میں نے پاکستان کی مشہور یونیورسٹی سے انجنئیرنگ کی ڈگری حاصل کی ہے ، میرے پاس بہت سے آئیڈیاز ہیں لیکن میں لوگوں کے سامنے بات کرنے سے گھبراتا ہوں ، مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ سب میری باتوں کا مذاق اڑائیں گے میں کسی سے کھل کر اپنے دل کی بات نہیں کر سکتا ، اگر مجھ سے کوئی کسی معاملے میں مشورہ کرنا چاہے تو مجھے سمجھ نہیں آتا کہ مجھے اسے کیا کہنا چاہیے۔ مجھے کسی بڑے ریسٹورنٹ میں جانے سے شدید گھبراہٹ ہوتی ہے ، میرے دوست اگر کسی ریسٹورنٹ میں جا نے کا پروگرام بنائیں تو میں مختلف حیلوں ، بہانوں سے ٹالنا شروع کر دیتا ہوں اور کبھی اتفاقاً وہاں پہنچ بھی جاﺅں تو ریسٹورنٹ میں داخل ہوتے ہی میری ٹانگیں کپکپانے لگتی ہیں اور میں بہت زیادہ کنفیوز ہو جاتا ہوں، میں کوئی کاروبار کرنا چاہتا ہوں اور میرے پاس بہت سے آئیڈیاز بھی ہیں لیکن مجھے خدشہ ہے کہ اگر میں ناکام ہو گیا تو سارا پیسہ ڈوب جائے گا۔ یہ سب باتیں کرنے کے بعد وہ خاموش ہو گیا اور مجھ سے مشورہ مانگا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ وہ اپنی موجودہ حالت کو بہتر کرنا چاہ رہا تھا اور میں نے اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
میں نے اس سے پوچھا کہ اس کے پاس کاوبار کے جتنے بھی آئیڈیاز ہیں وہ مجھ سے ان پر بات کرے، وہ تھوڑا سا ہچکچایا او ر بڑے ہی دھیمے انداز میں اس نے تین سے چار آئیڈیاز پر بات کی، میں نے ان آئیڈیاز پر مختلف سوالات کیے جس کے اس نے خاطر خواہ جوابات دیے اس دوران اس کا لہجہ کافی پرجوش ہو چکا تھا، ہماری گفتگو کو شروع ہوئے تقریباً ایک گھنٹے سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ اس دوران اس کے دو دوست بھی آ گئے ، دوستوں نے بھی اس بات کی تائید کی کہ وہ انتہائی ذہین ہے لیکن شاید صحیح طرح سے پرفارم نہیں کر پا رہا۔
آپ کو اس طرح کے کئی لوگ اپنے ارد گرد نظر آئیں گے، ہم میں سے اکثر لوگ ان کیفیات کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ انسانی دماغ قدرت کا انتہائی حیران کن تحفہ ہے ہمارے دماغ میں اربوں اور کھربوں دماغی خلیوں کی متحرک توانائی موجود ہے، یہ دماغ ہی ہے جس کی بدولت انسان سوچ و بچار کرنے کے بعد سائنس و ٹیکنالوجی، ریسرچ، وغیرہ کے میدان میں اتنی ترقی کر چکا ہے کہ آج سے سو سال پہلے کا انسان اگر اس دنیا میں دوبارہ جنم لے تو وہ شدید حیرت میں چلا جائے گا۔ اسی دماغ کو استعمال کرتے ہوئے بل گیٹس اور وارن بفٹ آج دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار کیے جاتے ہیں، اسی دماغ کی بدولت آئن سٹائن کو ذہین ترین سائنسدان کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے، اسی دماغ نے سکندر اعظم، تیمور لنگ، چنگیز خان، ہلاکو خان، نپولین، ہٹلر کو انسانوں پر حکومت کرنے کے لیے اکسایا، اسی دماغ کو استعمال کرتے ہوئے قائد اعظم نے انتہائی ذہانت سے پاکستان کی جنگ لڑی اور اسی دماغ نے علامہ اقبال کو شاعر مشرق کا درجہ دلوایا۔
دماغ کی بدولت ہی دنیا کی تمام تر ترقی ممکن ہوئی۔ اگر کسی شخص کا دماغ صحیح طرح سے کام نہ کرے تو اسے ” پاگل ” کا درجہ دے کر پاگل خانے میں داخل کرا دیا جاتا ہے۔ اگر چہ اس شخص کو جسمانی طور پر اور کوئی بیماری نہیں ہوتی لیکن دماغ کے صحیح کام نہ کرنے کی وجہ سے وہ ایک عام انسان کے طور پر زندگی نہیں گزار سکتا۔ اور کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے دماغ بھی بالکل ٹھیک ہوتے ہیں وہ جسمانی طور پر بھی بالکل تندرست ہوتے ہیں، شخصیت میں بھی بظاہر کوئی خرابی نہیں ہوتی و ہ زندگی میں آگے بھی بڑھنا چاہتے ہیں لیکن ” مینٹل بلاکس” ان کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔ یہ مینٹل بلاکس ہمارے اپنے تخلیق شدہ ہوتے ہیں، ہم خودہی دماغ میں مختلف کاموں کے حوالے سے مختلف جواز تخلیق کر لیتے ہیں اور ہم ان مینٹل بلاکس (ذہنی رکاوٹوں) کی بدولت ترقی کی رفتار میں دوسروں سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
