تجزیےسید مجاہد علیلکھاری

نواز شریف کا مثبت رویہ : جے آئی ٹی بھی تہذیب کے دائرے میں رہے ۔۔ سید مجاہد علی

پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کی مقرر کردہ تحقیقاتی کمیٹی نے 15 جون کو وزیر اعظم نواز شریف کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے رفقا سے مشورہ کرنے کے بعد مقررہ وقت اور دن اسلام آباد کی جوڈیشل اکیڈمی میں جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعظم کی طرف سے یہ ایک مثبت فیصلہ ہے لیکن ملک کے سیاست دانوں ، عدلیہ اور تحقیقاتی کمیٹی کے اراکین کو بھی وزیر اعظم کی طرف سے تحقیقات میں معاونت کرنے کے اس فیصلہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔ یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ نواز شریف یا ان کے خاندان پر ابھی تک کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی جے آئی ٹی یہ طے کرسکتی ہے کہ اس خاندان نے کوئی جرم کیا ہے یا نہیں۔ کمیٹی سپریم کورٹ کی طرف سے سامنے لائے گئے سوالوں کے جواب تلاش کرنے اور ان کے مطابق اپنی سفارشات عدالت کو پیش کرنے کی پابند ہے۔ اس لئے ملک کے وزیر اعظم جب تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوں تو ان پہلوؤں کو بطور خاص پیش نظر رکھنا ہوگا۔
ان باتوں کو دہرانے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جے آئی ٹی کے ارکان کے رویہ کے بارے میں جو معلومات سامنے آئی ہیں، وہ خوشگوار اور اطمینان بخش نہیں ہیں۔ وزیر اعظم کے دونوں بیٹے متعدد بار جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے ہیں حالانکہ ان کی طرف سے اس کمیٹی کے دو ارکان کی سیاسی وابستگی اور نواز شریف کے بارے میں منفی رویہ پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔ تحقیقات کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اس حوالے سے حسین نواز کی درخواست مسترد کردی تھی۔ اس کے بعد حسین نواز پانچ مرتبہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے ہیں اور متعلقہ دستاویزات بھی فراہم کی گئی ہیں۔ اسی طرح ان کے دوسرے بیٹے حسن نواز بھی دو مرتبہ پیشی بھگت چکے ہیں۔ تاہم کمیٹی میں حاضری اور پوچھ گچھ کے دوران اگر کمیٹی کے ارکان درشت اور غیر مہذب رویہ اختیار کرتے ہیں تو وہ خود اپنے کام کو رائیگاں کرنے کا سبب بنیں گے۔ اس طرح کمیٹی کی نیت اور کارکردگی پر مزید سوال اٹھائے جائیں گے اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے بھی اعترضات سامنے آئیں گے۔ یہ صورت حال ملک میں سیاسی بے چینی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کی مقرر کردہ جے آئی ٹی میں 20 اور 21 گریڈ کے افسر شامل ہیں ۔ اور وہ جن لوگوں سے پوچھ گچھ کررہے ہیں ، وہ سب بھی یا تو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں یا معاشرہ میں باعزت رتبہ کے حامل ہیں۔ اس لئے جے آئی ٹی کے ارکان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ مہذب طریقے سے بات چیت کریں گے۔ سخت سے سخت سوال بھی تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے پوچھا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر اتنے اعلیٰ عہدے پر فائز افسر اعلیٰ حیثیت رکھنے والے لوگوں سے کسی معاملہ کی تفتیش کرتے ہوئے پولیس تھانے کے اہلکاروں جیسا رویہ اختیار کریں گے تو اس سے یہ سمجھا جائے گا کہ جے آئی ٹی یا عدالت نے تحقیقات سے پہلے ہی وزیر اعظم یا ان کے خاندان کو قصور وار قرار دیا ہے۔ یا وہ ایک خاص ماحول میں محدود وقت کے لئے ملنے والے اختیارات کا ناجائز استعمال کررہے ہیں۔ اگر جے آئی ٹی کے ارکان بھی وہی کام کریں گے جس کا الزام لگا کر وزیر اعظم کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہیں تو اس سارے عمل کے بارے میں شبہات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
نیشنل بنک کے صدر سعید احمد کی درخواست سپریم کورٹ کے پاس موجود ہے جس میں تفتیش کے دوران انہوں نے دھمکیوں اور ہراساں کرنے کی بابت بتایا ہے۔ سپریم کورٹ کو بھی یہ بات واضح کرنی چاہئے کہ جے آئی ٹی کا کام تحقیقات کرنا ہے ، پہلے سے مقررہ مقاصد کے مطابق نتائیج حاصل کرنا نہیں ہے۔ ان تحقیقات کے نتیجے میں نواز شریف اور ان کا خاندان بے قصور بھی ثابت ہو سکتا ہے اور ان کی طرف سے کوئی بے قاعدگیاں بھی سامنے آسکتی ہیں۔ جے آئی ٹی کے ارکان کو صرف پیش کردہ شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کرنا ہے۔ اگر وہ گواہوں کو سنگین نتائیج کی دھمکیاں دے کر کوئی خاص قسم کے نتائیج سامنے لانے کی کوشش کریں گے تو اس سے احتساب کے اس عمل کی شفافیت متاثر ہوگی اور ملک میں مزید بے چینی اور بے یقینی پیدا ہوگی۔
اسی طرح یہ بات بھی قابل قبول نہیں ہے کہ جے آئی ٹی میں جن لوگوں کو سوالوں کے جواب دینے کے لئے بلایا جاتا ہے ، انہیں سوال جواب سے پہلے کئی کئی گھنٹے تک انتظار کروایا جاتا ہے۔ یہ ایک نہایت فرسودہ نفسیاتی ہتھکنڈہ ہے جس سے گواہوں کی عزت نفس کو مجروح کرتے ہوئے ان سے اپنے مطلب کی بات اگلوانا مقصود ہوتا ہے۔ جے آئی ٹی کے ارکان اور سپریم کورٹ کے ججوں کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ کسی ایجنڈے پر کام نہیں کررہے بلکہ ایک جرم کا سراغ لگانے کی دیانت دارانہ کوشش کررہے ہیں۔
(بشکریہ:کاروان۔۔ناروے)

فیس بک کمینٹ

متعلقہ تحریریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker