آج سے 2700 سال پہلے جب میں یونان میں تھا تو میرا فلسفیوں کے ساتھ کافی اٹھنا بیٹھنا تھا، یہ کوئی ایسی عجیب بات نہیں تھی، اُس دور میں یونان میں ہر دوسرا بندہ فلسفی تھا، حتّٰی کہ جو گوالا میرے گھر دودھ پہنچایا کرتا تھا وہ بھی اپنا ایک خاص فلسفیانہ نکتہ نظر رکھتا تھا، بھلا سا نام تھا اُس کا، ہاں یاد آیا ’دودھکریٹس ‘۔ ایک روز میں نے اُس سے پوچھا کہ کائنات کا راز کیا ہے، جواب میں اُس نے کیا کہ باؤ جی یہ میرے لیول سے ذرا اوپر کی بات ہے، بہتر ہے کہ آپ پارمینیدیس کے پاس جائیں، شاید اُس کے پاس کوئی تسلی بخش جواب ہو۔ پارمینیدیس یونان کا ایک عالی دماغ فلسفی تھا سو میں اپنا سوال لے کر اُس کے پاس پہنچ گیا، وہ اُس وقت اپنی محبوبہ کو رقعہ لکھنے میں مصروف تھا، پہلے تو اُس سے میری بات سنی ان سنی کردی، میں نے پھر اپنا سوال دہرایا کہ برادر یہ بتاؤ کہ کائنات ازل سے ہے یا کسی خاص وقت میں تخلیق کی گئی تھی؟ اُس نے ہاتھ سے یوں اشارہ کیا جیسے مکھی اڑا رہا ہو اور پھر رقعہ ختم کرکے میرے حوالے کیا اور کہا کہ میں اسے بحفاظت اُس کی محبوبہ کو دے آؤں۔ اِس فرمایش پر مجھے غصہ تو بہت آیا مگر میں پی گیا اور اصرار کیا کہ پہلے وہ مجھے میرے سوال کا جواب دے۔
پارمینیدیس نے اپنی منطق بیان کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو برخوردار اگر کوئی چیز وجود رکھتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ اسی لمحے وہ وجود نہ بھی رکھتی ہو، چنانچہ کسی شے کا وجود نہ رکھنا ناممکن ہے اور چونکہ اشیا عدم سے وجود میں نہیں آ سکتیں اِس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کائنات ہمیشہ سے وجود رکھتی تھی گویا ازل سے موجود ہے۔ یہ جواب سُن کر میرا دل کیا کہ اُس کی محبوبہ کا رقعہ جا کر سیدھا اُس عفیفہ کے ابا جان کو دے آؤں جو اُس وقت یونان میں بڑے گوشت کی دکان کرتے تھے اور جن کے بارے میں مشہور تھا کہ روزانہ رات کو اپنی چھریوں کا تکیہ بنا کر سوتے ہیں۔ میں نے پارمینیدیس سے زیادہ بحث نہیں کی کیونکہ یہ فلسفی لوگ اگر کسی بات پر اڑ جائیں تو پھر انہیں ہلانا قریباً ناممکن ہی ہوتا ہے۔ حالانکہ میں اُس سے پوچھ سکتا تھا کہ اِس منطق کی رُو سے تو تم کچھ بھی ثابت کر سکتے ہو۔ لیکن میں خاموش ہی رہا اور سلام لے کر اٹھ گیا۔
