بہت پرانی کہاوت ہے کہ صحت ہزار نعمت ہے یا انگریزی میں اسی بات کو یوں کہتے ہیں کہ Health is Wealth ، یہ کہاوت اتنی بار کہی اور سنی گئی ہے کہ ہمارے ہاں اب اس بات پر کوئی کان نہیں دھرتا ، دنیا بھر میں لوگ اپنی صحت کا بہت خیال رکھتے ہیں اور ان کی حکومتوں کی بھی اولین ترجیح صحت کی بہترین سہولیات عام آدمی تک آسانی سے پہنچانا ہوتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں معاملات اس کے برعکس ہیں نہ عوام کو خود اپنی صحت کی پرواہ ہے نہ حکومتی سطح پر صحت کی سہولیات کی فراہمی کے خاطر خواہ انتظامات موجود ہیں، ہمارے ہاں عمومی طور پر لوگ اپنی صحت کے معاملات سے غافل ہی نظر آتے ہیں۔ مگر ہوش تب آتا ہے جب ڈاکٹر یہ بتاتا ہے کہ آپ کو یہ بیماریاں لگ گئی ہیں اور اب زندگی اس کے ساتھ ہی گزارنا پڑے گی تو صحت کی اہمیت اور اس جملے کی افادیت سمجھ میں آتی ہے۔
ملک میں بہتر اور کار گر نظام صحت عامہ نہ ہونے کی وجہ سے وبائی امراض ہمیشہ ہی پاکستان میں اموات کا بنیادی سبب بنے رہتے ہیں۔ ان وباﺅں کے تیزی سے پھیلاﺅ کی وجوہات میں آبادی کا بے انتہا دباؤ، پر ہجوم شہری علاقے، پینے کا غیر محفوظ یا گندہ پانی، ناقص صحت و صفائی کی سہولیات، نامساعد سماجی و معاشی حالات، صحت سے متعلق عام آدمی کو معلومات کا نہ ہونا یا بہت ہی کم درجہ پر ہونا اور حفاظتی ٹیکوں ) Vaccination ( کا ناکافی یا موجود نہ ہونا بھی شامل ہے۔
پاکستان میں موجود بے شمار وبائی امراض کی موجودگی اور ان کی ہلاکت خیزی یہاں کے صحت عامہ کے نظام کی بدحالی کا منہ بولتا ثبوت ہے ، ان وباؤں میں ہپا ٹائیٹس ، ڈینگی، تب دق، ملیریا، ٹائیفائڈ ، ایڈز اور ہیضہ طویل عرصہ سے بڑی تعداد میں اموات کا سبب بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں صحت کی سہولیات کیلئے ہسپتال قانوناً تین طرح سے کام کرسکتے ہیں سرکاری ہسپتال، غیر سرکاری یا نجی ہسپتال اور فلاحی یا خیراتی اداروں کے زیر اہتمام چلنے والے ہسپتال۔ سرکاری ہسپتالوں کا حال مجموعی طور پر نہایت ہی خراب اور طریقہ کار نہایت ہی پیچیدہ ہے۔ اسے فوری توجہ اور سدھارے جانے کی ضرورت ہے، جبکہ نجی یا غیر سرکاری ہسپتالوں کے اخراجات عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں ۔ اب بچتے ہیں فلاحی اداروں یا خیراتی اداروں کے زیر انتظام چلنے والے ہسپتال، تو وہ مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں اور ان میں سے چند ایک غریب عوام کی دن رات خدمت میں مصروف ہیں اور بلا معاوضہ نہایت عمدہ اور قابل ستائش صحت کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔
صحت عامہ کی سہولیات کے میسر ہونے کے حوالے سے ایک تحقیقاتی مطالعہ کیا گیا جس کے مطابق پاکستان صحت کے کل نظام کی موجودگی اور عام آدمی کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے 195 ممالک کی فہرست میں 154 نمبر پر ہے۔ پاکستان ایک ترقی پزیر ملک ہونے کے ناطے اپنی کل آمدنی کا قریب 2فی صد صحت عامہ کی سہولیات کی فراہمی کیلئے مختص کرتا ہے جو آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے، لہذا پاکستان کو صحت عامہ کی سہولیات کی موجودگی اور فراہمی کے مکمل نظام کی تیاری اور اسے چلانے کیلئے شدید ترین مشکلات challenges کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پاکستان دنیا بھر میں بچوں کو لگائے جانے والے حفاظتی ٹیکوں کی کم ترین سطح پر ہے، جو کہ 60سی صد ہے، جس کے نتیجہ میں پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے جو ایک ہزار زندہ پیدہ ہونے والے بچوں میں 69.3 ہے جو نہایت ہی افسوسناک اور فوری توجہ کا حامل ہے۔ ساتھ ساتھ دنیا پولیو کی وباء سے چھٹکارہ حاصل کرچکی ہے مگر ہمارے ہاں پولیو اب بھی موجود ہے اور ہر سال کیسز نکل آتے ہیں جو بذات خود ایک نہایت خطرناک صورحال ہے اور بچوں کی عمر بھر کی معذوری کا سبب بھی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق قریب دو لاکھ ڈاکٹرز بھرتی کئے گئے ہیں جو آبادی کے تناسب کے اعتبار سے بہت ہی کم ہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ تر پاکستانی ڈاکٹرز صحت کے شعبہ کے ابتر حالات کی وجہ سے ملک سے باہر پریکٹس کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ یہاں کام کا دباؤ بہت زیادہ ہے اور معاوضہ بہت کم، ساتھ ساتھ مریضوں کے لواحقین کی جانب سے تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان بھی اس کا ایک سبب ہے۔ ساتھ ساتھ بہت سی خواتین ڈاکٹرز خاندانی یا دیگر مسائل کی وجہ سے پریکٹس ہی چھوڑ دیتی ہیں جو ڈاکٹرز کی تعداد میں کمی کا سبب بنتا ہے۔ ان تمام حقائق کو مد نظر رکھیں تو پائیں گے کہ 1,764 لوگوں کیلئے ایک ڈاکٹر موجود ہے جبکہ کم از کم 1,000 لوگوں کیلئے دو ڈاکٹرز کا ہونا ضروری ہے۔ کرونا کی وباء نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے اور طبی عملے کی مشکلات میں مذید اضافہ کردیا ہے اور نامناسب حفاظتی سامان کے بغیر لوگوں کی خدمت کرنے کی وجہ سے طبی عملے کا کرونا سے متاثر ہونے کا تناسب عام لوگوں سے زیادہ ہے۔
ان تمام حقائق کے تناظر میں اگر دیگر عوامل کو بھی زیر بحث لایا جائے تو معلوم ہوگا کہ شہری ہسپتالوں کی حالت پھر بھی قدرے بہتر ہے جبکہ دور دراز علاقوں اور دیہاتوں میں تو طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، ہسپتال کی عمارت ہوگی تو بستر ، دوائیاں ، ڈاکٹرز موجود نہ ہوں گے۔
لوگ کتے اور سانپ کے کاٹنے سے بنا طبی امداد کے مر رہے ہوتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مناسب ذچہ خانہ تک دستیاب نہیں بہت سی بار عورتیں اسپتال کی راہداریوں میں فرش پر بچوں کو جنم دے رہی ہوتی ہیں۔ جو پوری قوم کیلئے قابل شرمساری ہے ۔
دنیا بھر میں تعلیم و صحت حکومتوں کی اولین ترجیحات ہوتی ہیں، اور حکومتیں اپنی عوام کو بہترین سے بہترین تعلیم اور طبی سہولیات فوری اور آسانی سے فراہم کرنے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہوتے ہیں اور ہر قیمت پر تعلیم و صحت کو زندگی کا جزو لازم مان کر اپنی اولین ترجیحات میں رکھا جاتا ہے جس میں کوتاہی پر پر کسی قسم کی کوئی رو رعایت نہیں برتی جاتی ، بلکہ ہر انفرادی حادثے کو بھی بہت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے، اور اس کے ممکنہ سدباب کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے، ہمارے ہاں معاملات اس کے بالکل برعکس ہیں، یہاں عمومی طور پر معالجین کا رویہ مریضوں کے ساتھ نہایت نا مناسب اور ناروا ہوتا ہے، سہولیات کے فقدان کے ساتھ ساتھ مریض کو یہ کڑوی گولی بھی نگلنی پڑتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے ایک مضبوط اور ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دے، اور اس پر عمل کو یقینی بنایا جائے، ہسپتالوں کو مناسب فنڈنگ کی جائے اور ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ طبی عملے کے حالات کو بھی بہتر بنایا جائے تاکہ وہ دلجمعی سے اپنے فرائض ادا کرسکیں۔ ساتھ ساتھ نجی یا غیر سرکاری ہسپتالوں کا بھی دائرہ اخلاق طے کیا جانا چاہئے اور انہیں مطلق العنان ہونے اور مریضوں کی کھال کھینچنے سے روکا جانا چاہئے، بلکہ جو خیراتی و فلاحی ہسپتال اچھا کام کر رہے ہیں ان کی مدد کرتے ہوئے ان کے معیار میں اضافے کیلئے ان کی مالی و تکنیکی معاونت کی جانی چاہئے۔
غرض یہ کہ اگر ملک میں ترقی، خوشحالی اور آسودگی چاہئے تو ارباب اختیار کو صحت و تعلیم کو اپنی اولین ترجیحات میں جگہ دینا ہوگی اور نہایت ایمانداری کے ساتھ ذاتی نگرانی میں ان شعبہ جات کی ترقی و ترویج کیلئے محنت کرنا ہوگی۔ فنڈز کو چوری ہونے بچانے کا مربوط نظام وضع کرنا ہوگا، اور فنڈز کا جائز جگہ پر لگنے کو یقینی بنانا ہوگا، تب کہیں جاکر ہم ایک ذہنی و جسمانی صحت مند قوم بن کر ابھر سکیں گے۔