سکول کالج کے دنوں کا زبان زد عام سوال ہوتا تھا۔۔کیا بنو گے؟جواب ہوتا تھا ڈاکٹر بنوں گی۔۔۔گھر والوں کا ، اللہ کا ، قسمت کا ہاتھ تھا کہ بن بھی گئے۔۔۔اب عید ہو رمضان ہو شادی ہو مرگ ہو ۔۔۔احباب ہوں یا رشتے دار۔۔۔ہم سے رابطہ ز یادہ تر کسی عارضے کے لیے کسی دوا کے فوائد نقصان دریافت کرنے ، کسی اور ڈاکٹر کا جلد وقت لینے کے لیے کیا جاتا ہے ۔۔۔ ہر جگہ اور کسی بھی جگہ موقع محل اور ہمارے مزاج سے بے پرواہ ہمیں روک کر ہماری صلاحیتوں کا امتحان لیا جاتا ہے۔۔۔مگر اصل غم یہ ہے کہ دوا بتانے پر دوا مانگی بھی جاتی ہے انکار سننے پر کہا جاتا ہے آپ ڈاکٹر ہیں آپ کے پاس دوا ہونی تو چاہیے۔۔۔یا پھر یہ کہا جاتا ارے دوسرے ڈاکٹر نے بھی یہی کہا تھا۔۔۔یہ بھی کہا جاتا ہےابھی ٹائم نہیں ہے آپ دوا بتا دیں پھر میں ڈاکٹر کو بھی دکھا لوں گا۔۔
ارے آپ بیمار ہیں؟آپ تو ڈاکٹر ہیں آپ کیسے بیمار ہو سکتے؟؟ہمارے گھر میں جب کوئی بیمار ہوتا اس کی بیماری ایک اس کی اور دوسری ہماری ذمہ داری ہوتی ہے اس کی تکلیف اس سے بھی ز یادہ ہمیں محسوس ہوتی ہے۔۔اڑھائی سالہ محمد تاشفین بیمار ہوگیا۔۔۔ لگا پھول مرجھا گیا۔۔۔میری پیڈز میں ہاؤ س جاب اور گھر والوں کے حوصلے اور صبر کی وجہ سے بہت شاذ ونادر ہی کلینک لے کر جانا پڑتا ہے۔۔تاشفین کے ذہن میں اپنا بیماری کے موقع پر ہسپتال جانا نقش ہو گیا تھا۔۔ماما کی طبعیت خراب تھی میں سب اہتمام کے ساتھ ان کے سر پہ سوار تھی۔۔۔بی بی جان کی طبعیت خراب ہے ان کو آرام کرنے دو تاشفین کو ہم نے سمجھانا چاہا فورا جواب آیا بی بی طبعیت کھاب (خراب) بی بی ڈاکٹر پاس لے جاو۔۔۔۔
بھتیجے نے بھی عوام والا تیر چلایا۔۔۔۔میں نے دکھے دل سے پوچھا۔۔میں کون ہوں پھر؟؟آپ تو بووو ہو۔۔۔بووو کون ہے تاشفین؟ بووو ماں ہے ۔۔۔۔میں نے کہا تھا میں ڈاکٹر بنوں گی۔۔۔بنی۔۔۔میں ماں بھی ہوں اور جب نور ماما طہور تاشفین بووو ماں کہتے ہیں تو سب چیزوں کی خوشی کم اور سب غم ختم ہو جاتے ہیں
فیس بک کمینٹ