جوتا دکھانا یا جوتا مارنا،احتجاج کا یہ پاپوش ناک چلن کسی ایک خطے تک محدود نہیں بلکہ عالمی وبا ہے۔ سب سے اہم واقعہ تو واحد سپرپاور کے صدر جارج بش جونئیر کا ہے جب چودہ دسمبر دو ہزار آٹھ کو بغداد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران عراقی صحافی منتظر الزیدی نے بش کی طرف پہلا جوتا یہ کہتے ہوئے اچھالا کہ ’’ یہ تیرے لیے عراقی عوام کی جانب سے الوداعی بوسہ ہے کتے ’’اور دوسرا جوتا یہ کہتے ہوئے اچھال دیا کہ ’’ یہ عراقی شہیدوں ، بیواؤں اور یتیموں کی طرف سے۔‘‘ جارج بش دونوں بار جھکائی دے گئے اور جوتا ان کے اوپر سے گذر گیا۔بعد میں انھوں نے بھاری ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے کہا ’’یہ دس نمبر کا تھا جو میرا سائز نہیں‘‘۔
خود منتظر الزیدی کو اس واقعہ کے ٹھیک ایک برس بعد پیرس میں گویا مکافاتِ عمل کا سامنا کرنا پڑا جب ایک جلا وطن عراقی صحافی نے منتظر پر آمریت کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے ہوئے جوتا کھینچ مارا۔منتظر نے بھی جوتا کھانے کے بعد ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے کہا ’’ اس آدمی نے میری نقالی کی ہے‘‘۔
عراق فوجیں بھیجنے کے کفشی احتجاج کا سامنا سابق آسٹریلوی وزیرِ اعظم جان ہاورڈ اور سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلئیر کو دو دو بار مختلف مقامات پر جوتوں اور ٹماٹروں کی شکل میں بھوگنا پڑا۔اسکندریہ میں دو ہزار بارہ میں امریکی وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن کے قافلے پر انڈوں اور جوتوں کی بارش ہوئی۔
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد دو ہزار چھ میں امیر کبیر یونیورسٹی تہران میں اور پھر قاہرہ میں جوتے کا سامنا کرچکے ہیں۔جب کہ احمدی نژاد کے صدارتی حریف مہدی قاروبی کی دستار دو ہزار نو میں احمدی نژاد کے ایک حامی کا جوتا لگنے سے گر چکی ہے۔ترک صدر رجب طیب اردوان کو ایک کرد نے فروری دو ہزار دس میں جوتا دے مارا۔ سوڈان کے صدر عمر البشیربھی دارلحکومت خرطوم میں جوتے کا سامنا کر چکے ہیں۔
سویڈن میں اسرائیلی سفیر بینی ڈگان اسٹاک ہوم میں غزہ پر بمباری کی وضاحت کرتے ہوئے جوتے کا نشانہ بن چکے ہیں۔چین کے وزیرِ اعظم وین جیا باؤ جب دو فروری دو ہزار نو کو کیمبرج یونیورسٹی میں میزبان وزیرِ اعظم گورڈن براؤن کے ہمراہ چینی اقتصادی ترقی کے بارے میں لیکچر دینے پہنچے تو ایک جرمن طالبِ علم مارٹن جانکے نے یہ کہتے ہوئے جوتا اچھال دیا کہ ’’ جھوٹ بک رہا ہے‘‘۔بعد ازاں وین جیا باؤ نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے کہا کہ اس نوجوان کو تعلیم مکمل کرنے دی جائے تاکہ اس کی تربیت مکمل ہو سکے۔
