مگر اب آزادی اور انفرادی و اجتماعی حقوق کے نام پر ہم جس دور میں رہ رہے ہیں وہ اپنے جوہر میں غلام سازی و غلام پسندی کا دور ہے۔ کل تک میری جواب دہی کا حق بیوی یا والدین یا عدلیہ کے پاس تھا۔ آج مجھے بطور فرد ہر ہر قدم پر قائم سوالیہ پولیس چوکیوں سے گذر کے وضاحتوں کی پل صراط کا سامنا ہے ۔ خاموشی کا حق بھی جرم بن چکا ہے۔مثلاً محض ایک دو یا تین بار یہ کہہ دینے یا لکھنے سے جاں بخشی نہیں ہو سکتی کہ میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا اور فلاں فقہ کو مانتا ہوں۔اب مجھ پر لازم ہے کہ سوشل میڈیا کے منبر پر براجمان دارلعلوم فیس بک اور جامعہ ٹویٹریہ کے فاضل ڈیجیٹل علماِ کرام کی تسلی کے لیے ہر کچھ کچھ عرصے بعد اعلان کرتا رہوں کہ میں ختمِ نبوت پر کامل ایمان رکھتا ہوں۔ ایسی کسی بھی اجنبی یا شناسا پوسٹ پر لازماً لائیک کا بٹن دباتا رہوں کہ الحمداللہ میں پکا مسلمان ہوں کیا آپ بھی ہیں؟مگر یہ سب کرنے سے بھی کام نہیں چلے گا۔اب اگر اسلامی جہوریہ پاکستان میں کوئی بھی راہ چلتا شخص، تنظیم ، گروہ یا ٹی وی اینکر آپ سے مطالبہ کرے کہ اس کے روبرو کلمہ پڑھ کے اپنے مشکوک ایمان کی تجدید کریں تو سوائے تعمیل کے کوئی راستہ نہیں۔ ہچکچاہٹ، بحث یا تاخیر کا خمیازہ مہنگا بھی پڑ سکتا ہے۔میرا کام بس اتنا ہے کہ آپ کو انڈین، یہودی یا امریکی ایجنٹ کہہ دوں۔ اب یہ ثابت کرنا میری نہیں آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ وہ نہیں جو میں کہہ رہا ہوں۔کیا کہا ؟ ہتکِ عزت کا قانون اور دعوی؟ یہاں تو عدالتیں ہی اپنی ہتک کے آگے بند نہیں باندھ پا رہیں تو آپ کی کیا سنیں گی ، سن بھی لیا تو فیصلہ کیا دیں گی ، دے بھی دیا تو عمل کیسے ہوگا۔ چلئے کوئی ایک مثال دے دیں جب پاکستان میں کسی فرد نے کسی شہری کے خلاف ہتک کا مقدمہ ہار کر ہرجانہ بھرا یا سزا بھگتی ہو۔اگر حساس ایجنسیوں کے لوگ ٹکراتے ہیں تو وہ بھی ابتدائی تعریف و توصیف کے بعد حرفِ مدعا زبان پر لے آتے ہیں ۔سر کبھی ہمارے اچھے کاموں کی بھی تعریف کر دیا کریں ، کبھی لکھتے اور بولتے وقت ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں بھی سوچ لیا کریں ، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ خدانخواستہ آپ محبِ وطن نہیں مگر پھر بھی ۔۔۔۔
بات اگر یہاں تک بھی رہتی تو کوئی بات نہ تھی۔اب تو میرے دوست بھی مجھ سے غیر جانبداری کی توقع نہیں رکھتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جو مسائل ان کے دل کے قریب ہیں بس انہی پر انہی کے لہجے میں بات کروں، جو سیاستداں ، بیوروکریٹ ، کارپوریٹ باسز ، سوشل ورکرز ان کی گڈ بک میں ہیں بس انہی کا ڈھنڈورا پیٹوں، جس مسئلے یا فرد کے بارے میں وہ تحقیقی رپورٹ کی توقع رکھتے ہیں بس اسی کے بارے میں انویسٹی گیٹ کروں اور نتائج بھی وہی اخذ کروں جو انہوں نے پہلے سے طے کر رکھے ہیں۔اب میرے دوست ہی طے کرنا چاہتے ہیں کہ مجھے کہاں جانا ہے ، کس سے ملنا ہے ، کیا بات کرنی ہے ، کس کے ساتھ تصویر کھچوانی ہے اور کسے منع کر دینا ہے ۔اور اگر میں ان کی سنی ان سنی کر کے اپنے دل اور دماغ سے کام لینا چاہوں تو پھر ایسے تبصرے سننے کو ملتے ہیں ۔وسعت صاحب آپ بھی بک گئے ، آپ کی فلاں کے ساتھ تصویر دیکھ کر صدمہ ہوا ، آخر آپ نے ایک کرپٹ وزیرِ اعلی سے کانووکیشن میں سند کیسے وصول کر لی ؟ کیا آپ نے بھی پیسے پکڑ لیے ؟ آپ فوج کے ایجنٹ کیوں بن گئے ہیں ، آپ انگریزوں سے کتنے پیسے لے رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔
اگر میں ان سب باتوں کے جواب میں خاموشی اختیار کروں تو پھر تو پکا پکا مجرم “سچا ہے تو بولتا کیوں نہیں ، کیسے جواب دے گا ؟ جواب پلے ہوتا تو دیتا ۔آیا بڑا اصول پسند اور غیر جانبدار صحافی۔ مائی فٹ “۔
اب تو سنی دیول کا یہ ڈائلاگ اکثر یاد آتا رہتا ہے ” پنجرے میں آ کر شیر بھی کتا بن جاتا ہے کاتیا۔ تو کہے تو بھونکوں ، تو کہے تو کاٹوں ۔یہ مجھ سے نہ ہوگا کاتیا”۔( فلم گھاتک )۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )