جو لوگ وسطی اور جنوبی ایشیا کی نفسیات جاننے والے عصرِ حاضر کے مغربی لکھاریوں سے واقف ہیں وہ برطانوی مؤرخ ولیم ڈال رمپل سے بھی واقف ہوں گے۔ گذشتہ ہفتے سیہون میں قلندر کے مزار پر خود کش حملے کے بعد اخبار گارڈین میں ان کا ایک مضمون چھپا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں،
’’چند برس پہلے جب میں سیہون گیا تو قلندر کے مزار سے ذرا فاصلے پر ایک حویلی میں قائم مدرسے کے نوجوان مہتمم سلیم اللہ سے ملاقات ہوئی۔ سلیم اللہ ایک پڑھا لکھا آدمی ہے۔ اس نے بلا لاگ و لپیٹ شریعت و تصوف پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ بقول سلیم اللہ ہم مزار پرستی کے مخالف ہیں۔ قرآنی تعلیمات اس بابت بالکل واضح ہیں کہ مردے کچھ نہیں دے سکتے بھلے وہ ولی ہی کیوں نہ ہوں۔ قبر پرستی اور بت پرستی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ میری بات لکھ لو کہ طالبان کی مزید شدت پسند شکل پاکستان میں آ رہی ہے۔ خلافت قائم ہونے کے بعد یہ ہمارا فرض بن جائے گا کہ تمام درگاہیں اور مزارات ڈھا دیں۔ اور اس کا آغاز یہاں سیہون سے ہوگا۔
ولیم ڈال رمپل لکھتے ہیں کہ سلیم اللہ کا تعلق جس مذہبی طبقے سے ہے اس کے پانچ ہزار مدارس ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں اور مزید ڈیڑھ ہزار مدرسے صرف سندھ میں کھولے جا رہے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی اور عالمی بینک کے ایک حالیہ تحقیقی مطالعے کے مطابق اس وقت پاکستان میں معلوم مدارس کی تعداد آٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے اور یہ تعداد 1947 کے مقابلے میں ستائیس گنا ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ میں بنیاد پرستوں اور تصوف کے ماننے والوں کے مابین کھینچا تانی ہمیشہ سے ہے۔ مگر چند عشرے قبل تک اس کش مکش میں الفاظ و دلائل کے ہتھیار استعمال کیے جاتے تھے۔ تصوف اور اس کے مراکز اور صوفیوں کی درگاہوں یا مزارات کو ایک خاص نظریے کے تحت نشانہ بنانا یا انھیں منہدم کر دینے کا عمل بھی دو سو برس سے زیادہ پرانا نہیں اور یہ طرح جزیرہ نما عرب میں اٹھارویں صدی کے مبلغ عبدالوہاب اور ان کے پیرو کاروں نے ڈالی مگر انہدام یا پابندی کا عمل زیادہ تر جزیرہ نما عرب تک ہی محدود رہا۔
برِ صغیر میں انیسویں صدی کے وسط میں جنم لینے والے دیوبندی اور پھر بریلوی مکاتیب فکر کے مابین بدعت و شرک کی تشریحات کے مسائل پر مناظروں کی حد تک تو مچیٹا چلتا رہا مگر ابھی اس اختلاف نے جان لیوا انتہا پسندی کی شکل اختیار نہیں کی تھی۔ گولی نے دلیل کی جگہ نہ لی تھی۔ حتیٰ کہ افغانستان پر سوویت قبضے کے بعد اگلے دس پندرہ برس میں سعودی حمایت یافتہ افغان مجاہدین کے عروجی دور میں بھی درگاہوں اور مزاروں کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔ خود طالبان کے چھ سالہ دورِ اقتدار میں کابل میوزیم میں موجود دورِ کفر کی نشانیوں کی توڑ پھوڑ اور بامیان صوبے میں گوتم بدھ کے دو دیوہیکل سنگی مجسموں کو ڈائنامائٹ سے اڑانے کے سوا صوفی مراکز یا مزارات پر حملوں کا کوئی بڑا واقعہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔
