ہمارے ملک پاکستان کی طویل سیاسی تاریخ ہے، جس میں جمہوریت کبھی ترقی نہیں کرسکی کیونکہ ہم جمہوریت کا نام تو لیتے ہیں مگر اسے چلنے نہیں دیتے جس میں سب سے بڑا ہاتھ سیاسی لیڈروں کا ہے کیونکہ اگر انھیں اقتدار ملتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ حکومت کرنے والی جماعت کے خلاف دن رات عوام اور میڈیا کے ذریعے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ حکومت نااہل ہے، کرپٹ ہے اور غیر قانونی ہے اسے اقتدار چھوڑ دینا چاہیے۔
اس عمل سے پھر کوئی اور طاقت فائدہ اٹھاتی ہے اور پھر کبھی آرمی ٹیک اوور کرتی ہے اور کبھی اپنی پسند کے لوگ اقتدار میں لائے جاتے ہیں ، جب دیکھو دھرنا ہے، جب دیکھو راستے بند ہیں، ٹریفک جام ہے، سارا دن اور رات الیکٹرانک چینلز پر پروگرام چل رہے ہیں جس میں سیاسی لیڈر ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔
کئی اچھے سیاسی لوگ آئے جنھیں بھی کام نہیں کرنے دیا گیا مگر پھر بھی انھوں نے اپنی ایمانداری، جرأت اور ڈر کے بغیر عوام اور ملک کے بھلے کے لیے کام کرتے رہے مجھے بے ساختہ محمد خان جونیجو یاد آگئے، جنھیں جنرل ضیا الحق یہ سمجھ کر اقتدار میں لائے تھے کہ وہ ان کی ہاں میں ملاتے رہیں گے اور پھر وہ نام نہاد سیاسی نظام ساری عمر اپنے اشاروں پے چلاتے رہیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور محمد خان ایک دلیر سیاسی لیڈر ثابت ہوئے جنھوں نے ہر فیصلہ ملک و قوم اور جمہوریت کی بقا کے لیے دیا۔
جونیجو نے اپنی سیاسی کیریئر کا آغاز 22 سال کی عمر سے کیا جب وہ ڈسٹرکٹ بورڈ سانگھڑ سے ممبر منتخب ہوئے اور آگے چل کر بورڈ کے چیئرمین بن گئے۔ سن 1962 میں وہ مغربی پاکستان کی اسمبلی کے لیے ممبر منتخب ہوئے اور وہ ویسٹ پاکستان ریلویزکے وزیر بن گئے۔
اس وقت پاکستان کے صدر محمد ایوب خان تھے۔ بعد میں ایوب خان سے کسی بات پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ جب بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی بنائی تو وہ اس میں شامل ہوگئے مگر جلد ہی پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ جب ضیا الحق نے پیپلزپارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ملک میں مارشل لا نافذ ہوا جس کے تحت پاکستان نیشنل پارٹی بنائی گئی جس میں جونیجو منسٹر بن گئے مگر دس مہینے کے بعد وہاں سے بھی Resign کردیا۔
جب 1985 میں نان پارٹی بنیاد پر جنرل الیکشن ہوئے جس میں محمد خان جونیجو سانگھڑ ضلع سے ایم این اے منتخب ہوئے۔ جنرل ضیا الحق نے جونیجو کا انتخاب کیا اور انھیں 23 مارچ 1985 کو ملک کا وزیر اعظم بنوادیا اور دوسرے روز ہی جونیجو نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا۔
اب ضیا الحق نے یہ سمجھا کہ جونیجو ان کا ہر حکم بجا لائے گا اور اس کی دی ہوئی ہدایت پر چلے گا مگر جونیجو نے اپنی پہلی ہی تقریر میں ضیا الحق کا یہ تاثر ختم کرتے ہوئے یہ کہا کہ مارشل لا اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے لہٰذا 30 دسمبر 1985 کو مارشل لا اٹھالیا گیا اور محمد خان جونیجو نے ایمرجنسی اٹھانے کا اعلان کیا۔
اس اعلان سے ملک میں جمہوریت کے فروغ کی امید پیدا ہوئی اور عوام کے حقوق کی بحالی کے امکانات روشن ہونے لگے۔ وہ جمہوری ذہن کے آدمی تھے اور ہمیشہ حقیقت پسند رہے اور اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے اورکسی سے سودے بازی نہیں کی کیونکہ وہ اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ انسانیت کو ترجیح دی جائے اور غریب، مفلس، نادار اور ضرورت مند آدمیوں کی خدمت کرکے خوشی حاصل کی جائے۔ انھوں نے اپنی مسلم لیگ(ج) گروپ کو جمہوری راہ پر چلانے میں لگ گئے مگر اس کے ساتھ باقی سیاسی پارٹیوں کو بھی اپنے ساتھ جمہوریت کو پنپنے کے لیے تعاون کرنا شروع کیا۔ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی میں بھی جونیجو کی کاوشیں شامل تھیں۔
جونیجو نے پرنٹ میڈیا کو آزادی دینے کے لیے بھی اقدامات اٹھائے اور سرکاری میڈیا پر حکومت کی گرفت کو ہلکا رکھنے کا ارادہ کیا جو نہ ہوسکا۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کو ترقی دینے کے لیے اور اس عمل کو تیز کرنے کے لیے میڈیا بھی اپنا رول ادا کرے کیونکہ مارشل لا کے شروع والے دنوں میں تو مکمل طور پر سنسر کا کالا قانون موجود تھا جسے ایمرجنسی اٹھانے کے بعد کچھ آزادی حاصل ہوئی۔ نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے تو میڈیا کی آزادی کے حق میں آواز بھی اٹھائی تھی اور صحافیوں کے ساتھ زیادتی کی صورت میں اس کو Condemn بھی کرتے رہے۔
