!فاطمہ وہ باعظمت خاتون ہے کہ شفاعت کبریٰ کا شرف جس کی نورانی شخصیت سے جڑا ہے یہ بھی یاد رہے کہ ہم نے شفاعت کو بے حساب گناہوں کے بعد خصوصی سفارش پر ملنے والی جنت قرار دیا ہے حالانکہ شفاعت کا الہی تصور یہ ہے کہ جب انسان حر بن کر اپنی روح میں انقلاب محسوس کرے اور انسانی آزادی، عدل ا،یثار اور خدا شناسی کا مرتبہ پا لے اور باطنی طور پر اس در کی معرفت حاصل کر لے جہاں اسے نیا انسان بننا ہے اور قلب و روح کی ماہیت کو بدلنا ہے تو گویا ان وسیلوں سے وہ جور و ستم اور ستم شعاروں کی بیعت سے نکل کر ایمان کی بلند چوٹیوں تک پہنچ جاتا ہے یہی شفیع کی شفاعت کا مقام بلند ہے !!فاطمہ کی معرفت آپ کو انسانیت کی تمام باعظمت قدروں تک پہنچاتی ہے فاطمہ کا گھر جو خانہ رسالت سے متصل ہے اس میں نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے نئے ستارے طلوع ہو رہے ہیں ابتری کے طعنے کا جواب نور حسن ع کی صورت میں مل چکا ہے ایک طویل عرصے کے بعد آقا کے چہرے پر ملکوتی تبسم ہے پھر اس گھر میں پیغمبر کی نسل نورانی کا سلسلہ آگے چل پڑا ہے معنوی اعتبار سے علی محمد مصطفی کے نور کا تسلسل ہیں اور فاطمہ نسل محمدی کی بقا اور زندگی ہے !!خدا نے آقا کے دو جدا ہونے والے بیٹوں کا بہترین نعم البدل حسن و حسین کو قرار دیا ہے ۔آقا کی آنکھوں کا نور دل کا سرور اور سینے کی ٹھنڈک فاطمہ زہرا کی نورانی اولاد ہے ۔۔ہر ہر لمحہ اظہار محبت ان کی دوستی کو اپنی دوستی اور ان سے دشمنی کو خود سے دشمنی قرار دینا کبھی منبر پر زانو پہ بٹھا کر ان کے فضائل بیان کرنا کبھی پشت پر بیٹھے لخت جگر کی وجہ سے سجدے کو طول دینا کبھی کندھوں پر بٹھا کر مدینہ کی گلیوں میں ان کے فضائل بیان کرنا دراصل امت کو یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ تمام چہرے میرے چہرے ہیں۔ توحیدی میدانوں میں شہادت ایثار تسلیم اور وفا کے نور سے قیامت تک دین الہی کے محافظ اور وارث ہیں ۔پیغمبر کی یہ محبت بھی گویا عشق الہی کے تابع ہے آقا کریم نورانی چہروں میں شریعت الہی کا مستقبل روشن و تاباں دیکھ رہے ہیں یہ ہدایت کے روشن راستے، معرفت الہی کے تابندہ ستارے اور صبح یقین کے دمکتے سورج ہیں ۔۔۔۔
آقا مکہ کی تاریک وادیوں سے حرا کی پرنور چوٹی تک بالکل اکیلے ہیں بے حسی فکری جمود اور کینہ پرور لوگوں کے درمیان یک و تنہا اور کاندھوں پر ایسی امانت کا بار جو پہاڑوں پر اترے تو ان کی ہیبت سے ریزہ ریزہ ہو جائیں! آقا تن تنہا کار تبلیغ کے مشکل راستے کے مسافر ہیں ..شام کو تھکے ہارے شور و غا اور دشنام سہ کر گھر لوٹتے ہیں تو خدیجہ اور فاطمہ کی مہربان انکھیں ان کا استقبال کرتی ہیں پھر خدیجہ بھی اسی عالم غربت اور تنہائی میں رخصت ہوتی ہیں اب تنہا کم سن فاطمہ ہے جو سائے کی طرح اپنے بابا کے ساتھ ساتھ ہیں فاطمہ نے اپنا وجود اپنی زندگی اپنی وفا آقا کے لیے وقف کر دی۔۔۔فاطمہ سرچشمہ حق پسندی ہیں اور عدالت طلبی فاطمہ کے ناقابل شکست کردار کا نعرہ ہے۔۔ فاطمہ ایک مثالی عورت ایک عظیم بیٹی ایک مثالی زوجہ اور ایک لا مثال ماں ہے ایک ایسی عظیم عورت جس نے اپنے عمل اور حوصلے سے عورت کے دائرہ عمل کو لامحدود کر دیا جس کا اسوہ ایک عورت کے لیے مثالی نمونہ ہے ہر اس با ہوش اور اہل فکر عورت کے لیے جو آزادانہ طور پر اپنی شخصیت کو تعمیر کرنے کی خواہشمند ہے فاطمہ زہرا کا حیرت انگیز بچپن ان کی جدوجہد صبر اور حوصلے سے بھرپور زندگی داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ان کا عظیم فاتحانہ کردار معاشرے کی درد مند رہبر افراد معاشرہ کی غم گسار و مددگار۔۔سائلوں کی مددگار کمزور اور کمتر افراد کی مونس۔افراد معاشرہ کے لیے حساس دل،مہربان صابرہ گویا ہر ہر محاذ زندگی میں ایک شاندار شخصیت!! فاطمہ کی زندگی کا ہر پہلو روشن تابناک ، بہترین اور شاندار ہے توحیدی انقلاب کی صاحب ارادہ طاقتور مددگار !!باپ کی بہترین یاور !!شوہر کی طاقتور مدافعہ اور اس کی جدوجہد میں برابر کی شریک زوجہ!! اس کی ہمدم و ہمراز ایک چار دیواری کو اپنے ایثار ,قناعت اور شکر سے جنت بنانے والی خ اتون ایک ایسی خاتون جس کی طاقتور شخصیت علی جیسے باپ کی موجودگی میں اس کی نسل کی پہچان بن گئی ہے اج کی عورت اس معظم ہستی کی شخصیت کے روشن اور تابناک پہلوؤں سے واقف ہو کر ایک ایسی طاقتور سرخرو با اعتماد اور ناقابل شکست شخصیت بن سکتی ہے جس کے سامنے انسانی اقدار کے دشمنوں کے پاؤں اکھڑ جائیں!! کاش ہمارے خطباء علماء اور دانشور فاطمہ جیسی دیو مالائی طاقتور شخصیت کے ان پہلوؤں کو اجاگر کریں جہاں ایک مسلمان عورت اس جدید دور میں اپنے اپ کو ایک لازوال اور بے مثال کردکردار میں ڈھال کر جدید زمانے کی ہدایت یافتہ اورترقی یافتہ خاتون کہلا سکے
( مکمل )

فیس بک کمینٹ

  • 0
    Facebook

  • 0
    Twitter

  • 0
    Facebook-messenger

  • 0
    Whatsapp

  • 0
    Email

  • 0
    Reddit

امریکا خواتین
Share. Facebook Twitter WhatsApp Email
Previous Articleاگر ظہران ممدانی پاکستانی ہوتا… حامد میر کا کالم
رضی الدین رضی
  • Website

Related Posts

عہدِ جدید کی مسلمان عورت اپنے حقیقی چہرے کی تلاش میں : سیدہ معصومہ شیرازی کا فکر انگیز مضمون ( پہلا حصہ )

اکتوبر 27, 2025

امریکہ میں لاکھوں افراد ٹرمپ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے : ’وہ مجھے بادشاہ کہہ رہے ہیں، میں بادشاہ نہیں ہوں‘ امریکی صدر کا ردعمل

اکتوبر 19, 2025

حماس نے تمام 20 زندہ اسرائیلی یرغمالی رہا کردیے، سیکڑوں فلسطینی قیدی بھی غزہ پہنچ گئے

اکتوبر 13, 2025

Comments are closed.

حالیہ پوسٹس
  • مغرب میں خواتین کی خود کشی کی شرح مرد حضرات سے زیادہ کیوں ہے ؟ : سیدہ معصومہ شیرازی کا فکر انگیز مضمون ( تیسرا اور آخری حصہ ) نومبر 6, 2025
  • اگر ظہران ممدانی پاکستانی ہوتا… حامد میر کا کالم نومبر 6, 2025
  • ٹرمپ کے شہر نیویارک سے اْبھرا ظہران ممدانی : نصرت جاوید کا کالم نومبر 6, 2025
  • نیویارک کا نیا فادر آف دی سٹی زہران ممدانی کون ہے ؟ : ڈاکٹر عباس برمانی کا کالم نومبر 6, 2025
  • ملا ملٹری اتحاد اور سیاست پر آسیب کا سایہ : پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین کا تجزیہ نومبر 6, 2025
زمرے
  • جہان نسواں / فنون لطیفہ
  • اختصاریئے
  • ادب
  • کالم
  • کتب نما
  • کھیل
  • علاقائی رنگ
  • اہم خبریں
  • مزاح
  • صنعت / تجارت / زراعت

kutab books english urdu girdopesh.com



kutab books english urdu girdopesh.com
کم قیمت میں انگریزی اور اردو کتب خریدنے کے لیے کلک کریں
Girdopesh
Facebook X (Twitter) YouTube
© 2025 جملہ حقوق بحق گردوپیش محفوظ ہیں

Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.