جواد میرے بہت اچھے دوست ہیں اور ایک معروف بین الاقوامی ادارے میں ٹرینر کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں، جواد نے بتایا کہ ٹریننگ کے دوران بہت سے ایسے لوگ آتے ہیں جو بہت کچھ کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے اپنے تخلیق شدہ مینٹل بلاکس ان کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں اور پھر ان بلاکس کو آہستہ آہستہ توڑ کر ان کو حقیقت کی طرف لایا جاتا ہے کہ جو کچھ تم کرنا چاہ رہے ہو اس کے لیے پہلے تمہیں خود کو یہ باور کرانا ہوگا کہ ” تم کر سکتے ہو”
یہ بات طے شدہ ہے کہ اگر دنیا میں آپ کو آگے بڑھنے سے کوئی روک سکتا ہے تو وہ آپ خود ہوتے ہیں، ایک کمپنی میں سینکڑوں ملازمین کام کرتے تھے، ایک روز صبح سویرے جب وہ کام پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ کمپنی کے دروازے پر ایک جہازی سائز پوسٹر چسپاں ہے جس پر جلی حروف میں کوئی عبارت درج ہے ، ملازمین نے جب وہ عبارت پڑھی تو حیران ہو کر ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے ، لکھا تھا ” وہ شخص جو اس کمپنی میں آپ کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا، گزشتہ روز اس کا انتقال ہو گیا ہے، اس کا جنازہ جمنیزیم میں رکھا ہے، لوگو ں نے یہ پڑھ کر افسوس کا اظہار کیا تاہم انہیں خیال آیا کہ آخر وہ کون تھا جو ان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا؟ یہ سوچ آتے ہی لوگوں کا رخ فوراً جمنیزیم کی طرف ہو گیا، جیسے ہی تمام ملازمین کی نظر تابوت پر پڑی تو وہ دم بخود رہ گئے، ان کی زبانیں گنگ ہو گئیں، تابو ت میں کوئی مردہ نہیں تھا بلکہ آئینہ تھا جس میں دیکھنے والے ہر شخص کو اپنا چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس آئینے کے ساتھ ہی ایک کاغذ پر لکھا تھا، آپ کی زندگی اس وقت بدلتی ہے جب آپ خود تبدیل ہوتے ہیں،
آپ یقیناً وہ شخص بن سکتے ہیں جو آپ بننا چاہتے ہیں اس کے لیے آپ کو اپنے مینٹل بلاکس توڑنا ہو ں گے، زندگی بہت مختصر عرصہ کے لیے آپ کو عطا کی گئی ہے، آپ سب سے پہلے اپنے مقاصد کا تعین کریں کہ آپ کیا کرنا چاہ رہے ہیں، آپ کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے حوصلہ، ہمت، صبر اور استقلال کی بھی اشد ضرور ت پڑے گی، کبھی بھی ماضی کی ناکامیوں کو اپنا مستقبل خراب مت کرنے دیں۔آپ کو خود پر بھی اعتماد ہونا چاہیے اس کے ساتھ ساتھ کبھی بھی منفی سوچوں کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں۔ آپ کو یہ آج ہی طے کرنا ہو گا کہ اگر آپ زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو آج ہی سے زندگی کے اہم فیصلے کرنے ہوں گے، آپ ایسے لوگوں کو دوست بنائیں جو مثبت سوچ کے حامل ہوں ،کتابوں کے ساتھ دوستی لگائیں، آپ اپنے روزانہ کے کاموں کی فہرست بنایا کریں اور رات کے وقت اس کا تجزیہ کریں کہ کون سے اہم کام ہو چکے ہیں اور کون سے باقی رہ گئے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ میں آپ کی زندگی میں کافی تبدیلی آ چکی ہو گی ۔اور یہ تبدیلی کچھ مزید عرصے بعد آ پ کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دے گی۔ مینٹل بلاکس توڑیے اور زندگی کو آسان بنائیے۔
فیس بک کمینٹ