جونیجو ترقی پسند خیالات کے مالک تھے اور ملک کو ترقی دینے کے لیے انھوں نے پانچ نکاتی پروگرام بھی شروع کیا جس کے تحت پورے ملک کے اندر تعلیم، صحت، روڈ، راستے، نکاسی کے انتظامات، میٹھے پینے کے پانی کی ترقیاتی اسکیمیں شروع کیں اور بے گھر لوگوں کے لیے مکان بناکر بہت ہی سستے اور آسان قسطوں پہ مہیا کرنے کا پروگرام شروع کروایا۔ ملک کے بڑے اور دور دراز گاؤں میں بجلی پہنچانے کے لیے ولیج الیکٹریفکیشن پروگرام کے تحت بجلی مہیا کردی۔
اس کے علاوہ کئی اسپتالوں، اسکولوں کی عمارتیں بنوائیں اور نئی روشنی اسکول قائم کروائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک سے غیر ضروری اخراجات کو کم کیا جائے جس کے لیے سرکاری افسران کو بھی چھوٹی 8 سو سی سی کی گاڑیاں دلوائیں، دفتروں میں اے سی چلانے پر بھی بڑی حد تک پابندی لگا دی۔
جونیجو اور ضیا الحق کے درمیان اختلاف افغانستان کی پالیسی سے شروع ہوئے جو اوجھڑی کیمپ میں دھماکے پر حد سے زیادہ بڑھ گئے جب جونیجو نے اس واقعے کی تفتیش کے لیے ایک پانچ رکنی انکوائری کمیٹی کا اعلان کیا جس کے سربراہ کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عمران اللہ خان کو بنایا گیا۔
اس اعلان کے بعد ضیا الحق نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے نیشنل اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کو ختم کردیا جس کی وجہ سے ایک بار پھر جمہوریت ٹریک سے ڈی ریل ہوگئی۔ جونیجو نے صرف اس لیے اپنے آپ کو اور اپنی پوزیشن کو چیلنج اس لیے نہیں کیا کہ کہیں ضیا الحق دوبارہ مارشل لا نافذ نہ کردے اور چپ چاپ گھر چلے گئے۔
لیکن جب وہ عدالت میں گئے تو عدالت نے ضیا الحق کا آرڈر بلا جواز قرار دے دیا مگر جونیجو نے اپنی پوزیشن اس لیے نہیں حاصل کی کہ آنے والے جنرل الیکشن سر پے تھے جس کی وجہ سے ان کی حکومت بحال نہیں ہوسکی۔ جب 1988 کے الیکشن پارٹی کی بنیاد پر ہوئے تو جونیجو پی پی پی کے امیدوار شاہنواز جونیجو سے شکست کھا گئے مگر 1990 کے الیکشن میں انھوں نے پی پی کے امیدوار کو ہرا دیا جب کہ وہ پنجاب سے بھی جیت گئے تھے۔
اب جیساکہ محمد خان جونیجو کے جانے کے بعد ضیا الحق نے نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (ن) بنا دی تھی، اس لیے جب وزیر اعظم کے لیے نواز شریف کو نامزد کردیا تو جونیجو نے بھی اس کی حمایت کردی کہ ان کی صحت صحیح نہیں ہے اور وہ امریکا اپنے علاج کے لیے چلے گئے۔ کیونکہ انھیں کینسر کا مرض تھا مگر وہ دل رک جانے سے 18 مارچ 1993 کو مالک حقیقی سے جاملے ان کی موت پر پاکستان کے عوام بڑے رنجیدہ تھے کیونکہ عوام ان کی سادگی، دلیری اور اچھے کردار کی وجہ سے ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔
جونیجو 18 اگست 1932 کو سندھڑی ڈسٹرکٹ سانگھڑ میں پیدا ہوئے، ان کے والد دین محمد بھی ایک نیک انسان تھے جسے لوگ خان صاحب کہہ کر پکارتے تھے جب محمد خان بچہ ہی تھے تو اس جہان سے رخصت ہوگئے تھے اس لیے جونیجو کو اپنی ماں نے پال پوس کر بڑا کیا۔
انھوں نے اپنی شروعاتی تعلیم میر پور خاص سے حاصل کی اور مزید تعلیم کے لیے کراچی آگئے اور سینٹ پیٹرک اسکول سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ لندن چلے گئے جہاں سے انھوں نے زراعت میں اعلیٰ ڈگری حاصل کرلی کیونکہ وہ بنیادی طور پر زمیندار تھے اس لیے وہ چاہتے تھے کہ اپنی زمین خود سنبھالے۔ لندن سے سینئر کیمبرج سے ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد وہ سیاست میں حصہ لینے لگے۔
اگر ہمیں اپنے ملک سے پیار ہے تو پھر محمد خان جونیجو جیسے سیاستدانوں کو موقعہ فراہم کریں تاکہ نہ صرف ہماری معیشت مستحکم ہو بلکہ جمہوریت کو صحیح طریقے سے تقویت ملے اور عوام خوشحال ہو اور ملک ترقیاتی ملکوں کے ساتھ اپنا شانہ بہ شانہ چل سکے جو کرپشن سے پاک ہو جہاں پر انصاف اور قانون کی بالادستی ہو۔ ہمارے عوام بھی چاہتے ہیں کہ اچھے سیاستدان ملک کے سربراہ بنیں مگر پتا نہیں کیوں ہم ایسا ہونے نہیں دیتے۔
فیس بک کمینٹ