حالانکہ قطری حکومت نے مئی کے آخر میں بتا دیا تھا کہ سرکاری خبر رساں ایجنسی کی ویب سائٹ ہیک ہوگئی ہے۔چنانچہ اس پر شایع ہونے والے مواد کا حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ ڈگری تو ڈگری ہے بھلے اصلی ہو کہ جعلی۔اسی نفسیات کے تحت ہیک شدہ ویب سائٹ پر امیرِ قطر تمیم بن حماد التہانی کے نام سے جاری ہونے والے ایک بیان پر کہ جس میں ایران اور اسرائیل کی حمایت اور سعودی علاقائی پالیسیوں پر نکتہ چینی کی گئی تھی۔اس بیان کو سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، بحرین ، مصر ، لیبیا اور یمن نے سچ جانا اور قطر کا حقہ پانی بند کرنے کا اعلان کردیا۔
تمام سفارتی و اقتصادی و مواصلاتی تعلقات منقطع ، قطری شہریوں کو دو ہفتے میں چھ ممالک سے نکل جانے کا حکم ، قطری چینل الجزیرہ کی نشریات اور ویب سائٹ چھ ممالک میں معطل۔ قطر ایرویز ان ممالک کی فضائی حدود سے نہیں گذر سکے گی اور ان ممالک کی ایرلائنز قطر میں نہیں اتر سکیں گی۔ قطر کو یمن کے خلاف سعودی قیادت والے فوجی اتحاد سے بھی نکال دیا گیا ہے حالانکہ قطری فضائیہ یمن میں ہوڑی باغیوں کے خلاف بمباری میں شریک رہی ہے۔ مصر نے اس بائیکاٹ کا یہ جواز دیا ہے کہ قطر کالعدم اخوان المسلمون کی مسلسل حمائت کر رہا ہے کہ جس کے خلاف صدر جنرل عبدالفتح السیسی کی حکومت نے اعلانِ جنگ کر رکھا ہے۔
سعودی خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کا کہنا ہے کہ قطر سعودی صوبے قطیف اور بحرین میں ایرانی حمایت یافتہ شیعہ انتہاپسندوں کو شہہ دے رہا ہے۔بحرین نے بھی یہی الزام لگایا ہے۔متحدہ عرب امارات کی جانب سے کہا گیا ہے کہ قطر اپنے میڈیا ( یعنی الجزیرہ ) کے ذریعے القاعدہ کے نظریات پھیلا رہا ہے۔اور خلیجی ممالک کو مطلوب دھشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
یمن کی حکومت کا کہنا ہے کہ قطر درپردہ ہوڑی باغیوں کی مدد کر رہا ہے ( خود یمن کی رسمی حکومت ریاض اور عدن کے درمیان معلق ہے )۔ لیبیا کی سرکار نے اگرچہ قطر سے تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا ہے مگر خود لیبیا میں کس ہفتے کس بیرونی حمایت یافتہ گروہ کی حکومت ہوتی ہے یہ معمہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔
دو ہزار چودہ میں تین خلیجی ممالک ( سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور بحرین ) نے اخوان المسلمون کی حمایت کے الزام میں قطر سے آٹھ ماہ تک سفارتی تعلقات معطل رکھے۔تاہم تازہ ترین پابندیاں زیادہ سخت اور جامع ہیں۔
دو ہفتے قبل ریاض میں جو امریکن ، عرب اسلامک سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی اس میں قطر بھی شریک تھا اور اس موقع پر امریکی صدر ٹرمپ اور امیرِ قطر کے مابین ملاقات میں قطر کو گیارہ ارب ڈالر کے امریکی ہتھیاروں کی فروخت کا معاملہ بھی آگے بڑھایا گیا۔اس دوران ایسا کوئی عندیہ نہیں ملا کہ قطر اور دیگر خلیجی ریاستوں کے مابین درونِ خانہ کیا کچھڑی پک رہی ہے۔مگر لگتا ہے کہ ٹرمپ کے دورہِ ریاض کے بعد سعودی قیادت کو طاقت کا جو ازخود نفسیاتی ٹیکہ لگا اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔اس تناظر میں قطری وزارتِ خارجہ نے تازہ پیش رفت پر شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے سعودی عرب کا نام لیے بغیر کہا کہ ان تادیبی اقدامات کا مقصد قطر کو بھی ایک طفیلی ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔
ویسے قطر یمن کی طرح کوئی انگلا کنگلا ملک نہیں بلکہ معاشی و سیاسی اثر و رسوخ کے اعتبار سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا علاقائی ہم پلہ ہے۔اگر بحرین امریکا کے آٹھویں بحری بیڑے کا ہیڈ کوارٹر ہے تو قطر امریکی سینٹرل کمان کا مشرقِ وسطی میں ہیڈ کوارٹر ہے اور العدید ائیربیس پر دس ہزار امریکی فوجی بھی تعینات ہیں۔
بنیادی جھگڑا ہے کیا ؟
قطر سعودی عرب کے برعکس فلسطینی تحریک حماس کا نظریاتی ، سیاسی و اقتصادی حامی ہے مگر اس نے اسرائیل کو بھی دوہا میں ایک کمرشل رابطہ دفتر کھولنے کی اجازت دے رکھی ہے۔قطر شام میں جن باغی گروہوں کا حامی ہے وہ سعودی و اماراتی حمایت یافتہ گروہوں کے مخالف ہیں (ایران اور روس کے برعکس تینوں خلیجی حکومتیں شامی خانہ جنگی میں نجی مخیراتی چینلوں کے ذریعے دخیل ہیں )۔
لیبیا میں بھی قطر اور امارات و سعودی حامی گروہوں کے درمیان اثر و رسوخ کی کھینچا تانی جاری ہے۔سعودی عرب ، امارات اور کویت نے مصر کے فوجی آمر جنرل سیسی کے لیے چیک بک اوپن کر رکھی ہے اور اس کے بدلے جنرل سیسی ان ممالک کے ہر طرح سے احسان مند اتحادی ہیں۔تاہم قطر جولائی دو ہزار تیرہ میں منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کی برطرفی کو ناجائز سمجھتا ہے۔
بیشتر عرب اور خلیجی ممالک میں میڈیا مکمل سرکاری کنٹرول میں ہے لیکن قطری چینل الجزیرہ عرب معیارات کے اعتبار سے خاصا آزاد اور آس پاس کے واقعات کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کا عادی ہے۔لہذا عرب آمریتوں اور بادشاہتوں کا الجزیرہ کی جانب معاندانہ رویہ باعثِ حیرت نہیں۔
قطر کی خارجہ پالیسی اپنے دیگر خلیجی بھائیوں کی نسبت قدرے آزادانہ ہے۔اس میں قطر کے موجودہ جواں سال امیر تمیم بن حماد التہانی کے تعلیمی پس منظر کا بھی دخل ہے جنہوں نے اپنے والد شیخ حماد اور ان کے دیگر خلیجی پیٹی بھائیوں کے برعکس برطانوی اور فرانسیسی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کی اور اس تعلیم نے یقیناً موجودہ امیر کے علاقائی و بین الاقوامی زاویہ نگاہ کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مثلاً اس وقت قطر واحد خلیجی عرب ریاست ہے جہاں ایک تحریری آئین نافذ ہے جس میں خواتین کے حقوق اور نمایندگی دیگر ہم پلہ خلیجی ریاستوں کی نسبت زیادہ نظر آتے ہیں۔قطر میں آرٹ ، ادب اور ادیب کی حوصلہ افزائی بھی نسبتاً زیادہ ہے۔( مرحوم بین الاقوامی شہرت یافتہ بھارتی مصور مقبول فدا حسین پر جب وطن کی مٹی تنگ ہوئی تو قطر میں ہی آخری دن بتائے )۔
