کبھی کبھی اکثر لگتا ہے کہ ہم اور وہ جس آخری دہشت گرد کی تلاش میں ہیں وہ دہشت گرد ہمارے اندر ہی رہائش پذیر ہے اور اس کا نام ہے الفائدہ۔ ذرا سوچیے کہ ہمارے ان اجداد کے پاس ایک دوسرے کو غلام بنانے، کھکل کر دینے یا نسل کشی کے لیے کیا ترغیب تھی جب وہ بارٹر سسٹم سے بھی ناآشنا تھے۔ پھر بارٹر سسٹم آیا اور اس نے بے لگام خواہش کو معاشی لگام دی۔ پھر اس لگام کے استعمال کی خواہش نے ریاستی ڈھانچے کو پیدا کیا، یوں فرسودہ بارٹر سسٹم کی جگہ سکے نے لی تب یہ سوال وجود میں آیا کہ یہاں کس کا سکہ چلے گا؟
کسی کو تیل سے پہلے والا سعودی عرب یاد ہے کہ جس کے بیشتر ریاستی اخراجات حج کی سالانہ آمدنی اور برِصغیر کے مسلمان رجواڑوں اور ترک و مصری مخیرینِ کرام کے نذرانوں سے پورے ہوتے تھے؟ کسی نے 1970 سے پہلے دبئی، ابوظہبی، قطر، کویت، بحرین وغیرہ کا نام سنا تھا کہ جن کی روزی روٹی کا دارومدار سمندری موتیوں کی پیداوار پر تھا؟ مشرقِ وسطیٰ کا تصور آتے ہی سب سے پہلے دو نام ذہن میں ابھرتے تھے مکہ اور مدینہ۔ پھر ایک تیسرا نام بھی جڑ گیا۔ اسرائیل۔
میرے لڑکپن تک اسرائیل کے صرف ایک مسلمان ملک سے سفارتی تعلقات تھے اور وہ ملک ایران تھا۔ برادر عرب ممالک اور اسرائیل ایک دوسرے کے جانی دشمن سمجھے جاتے تھے۔ ان ممالک نے 25 برس میں اسرائیل سے تین جنگیں لڑیں اور شاہ فیصل نے 1973 کی آخری عرب اسرائیل جنگ کے دوران جب اسرائیل نواز مغرب کا تیل بند کیا تو فیصل راتوں رات ہر عرب اور غیر عرب مظلوم کے ہیرو بن گئے۔ جب مصر نے اسرائیل سے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ کیا تو اسے فلسطینوں کے المیے کی قیمت پر اپنا علاقہ واپس لینے کے جرم میں عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم سے برسوں باہر رہنا پڑا۔
مگر کوشش کیجیے کہ آپ اپنے لڑکپن کا عرب سیاسی جغرافیہ اپنے تک رکھیں اور آج کے 15 سالہ بچے سے شیئر نہ کریں ورنہ وہ آپ کی ذہنی صحت پر شک کرتے ہوئے سوالیہ بدتمیزی پر بھی اتر سکتا ہے۔ مثلاً یہی کہ جب ایران اسرائیل کا اتحادی تھا تب عربوں نے ایران کا حقہ پانی کیوں بند نہیں کیا؟ اور اب ایران جب اسرائیل کو دشمن نمبر ایک کہتا ہے تو عرب ممالک کو ایران سے کیوں سب سے زیادہ خطرہ ہے؟ کیا یمن، شام، عراق، حماس اور اخوان کبھی اسرائیل کے اتحادی تھے یا اب ہیں؟ مصر کو پھر سے عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس میں کیوں داخل کیا گیا؟ کیا اس نے اسرائیل سے تعلقات توڑ لیے؟ ترکی کو کبھی اسلامی کانفرنس سے کیوں نہیں نکالا گیا اس کے تو آج بھی اسرائیل سے فوجی، اقتصادی اور سفارتی تعلقات ہیں؟
پاکستان تو اسرائیل سے نفرت کرتا ہے ۔اس نے تو 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں اپنی فضائیہ بھی عربوں کو دے دی تھی۔ پچھلے 40 برس سے پاکستان سعودی عرب کا سنتری بھی ہے؟ تو پھر پاکستان اتنا بے چارہ سا کیوں ہے؟ اور اسرائیل کا سفارتی اتحادی مصر اتنا اکڑ کے کیوں چلتا ہے؟
اگر آپ کو اپنے 15 سالہ بچے، پوتی یا نواسے سے یہ سننے کا شوق ہے کہ بابا آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ میں ڈاکٹر انکل کو بلاؤں؟ تو پھر اسے ضرور بتائیے گا کہ جب صدر ایوب خان ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح پہلی بار ریاض گئے تو بادشاہ سلامت خود طیارے کی سیڑھیوں کے سامنے چشم براہ اور پورا ریاض سڑکوں پر تھا۔ تب نہ پاکستان اتنا ایٹمی تھا اور نہ سعودی اتنے دولت مند۔ تب اماراتی شیوخ موسمِ گرما سے بچنے کے لیے کراچی کو ہی جنوبی فرانس سمجھتے تھے۔
آج کے بچے کو ماضی میں گھسیٹنے کی بجائے آج ہی میں رہنے دیں۔ اپنے زمانے کی دوستیاں اور دشمنیاں اپنے سینے میں ہی رکھیے۔ پھر بھی اگر آپ بضد ہیں کہ عرب دنیا 2017 میں بھی فلسطینیوں کو اپنے جسم کا حصہ سمجھے اور اسرائیل کی علاقائی پالیسیوں کے خلاف ویسے ہی صف آرا رہے جیسے کل تھی تو ایسا تب ہی ممکن ہے جب اسرائیل یہودیت ترک کر کے مسلمان ہو جائے اور اس میں بھی شیعہ ہوجائے تو کیا کہنے۔
یہ بات ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پلے سے باندھ لی جاوے کہ بین الاقوامی تعلقات میں کسی سے کسی کے تعلق کا تعلق رنگ و نسل و برادری و عقیدے کے مشترک ہونے سے نہیں بلکہ ہم پلہ ہونے سے ہے۔ القاعدہ ختم ہو جائے گی مگر الفائدہ ہمیشہ رہے گی۔
کام پڑ جائے تو گدھا بھی باپ، نہ پڑے تو باپ بھی گدھا۔
(بشکریہ بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