چند سال بعد میری ملاقات ڈیموکریٹس سے ہوئی، یہ نسبتاً معقول آدمی تھا، کم ازکم پارمینیدیس سے تو مجھے بہتر ہی لگا، بہت محبت سے پیش آیا، جب اسے پتا لگا کہ میں بھی یونانی کشمیری ہوں تو اٹھ کر مجھے گلے لگا لیا، آخر برادری بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ موصوف بونگ کلچوں سے میری تواضع کرنا چاہتے تھے مگر میں نے منع کر دیا کہ آج کل ڈائیٹنگ چل رہی ہے۔ اِس پر وہ قہقہہ لگا کر بولا کہ پھر تو تمہیں دیو جانس کلبی کے پاس جانا چاہیے تھا، وہ بھی کھانے پینے سمیت ہر قسم کی خرافات کے خلاف بولتا رہتا ہے۔ میں نے جواباً ہنس کر کہا کہ اُس سے ملنے کا اشتیاق تو مجھے بھی ہے مگر اُس کا کوئی مستقل ٹھکانہ ہی نہیں، کبھی کسی ڈرم میں گھس کر رات گزارتا ہے تو کبھی یونہی راہ میں پڑا رہتا ہے، کہیں خریداری کرنے بھی نہیں جاتا کہ بازار میں ہی ملاقات ہو جائے، اور اگر کہیں اتفاق سے مل جائے تو طعنے بہت دیتا ہے، نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ اُس کا مقصد لوگوں کی تذلیل کرنا ہے نا کہ انہیں اچھی زندگی کی طرف راغب کرنا۔
خیر، ڈیموکریٹس سے طویل گپ شپ رہی، اِس فلسفی کی کتابوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ محض ان کے عنوانات لکھنے کے لیے ہی چار صفحے چاہئیں۔ اس مردِعاقل نے مجھے جو بتایا اُس کا لب لباب یہ تھا کہ کہ پارمینیدیس نے جھک ماری ہے، اس نے کہا کہ مادے کو لا محدود طریقے سے تقسیم نہیں کیا جا سکتا، تمام اشیا ایک چھوٹے سے ذرے سے مل کر وجود میں آئی ہیں جنہیں ایٹم کہا جاتا ہے، اس کا لفظی مطلب ہی ’ناقابل تقسیم‘ ہے، مادے کی جو مختلف اشکال ہمیں نظر آتی ہیں وہ دراصل ایٹم کی ترتیب ہے جو مختلف شکلوں میں بدل جاتی ہے۔ ڈیموکریٹس کی بات میں وزن تھا، حیرت کی بات یہ ہے کہ 2300 سال بعد جب میری آئن سٹائن سے برلن کے نواح میں واقع اس کے گھر میں ملاقات ہوئی تو اُس وقت تک یہ سائنس دان ڈیموکریٹس کا نظریہ درست ثابت کر چکا تھا کہ ایٹم حقیقت میں وجود رکھتے ہیں۔
یونان میں اُن دنوں صرف کائنات کا راز جاننے والے فلسفی ہی نہیں تھے بلکہ وہ لوگ بھی تھے جو زندگی گزارنے کے گُر بتایا کرتے تھے، اُن میں سے ایک نام زینو تھا۔ یہ بہت چالاک شخص تھا، یہ ایسے ایسے معمے تخلیق کرتا تھا کہ بندہ چکرا کر رہ جاتا تھا۔ یہ اپنے گھر کے دالان میں شاگردوں سے خطاب کرتا تھا اور انہیں بتاتا تھا کہ زندگی میں پیش آنے والے حادثات اور آزمایشوں سے کیسے نبرد آزما ہوا جاتا ہے، اِس کی باتوں میں بہت دانش تھی، میں بھی جب ایک مرتبہ اِس سے ملا تو خاصا متاثر ہوا۔ اُس وقت وہ اپنے شاگردوں کو اپنا مشہور معمہ سمجھانے میں مصروف تھا جس کے مطابق کچھوے اور خرگوش کی اگر دوڑ لگوائی جائے تو اس دوڑ میں خرگوش کبھی کچھوے سے آگے نہیں نکل پائے گا بشرطیکہ دوڑ کے شروع میں خرگوش کچھوے سے چند میٹر پیچھے کھڑا ہو۔ اس کے شاگرد یہ معمہ سن کر چکرا گئے، میں نے دل میں سوچا کہ زینو خواہ مخواہ اِن معصوم بچوں کو الجھا کرکے خوش ہو رہا ہے، اسے علم ہی نہیں کہ دو ہزار سال بعد جب کیلکولس ایجاد ہوگا تو اِس معمے کا حل بھی نکل آئے گا۔
جس زمانے کی میں بات کر رہا ہوں اسی زمانے میں آگے پیچھے کہیں سقراط، افلاطون اور ارسطو بھی گزرے ہیں، مگر یہ بڑے لوگ تھے، ایک دو مرتبہ میری اِ ن سے ملاقات ہوئی مگر بحث کی ہمت نہیں ہوئی، اور بحث کر کے کرتا بھی کیا، اِن کی محفل میں تو یوں لگتا تھا جیسے کسی بات کی کوئی حقیقت ہی نہیں، سچائی جاننے کا کوئی طریقہ ہی نہیں، حقیقت کا پانا ممکن ہی نہیں، حقیقت تو کہیں دوسری دنیا میں ہے اور وہاں تک ہماری رسائی ہی نہیں۔ شاید سقراط اور افلاطون کی انہی باتوں سے عاجز آ کر ارسطو نے اپنا علیحدہ اسکول کھول لیا تھا، ویسے کچھ حاسدین یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ افلاطون نے اپنے اسکول کی باگ دوڑ ارسطو کے حوالے نہیں کی تھی اِس لیے دلبرداشتہ ہو کر اُس نے لائیسم کے نا م سے اپنی اکادمی کھول لی۔
ویسے ارسطو نسبتاً عملی فلسفی تھا اور افلاطون کے برعکس حقیقی دنیا میں رہنا پسند کرتا تھا۔ اسّی سال پہلے مشہور مغربی فلسفی کارل پوپر سے میں نے پوچھا تھا کہ آپ افلاطون کے اس قدر خلاف کیوں ہیں۔ وہ مرد دانا اُس وقت لندن کے ایک کیفے میں بیٹھا سٹرابری آئس کریم کھا رہا تھا، مجھے دیکھ کر اُس نے برا سا منہ بنایا کہ میں اُس کی ’عیاشی‘ میں مخل ہوا تھا لیکن بہرحال اُس نے میرے سوال کا جواب اچھا دیا۔ اُس نے کہا کہ افلاطون استبدادی اصولوں پر قائم معاشرے کو مثالی کہتا ہے، اِس شخص نے تو اپنے استاد سقراط کی لُٹیا ہی ڈبو دی، سقراط سچا جمہوریت پسند تھا مگر افلاطون کی نظر میں عام آدمی کے لیے تحقیر اور اہانت تھی اور شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ افلاطون کے اُس وقت کے یونان کے ڈکٹیٹر سے قریبی تعلقات تھے اِس لیے وہ آمروں کا حامی تھا گو کہ وہ چاہتا تھا کہ یہ ڈکٹیٹر فلسفی ہو۔
کارل پاپر سے میری ملاقات بہت مختصر رہی ورنہ میں اُس سے مزید بھی کچھ باتیں پوچھتا۔ کوئی بھی شخص جب کسی بڑے آدمی کی برائیاں کرتا ہے تو نہ جانے کیوں مجھے بہت مزا آتا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کسی دن اڑھائی ہزار سال پیچھے جا کر افلاطون سے ملاقات کروں اور اُس سے اِس تنقید کا جواب لوں۔ آج کل میری ٹائم مشین کچھ خرابی کر رہی ہے، جانا کہیں اور ہوتا ہے اور لے کہیں اور جاتی ہے، ایک خرادیئے کو دکھائی تو اُس نے بتا یا کہ اِس کی ایک گراری خراب ہے، میں نے برانڈرتھ روڈ سے بھی پتا کیا مگر انہوں نے کہا کہ ماڈل دو اڑھائی ہزار سال پرانا ہے آپ کو یہ گراری یونان سے ہی ملے گی۔ دیکھیے اب دوبارہ کب یونان جانا ہوتا ہے !
( گردو پیش کے لیے ارسال کیا گیا کالم )
فیس بک کمینٹ