قطر نے اپنا بین الاقوامی پروفائل بنانے کی بھی حالیہ برسوں میں خاصی کوشش کی ہے۔مثلاً یورپ اور امریکا میں قطری سرمایہ کاری کا گراف بہت بڑھا ہے۔قطر ایرلائنز دیگر خلیجی ایرلائنز کو سخت چیلنج دے رہی ہے۔دو ہزار بائیس میں قطر فٹ بال ورلڈ کپ منعقد کروانے کے مشن میں جٹا ہوا ہے(تاہم مزدوروں کی حالت وہی ہے جودیگر خلیجی ریاستوں میں )۔
جہاں تک قطر اور دیگر خلیجی ممالک کی علاقائی پالیسی میں فرق کا سوال ہے تو قطر واحد ملک ہے جس نے افغان طالبان کو اپنے ہاں رابطہ دفتر کھولنے کی اجازت دی ہے۔ حالانکہ جب نوے کی دہائی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی تو جن تین ممالک نے اس حکومت کو تسلیم کیا (پاکستان ، متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ) ان میں قطر شامل نہیں تھا۔مگر اصل معاملہ ایران پالیسی کا ہے۔
سعودی عرب واحد ملک ہے جس کی قطر سے زمینی سرحد ملتی ہے مگر خلیج میں قطر اور ایران ایک بہت بڑے زیرِآب گیس کے ذخیرے میں ساجھے دار ہیں۔جب کہ متحدہ عرب امارات کا ایران سے دو چھوٹے جزائر ( تمبِ اکبر و اصغر ) کی ملکیت پر جھگڑا ہے۔بحرین کی سنی بادشاہت اپنی شیعہ اکثریت کے سبب ایرانی عزائم پر کبھی اعتماد نہیں کر سکتی جب کہ سعودی عرب کی تیل سے مالامال مشرقی پٹی میں بھی یہی مسئلہ ہے۔
قطر اور ایران اخوان اور حماس کی سیاسی حمایت کرتے ہیں جب کہ دیگر خلیجی ریاستیں ان تنظیموں کو اپنا سیاسی و نظریاتی دشمن سمجھتی ہیں۔بحرین میں سعودی فوجی مداخلت کا نہ ایران حامی ہے اور نہ قطر۔قطری قیادت کا خیال ہے کہ ایران کے ساتھ معاندانہ کے بجائے غیر کشیدہ تعلقات ہی ایک عملی دو طرفہ منافع بخش حکمتِ عملی ثابت ہو سکتی ہے۔تاہم سعودی اور اماراتی خیال مختلف ہے۔
قطر ’’ عظیم اسلامی اتحاد ‘‘ میں بھی شامل ہے کہ جس میں ایران اور عراق جیسے علاقائی ممالک شامل نہیں اور جس اتحاد کی قیادت جنرل راحیل شریف کر رہے ہیں مگر اب پاکستان بھی اس اتحاد کے اصل مقاصد پر دھیرے دھیرے سوالات اٹھا رہا ہے۔پاکستان کی اچھی خاصی افرادی قوت اس وقت قطر میں برسرِ روزگار ہے۔پاکستان قطر کی مایع گیس کا ایک بڑا علاقائی خریدار ہے۔قطر اور پاکستان کے قریبی ’’ تلورانہ تعلقات ’’بھی ہیں۔نواز شریف کے جہاں سعودیوں سے اچھے تعلقات ہیں وہیں قطری شاہی خاندان سے ’’ ذاتی خطوط ’’ کی حد تک پانامائی بے تکلفی بھی پائی جاتی ہے۔
فرض کریں کل سعودی عرب اور امارات کہتے ہیں کہ یا تو قطر سے دوستی نبھا لو یا پھر ہم سے تو پاکستان جیسے ممالک کہاں کھڑے ہوں گے کہ جن کا تو روزگار ہی شیر اور شکاری کے ساتھ بیک وقت دوڑنے کے فن سے وابستہ ہے ؟ کھاؤں قطر کی چوٹ بچاؤں کدھر کی چوٹ ؟
بشکریہ (بی بی سی اردو)