یکم اکتوبر دو ہزار نو کو استنبول میں آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر ڈومنیک سٹراس کہان کو احتجاجیوں کی جانب سے اچھالے جوتوں کا سامنا کرنا پڑا۔وہ نعرے لگا رہے تھے ’’خون چوس آئی ایم ایف دفع ہو جاؤ‘‘۔
برِصغیر میں شائد ہی کوئی ایسا رہنما یا سرکردہ شخصیت ہو جسے ناپسند کرنے والوں نے جوتا نہ دکھایا ہو یا پھینکنے کی کوشش نہ کی ہو۔ یوپی کے پرانے بزرگ آج بھی اپنا کمزور سینہ پھلاتے ہوئے چوتھی پیڑھی کو بتاتے ہیں کہ ’’میاں جب تعلقہ دار صاحب کو کسی بدخواہ کو سبق سکھانا ہوتا تو اپنے سامنے چمار سے جوتے پڑواتے تھے‘‘۔
اردو ہندی لسانی محاوراتی خزانہ ہی دیکھ لیجیے۔ جوتیوں میں دال بٹنا ، سر پے جوتا مارنا ، جوتم پیزار ہونا ، جوتا کاری کرنا، جوتی جیسا منہ ، جوتے سیدھے کرنا، جوتے اٹھانا، جوتوں میں بیٹھنا ، جوتوں کا ہار ، جوتا چھپائی غرض ایک سلسلہِ دراز ہے پاپوشی ادب کا۔
مولانا ظفر علی خان سے یہ واقعہ منسوب ہے کہ جب انھوں نے سامنے سے کانگریس کا جلوس آتے دیکھا تو اور تو کچھ نہ بن پڑا ایک فی البدیہہ شعر ہی کہہ ڈالا
کانگریس آ رہی ہے ننگے پاؤں
جی میں آتا ہے بڑھ کے دوں جوتا
بھارت میں انتخابی مہم کے دوران کہیں سے بھی جوتا مارنے کی خبر نہ آئے یہ ممکن نہیں۔سابق وزیرِ اعظم من موہن سنگھ مودی کی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں جوتے کا سامنا کر چکے ہیں۔سابق وزیرِ داخلہ پی چدم برم سات اپریل دو ہزار نو کو دلی میں پریس بریفنگ کے دوران سن چوراسی میں دلی میں سکھوں کے قتلِ عام سے متعلق ایک سوال کا جواب گول مول کرنے پر اخبار دینک جاگرن کے رپورٹر جرنیل سکھ کا جوتا سہہ چکے ہیں۔اس واقعہ کے ایک ہفتے بعد بی جے پی کے سینئر رہنما ایل کے اڈوانی کو مدھیہ پردیش کے انتخابی دورے میں اپنے ہی ایک ناراض حامی پواس اگروال کا جوتا پڑ گیا۔جنوری دو ہزار بارہ میں کانگریس کے رہنما راہول گاندھی اپنے ہی آبائی حلقے امیٹھی میں ایک ناراض ووٹر کا جوتا سہہ چکے ہیں۔عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجری وال کی مقبولیت بھی انھیں دلی کے ایک اجتماع میں جوتا پڑنے سے نہ بچا سکی۔
بھٹو صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وسطی پنجاب میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران کچھ لوگوں نے ہاتھ میں جوتے پکڑ کے لہرانا شروع کر دیے۔بھٹو نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا بیٹھ بیٹھ جاؤ۔مجھے معلوم ہے تمہیں جوتوں کی ضرورت ہے۔ عوامی حکومت اس کا بھی انتظام کر دے گی۔
دو ہزار سات میں جج بحالی تحریک کے دوران سپریم کورٹ کی سیڑھیوں پر سرکردہ مشرف نواز ماہرِ قانون احمد رضا قصوری کے منہ پر کسی نے کالک کا اسپرے کردیا۔ سات اپریل دو ہزار آٹھ کو جب سابق وزیرِ اعلی ارباب رحیم سندھ اسمبلی میں رکنیت کا حلف اٹھا کر باہر نکل رہے تھے تو پیپلز پارٹی کے ایک جیالے آغا جاوید پٹھان نے ان کے منہ پر جوتا جڑ دیا۔
