شاید آپ کو یاد ہو لگ بھگ دو برس پہلے لاہور میں ایک ماں تین معصوم بچے لے کر فٹ پاتھ پر بیٹھ گئی۔ ان بچوں کے گلے میں پڑے پلے کارڈز پر لکھا تھا ’غربت کے ہاتھوں مجبور برائے فروخت۔‘ اس کے بعد کئی شہروں میں پریس کلب یا مصروف چوک پر ہر چند روز بعد کوئی نہ کوئی مرد یا عورت اپنے بچوں کو ایسے ہی پلے کارڈز پہنا کر سڑک پر لانے لگا۔
شروع شروع میں تو میڈیا نے اس سٹوری کو کوریج بھی دی۔ کوریج بند ہوئی تو یہ بچے اور ان کے والدین بھی کہیں چلے گئے۔بہت سی بسوں ویگنوں میں ایسے کردار بھی نظر آتے تھے جو سفر شروع ہوتے ہی مسافروں کی گود میں کارڈ پھینکنے لگتے۔ ان پر ایک ہی طرح کی عبارت درج ہوتی ’میں یتیم ہوں، پانچ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ گھر والی کو ٹی بی ہے، ایک بچی معذور ہے۔ اللہ کے نام پر کچھ امداد فرما دیجیے۔‘ کارڈ کے ایک کونے پر باریک سا لکھا ہوتا ہے ’مدینہ پرنٹنگ پریس۔‘کچھ عرصے میں مسافر جب ان مجبوروں لاچاروں کو پہچاننے لگتے تو یہ کسی اور روٹ کی بس یا ویگن پکڑ لیتے۔ اب یہ کارڈ ہولڈر خاصے نایاب ہو چکے ہیں۔ایک زمانے تک ایسے بھی کردار نظر آتے رہے کہ پرات میں چھولے بھرے ہیں اور سر پر اٹھائے چلے جا رہے ہیں۔ اچانک ٹھوکر لگنے سے گر پڑے یا چلتے چلتے گر کے بے ہوش ہو گئے یا پھر یکدم مرگی کا دورہ پڑا اور سڑک پر لیٹ کر تڑپنے لگے۔ چھولے زمین پر بکھر گئے۔ پانچ دس راہ گیر جمع ہو گئے۔ کوئی پانی پلاتا، کوئی پیٹھ سہلاتا، کوئی ترس کھا کر سو دو سو تھما دیتا اور تھوڑی دیر میں چھولے والا اٹھتا اور آہستہ آہستہ چل پڑتا۔ اگلے روز کی تیاری بھی تو کرنا تھی۔
کئی عورتیں یا مرد کسی ڈاکٹر کا نسخہ، دوا کا پیکٹ یا ایکسرے شیٹ لے کر چوک میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ گزرتے لوگ ان کی مدد بھی کر دیتے ہیں مگر اگلے روز پھر یہ مریض اسی جگہ اپنا ’طبی سامان‘ اٹھائے کھڑے ہوتے ہیں۔یقیناً ان میں سے کچھ حقیقی ضرورت مند ہیں مگر لوگوں کی ہمدردی اور امداد حاصل کرنے کے یہ طریقے پیشہ ور حضرات اتنی تعداد میں نقل کرتے ہیں کہ اصل ضرورت مند نقلیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔
انسان ہی نہیں کئی ریاستیں بھی اپنے مسائل، دکھ اور محرومیاں طرح طرح سے مارکیٹ کرتی ہیں تاکہ بغیر محنت کے ان حکمران طبقات کی روزی روٹی چلتی رہے جو اپنی قوم کو معذوری کے ریڑھے پر بٹھا کے دنیا بھر میں آواز لگانا قطعاً معیوب نہیں سمجھتے۔آمدنی قرض کی شکل میں ہو کہ خیرات بس آتی رہے۔ مگر جو بھی مال آتا ہے وہ ریڑھا کھینچنے والا اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے۔ ریڑھے پر بٹھائی قوم کو دو وقت کی روٹی اور دلاسے کے سوا عموماً کچھ نہیں ملتا۔چند ممالک نے ایک اور تکنیک ایجاد کی ہے۔ وہ دھمکی کی بنیاد پر امداد، خیرات و قرض اکھٹا کرتے ہیں۔ اگر تم نے ہماری مدد نہ کی تو ہمیں دہشت گرد کھا جائیں گے اس کے بعد تمہاری باری ہے۔ پھر مت کہنا کہ بروقت وارننگ نہیں دی۔اگر تم نے ہمارا وظیفہ بند کیا تو بے روزگاری پھیلے گی اور مذہبی شدت پسند اس بے روزگار خام مال کو استعمال کرتے ہوئے اقتدار پر ووٹ یا بنا ووٹ قبضہ کر لیں گے۔ لہذا ہمیں ریاست چلاتے رہنے کے لیے پیسے بھی دو، سفارتی مدد بھی اور اسلحہ بھی۔ یہ تم ہم پر نہیں خود پر احسان کرو گے۔ خبردار جو کردار کشی کی۔اگر تم نے یونہی ہاتھ روکے رکھا تو ہماری معیشت ڈوب جائے گی اور خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اور یہ خانہ جنگی صرف ہماری چار دیواری تک ہی نہ رہے گی۔ اگر اس افراتفری سے فائدہ اٹھا کر کسی پاگل گروہ یا فرد نے ریاست کو یرغمال بنا لیا تو سوچو ہمارے ایٹمی ہتھیار کس کے ہاتھ میں ہوں گے؟اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے جلدی سے جیب ڈھیلی کرو۔ آج چار پانچ ارب ڈالر میں بھی کام چل جائے گا۔ کل کھربوں بھی خرچ کرو گے تو ہماری ریاست تحلیل ہونے کے بعد اردگرد پھیلنے والی تباہی پر قابو نہ پا سکو گے۔ کیا تم کروڑوں نئے پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھا پاؤ گے؟ ہم نے آج تک اپنی غیرت پر سمجھوتہ نہیں کیا، بس تمہارے بھلے کے لیے تمہیں آگاہ کر رہے ہیں۔مگر یہ تحکمانہ کارڈ بھی دیگر طریقوں کی طرح زیادہ دیر نہیں چلتا۔ خیراتی رفتہ رفتہ جاننے لگتے ہیں کہ واقعی ریاست ڈوب رہی ہے یا ڈوبنے کی اداکاری کر رہی ہے۔ کوئی پاگل ہی ہوگا جو اپنے ریڑھے پے بیٹھے معذور یا ریاست کو مرنے دے۔ کمینہ خود نہ ترس جائے گا۔
(بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