مگر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جب مقامی طالبان نے زور پکڑا اور اس سے پہلے افغان سوویت جنگ کے زمانے میں بالحضوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ان مدارس سے جو دیوبند کی علمی روایت سے غیر مطمئن ہو کر تکفیری نظرئیے کے تحت پروان چڑھے۔
ان مدارس سے فارغ التحصیل یا ان مدارس کے اساتذہ سے متاثر ہونے والے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا نے نہ صرف شدت پسند تنظیمیں تشکیل دیں بلکہ گولی کو دلیل سے بدلنے کی کوشش کی اور اس کے جواز کے لیے نظریاتی لٹریچر کی تیاری اور اشاعت کا کام شروع کیا۔ بجائے اس کے کہ ریاست یا مختلف مکاتیبِ فکر کے با اثر علما معاشرے کو جوڑنے کے بجائے منتشر کرنے کی ان کوششوں اور رجحانات کو پھیلنے سے روکنے کی بروقت فکری کوشش کرتے۔ الٹا انہوں نے یا تو خاموشی میں عافیت جانی یا پھر خود بھی نئی ہوا کے ساتھ چل پڑے۔
چنانچہ نائن الیون کے بعد پاکستان میں ریڈیکلائزیشن کا عمل جتنا تیز ہوا اور اس کے توڑ کی کوششیں جتنی فرسودہ اور سست ہوتی گئیں اس کے نتیجے میں زندہ مخالفین کے ساتھ ساتھ قبروں کے مکین بھی لپیٹ میں آتے چلے گئے۔ پہلے تحریکِ طالبان پاکستان اور القاعدہ کے ہم خیال نوجوانوں نے یہ کام شروع کیا۔ اور اب متشدد انداز میں نظریے کو حلق سے اتارنے والی جدید مشین داعش اور اس کی حلیف مقامی تنظیموں کی شکل میں متحرک ہو چکی ہے۔
پچھلے بارہ سال میں جتنے مزاروں اور درگاہوں کو نشانہ بنایا گیا ان کی تعداد گذشتہ آٹھ سو برس کی برصغیری تاریخ میں نشانہ بننے والی درگاہوں سے بھی زیادہ ہے۔ اگر بڑی درگاہوں پر ہونے والے موٹے موٹے حملے ہی گننے بیٹھیں تو بلوچستان میں جھل مگسی کے علاقے میں پیر رکھئل شاہ کی درگاہ کو انیس مارچ 2005 کو نشانہ بنایا گیا۔ اس خود کش حملے میں لگ بھگ پچاس افراد ہلاک ہوئے۔
ستائیس مئی 2007 کو اسلام آباد میں بری امام کے مزار پر خود کش حملے میں اٹھائیس جانیں گئیں۔ گیارہ اپریل 2006 کو نشتر پارک میں عید میلاد النبیؐ کے اجتماع پر حملے میں سنی تحریک اور جماعت اہلِ سنت کی تنظیمی قیادت صاف ہو گئی۔ لگ بھگ تریسٹھ ہلاکتیں ہوئیں۔ ( واضح رہے کہ اس وقت تک لال مسجد اسلام آباد آپریشن نہیں ہوا تھا جسے شدت پسندی میں پھیلاؤ کا کلیدی محرک بتایا جاتا ہے)۔
اٹھائیس دسمبر 2007 کو پشاور کے مضافات میں عبدالشکور ملنگ بابا کا مزار اڑا دیا گیا، تین مارچ دو ہزار آٹھ کو گاؤں شیخاں میں ابو سعید بابا کے چار سو برس پرانے مزار پر خود کش حملے میں دس افراد ہلاک ہوئے۔ پانچ مارچ 2009 کو پشتو ادب کے دماغ رحمان بابا کے مزار کو اڑا دیا گیا۔ اسی مہینے میں نوشہرہ میں بہادر بابا اور اپریل 2009 میں بونیر میں پیر بابا کے مزار پر حملہ ہوا۔ یکم جولائی 2010 کو لاہور میں داتا دربار پر بم حملے میں پینتیس زائرین ہلاک اور پونے دو سو زخمی ہوئے۔
سات اکتوبر 2010 کو کراچی میں عبداللہ شاہ غازی مزار پر حملے میں آٹھ ہلاکتیں اور ساٹھ زخمی ہوئے۔ اکتیس دسمبر 2015 کو شکار پور میں امام بارگاہ پر خودکش حملے میں ساٹھ سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ بارہ نومبر 2016 کو خضدار میں شاہ نورانی کی درگاہ پر خود کش حملے میں تریسٹھ افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے اور اب سیہون کی درگاہ پر حملہ۔ اس پورے عرصے میں محرم اور دیگر بیسیوں مذہبی جلوسوں اور اجتماعات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
مطلب یہ ہوا کہ اب گفتگو کا دور ختم ہوا۔ بات گالی سے شروع اور گولی پر ختم ہوگی۔ اب دلیل میں نہیں بم میں دم ہونا چاہیے۔ اگر تو مزارات اور درگاہوں کا معاملہ کفر اور اسلام اور مشرک و مومن کا ہے تو پھر تو اتنی درگاہوں پر حملوں کے بعد وہاں جانے والے بیشتر زائرین کو عقل آ جانی چاہیے تھی۔ مگر میں نے جن جن درگاہوں کا ذکر کیا وہاں تو آج بھی زندگی پوری شد و مد سے جاری و ساری ہے۔ ان درگاہوں اور مزاروں میں مدفون ہستیوں کے عمل میں کوئی تو ایسی بات ہوگی کہ لوگ اب بھی کھچے چلے جا رہے ہیں، نعرے لگا رہے ہیں، رقص کر رہے ہیں، لنگر بانٹ رہے ہیں، کھا رہے ہیں، نقد نذرانے دے رہے ہیں، قوالی پر حال کھیل رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
میں ذاتی طور پر مزار پرست نہیں مگر کسی کو اگر کسی مزار پر جا کے آنند مل رہا ہے تو مجھے کیا؟ کسی کا کوئی دکھڑا سننے والا نہیں اور وہ قبر کو اپنا دکھڑا سنا کے ہلکا ہو رہا ہے تو برا کیا ہے؟ آخر مہنگے مہنگے ماہرینِ نفسیات کے پاس بھی تو لوگ دکھڑا سنانے ہی جاتے ہیں۔ اگر میں کسی کو کھانا نہیں کھلا پا رہا اور ہزاروں بھوکوں کا ان درگاہوں پر صبح شام پیٹ بھر رہا ہے تو میں کیوں جلوں؟ اگر کوئی دھمال ڈال کر چند لمحے کے لیے اس دنیا سے کسی اور دنیا میں جانا چاہتا ہے تو میں کون ہوں اس کے قدم روکنے والا؟ جس کے صحن میں دیوانہ ناچ رہا ہے اسی کو برا نہیں لگ رہا تو میں اتنا برا کیوں مانوں گویا میرے صحن میں ناچ رہا ہو۔ یہ ہستیاں جنہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے سیکڑوں برس ہو گئے اگر آج بھی دکھ کی ماری خلقت کسی زندہ پرہیزگار عالمِ دین سے زیادہ ان قبر میں لیٹے ہوؤوں کو اپنے دکھ کا مداوا سمجھ رہی ہے تو ذرا سوچئیے کہ اس خلقت کا دکھ کتنا بڑا ہے؟
یہ ہستیاں اپنے لاکھوں کروڑوں چاہنے والوں کے لیے شائد اس لیے آج زندہ ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کسی عقیدے سے نفرت نہیں کی، کسی کے فنڈز سے کلاشنکوف خرید کر کسی کے سر پہ رکھ کے اسے مسلمان نہیں کیا۔ ان کے دستر خوان پر جو بھی آ جائے آجائے، جو بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کو کہے کہے، مسلمان ہوگیا تو سو بسم اللہ نہ بھی ہوا تو مخلوقِ خدا تو ہے اور اسی سبب احترام ِ انسانیت کا حقدار بھی۔
تعجب ہے جب لشکرِ اسلام حجاز سے نکلا اور اسپین تا ہندوستان و وسطِ ایشیا تک پھیل گیا تو کسی فاتح صحابی یا سپاہ سالار کا خیال اس جانب کیوں نہ گیا کہ راہ میں آنے والی کسی غیرِ اسلام عبادت گاہ، مجسمے یا مزار کو نہیں بچنا چاہیے۔ اگر واقعی یہ رواج شرعاً جائز ہوتا تو آج طالبان کو بدھا کا مجسمہ اڑانے کے لیے کہاں نصیب ہوتا؟ یا داعش اور اس کے علاقائی اتحادیوں کو کوئی بھی مزار یا درگاہ تباہ کرنے کے لیے کہاں سے ملتے؟ تو کیا اسلاف کا ایمان آج کے مسلمانوں کے ایمان سے کم تھا؟
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)