اگر آپ صبح و شام کام اور ز یادہ کام کر رہے ہیں اور آرام صرف اتنا سا کر رہے ہیں کہ مزید کام کر سکیں لیکن پھر بھی آپ کسی کو بھی راضی کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں تو یقیناً آپ سرکاری ہسپتال میں ریذیڈنسی کر رہے ہیں۔۔۔دل ناتواں کے اس غم بے شمار کے باوجود ہم روز نئے جذ بے سے کوئی نیا کام کرنے پہنچ جاتے ہیں اور اس کو اختتام تک پہنچانے کی دھن میں لگے رہتے ہیں اس کیفیت کو میں اور میری پیاری قابل اور ذہین دوست سدرہ ” ہم پاگل ہیں ” سے منسوب کرتے ہیں۔۔۔
ریذ يڈنسی میں صرف غم ہی نہیں مسکراہٹیں بھی ہیں جیسے رات اندھیری میں چاند چھپ بھی جاۓ تاروں کی ٹمٹماہٹیں تو ہیں۔۔۔چند روز پہلے وارڈ کے ہیڈ کا فون آیا کل ڈاکٹر خان آپ سے ملیں گے ان کو فلاں بیماری کی تشخیص کے لیے فلاں فلاں علاج کے لیے داخل کرنا ہے۔۔۔ہم نے کہا یس باس!اگلے دن ڈاکٹر کو بطور مریض ڈیل کرنے کے لیے کچھ اضافی محتاط اور تیاری کے ساتھ پہنچے۔۔۔ہاوس آفیسر نے جس مریض کو ڈاکٹر خان کہہ کر متعارف کروایا وہ اپنے بول چال اور لباس سے ڈاکٹر کے معیار پر اتر نہ پایا ہم حیران پریشان ۔۔۔ دریافت کیا تو مریض نے بتایا والدین نے اس کی پیدائش کے وقت نام ڈاکٹر خان رکھا تھا تاکہ میں ڈاکٹر بنوں ۔۔۔لیکن میں نہیں بنا۔۔۔مریض سمیت ہم چاروں ڈاکٹرز نے بھی دبا دبا قہقہہ لگایا اور پھر کچھ اپنی کچھ ان کی خفت مٹانے کو فرمایا اچھا ہوا نا کہ نہیں بنے ورنہ آج آپ کی خدمت کرنے کے لیے چار ڈاکٹر کھڑے ہیں۔۔۔ بن گئے ہوتے تو آپ بھی ہماری طرح کہیں کھڑے ہوتے ۔
ایک کم عمر مریض انتہائی تشویش ناک بے ہوشی کی حالت میں سٹریچر پر داخل کیا تھا دماغ کی جھلی اور دماغ میں ٹی بی کا شدید حملہ اس کی بے ہوشی کی وجہ بنا تھا اور پھر کئی روز کے بعد روبہ صحت ہو کر رخصت ہوا تھا۔۔۔فالو اپ کیلیے خود چل کر آیا (ماشاءاللہ) بڑی خوشی ہوئی۔۔۔خدا گواہ ہے ہمارے پیشے میں یہ وہ خوشی ہے جس کا نشہ رات کی نیند اور پیسے کی بہتات عید شب برات کے تہوار سب قربان کرنے پر آمادہ رکھتا ہے۔۔۔میں نے خوشی خوشی مریض کو کہا ماشاءاللہ ٹھیک ہو رہے ہو۔۔۔کہنے لگا ہاں جی۔۔۔میں نے معمول کا سوال پوچھا دوا باقاعدگی سے کھا رہے ہو نا؟ ٹی بی کے علاج میں ناغہ مریض کو صفر پر لے جاتا ہے۔۔فوراً جواب آیا کھا رہا ہوں تو ٹھیک ہوا ہوں نا ۔ عموماً ایسے جواب پر غصہ بھی آسکتا ہے لیکن ایسا مریض جو آپ کے سامنے موت کو پچھاڑ کر آيا ہو اسے میری طرف سے معافی ہے۔
ایک درمیانی عمر کا مریض بیماری کے بار بار حملوں کی وجہ سے پچھلے آٹھ ماہ میں تین بار داخل ہو چکا ہے وہ ہم سے گھر والوں کی طرح پیش آتا ہے۔۔۔حریم باجی آج الٹراساونڈ کروا کر تھک گیا ہوں۔۔۔آج کچھ اور نہیں کرواؤں گا۔۔کل جہاں کہیں گی چلا جاؤ ں گا۔۔۔اسے معلوم ہے روز اس کی ٹانگو ں بازو اٹھا کر معائنہ کرتے ہیں ۔۔۔اب تو وہ ہمارے کمرے میں داخل ہوتے ہی دور سے آواز دیتا ہے واجد بھائی ۔۔۔حریم باجی ۔۔۔اور ٹانگیں ہوا میں اٹھا لیتا ہے۔
دو سال قبل کی بات ہے ایک مریضہ کو عمرہ سے واپسی پر بخار ہوا جھٹکے لگے اور بے ہوش ہو گئی گردن توڑ بخار تشخیص ہوا کیونکہ ہماری ٹیکے کی شوقین لیکن ویکسین سے خار کھانے والی عوام اپنے عمرہ پیکج میں ویکسین کی قیمت تو ادا کرتے ہیں لیکن ویکسین لگوانے سے گھبراتے ہیں۔۔۔مریضہ کا علاج جاری تھا اور استاد کا راونڈ پر حکم ہوا کہ مریضہ کا MRI کروایا جاۓ۔۔۔ہم نے MRI کروانے کی تمام پیش رفت مکمل کی ہماری طرف سے مریضہ کا ہر طرح کا زیور بھی اتار کر اس کو ٹیسٹ کے لیے بھیجا گیا لیکن مشین بند ہو جاتی..ہم تین دن متواتر لگے رہے۔۔۔۔۔مریضہ کے کانوں کا سر کا معائنہ کیا کہ شاید کوئی پن چھپی ہو۔۔۔ مریضہ کا کوئی آپریشن ہوا ہو کوئی راڈ ڈلا ہو۔۔اگلے راونڈ پر استاد نے کہا لاؤ MRI دکھاو۔۔ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا سر سمجھ نہیں آرہا مریضہ نے نہ کوئی زیور پہنا ہے نہ کوئی metallic implant ہے مشین بند ہو جاتی ہے۔۔۔سر نے لواحقین کو مخاطب کیا ” مریضہ کو زندگی میں کبھی گولی لگی ہے؟ ” جواب ملا ہاں جی اور ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا گولی نقصان نہیں پہنچا رہی اس لیے نکالی نہیں ۔۔۔سر نے ہمیں ناراضی سے دیکھا اور ہم نے لواحقین کو افسوس سے۔۔۔۔۔بتایا کیوں نہیں؟؟ باجی آپ نے گولی کا پوچھا ہی نہیں۔
فیس بک کمینٹ