پرویز مشرف کو صدارت سے سبکدوش ہونے کے بعد دو مرتبہ جوتے کا سامنا کرنا پڑا۔پہلی بار چھ فروری دو ہزار گیارہ میں لندن کے علاقے والتھم اسٹو میں ان پر جوتا پھینکا گیا اور دوسری بار سندھ ہائی کورٹ کے احاطے میں تجمل حسین لودھی ایڈوکیٹ نے جوتا مارنے کی کوشش کی۔ ان کے بعد آنے والے صدر آصف علی زرداری پر برمنگھم کے ایک اجتماع میں سردار شمیم خان نے جوتا اچھال دیا اور زرداری صاحب کو خطاب مختصر کرنا پڑ گیا۔
ن لیگ کے سابق وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید کراچی ایرپورٹ پر ممتاز قادری کے حامیوں کے گھیرے میں آ گئے اور کسی بدتمیز نے جوتا جڑ دیا۔وزیرِ داخلہ احسن اقبال کو گذشتہ ماہ اپنے آبائی حلقے نارووال میں جوتے سے، اس ہفتے وزیرِ خارجہ خواجہ آصف کو اپنے آبائی شہر سیالکوٹ میں منہ پر سیاہی پھینکے جانے اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو لاہور کی جامعہ نعیمیہ میں تین روز قبل اچھالے گئے جوتے سے بچنا پڑا۔
مشکل یہ ہے کہ کوئی جوتا پھینکنے پر آمادہ ہو جائے تو اسے روکنا آسان نہیں کیونکہ جوتا ہتھیار کی کیٹگری میں نہیں آتا۔اس کا تعلق تربیت یا جہالت کے اسکیل سے بھی نہیں ورنہ ترقی یافتہ مہذب ممالک میں جوتے کاری کی وارادتیں ناخواندہ سماج کے مقابلے میں کم ہونی چاہئیں تھیں۔لیکن اگر آپ کو ترقی یافتہ ممالک کی سیاسی تہذیب دیکھنی ہو تو پھر یو ٹیوب پر تائیوان ، جاپان ، اٹلی ، یوکرین جیسے ممالک کی پارلیمان کے مناظر دیکھئے جہاں آپے سے باہر ہونے کی صورت میں ایک ساتھ بیسیوں جوتے، کرسیاں اور مائیک ہوا میں اچھل رہے ہوتے ہیں۔ خروشچیف نے تو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جوتے سے ڈیسک بجا دیا تھا۔
بھارتی لوک سبھا میں ایک ایسا واقعہ ہوا ہے جب کسی رکنِ اسمبلی نے اسپیکر کی جانب جوتا اچھال دیا۔ مگر پاکستانی پارلیمان اب تک اس برائی سے محفوظ ہے۔البتہ ایک بار پاکستانی اسمبلی سب سے بازی لے گئی۔پچاس کی دہائی میں مشرقی پاکستان اسمبلی میں جگتو فرنٹ اور مسلم لیگیوں کے درمیان گملے چل گئے۔ ایک گملا ڈپٹی اسپیکر شاہد علی کے سر پر لگا اور وہ شدید زخمی حالت میں دو روز بعد چل بسے۔
جب سے نواز شریف کی جانب جوتا اچھالنے کی خبر آئی ہے۔تب سے ایک سوال میرے ذہن میں کلبلا رہا ہے۔اگر ملک کے صفِ اول کے سیاسی رہنماؤں کے اردگرد سیکیورٹی کا یہ عالم ہے تو جو چار فٹ دور سے جوتا پھینک سکتا ہے وہ گولی بھی تو چلا سکتا ہے۔تب کیا ہوگا ؟ موجودہ انتخابی مہم میں ہر روز پہلے سے زیادہ گند اچھلنے کے آثار ہیں۔سیاسی جماعتوں اور ریاست کو اور جامع سیکیورٹی پلان بنانا پڑے گا۔براہِ کرم فول پروف سیکیورٹی کی اصطلاح استعمال کر کے فول بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔
(بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