تالیوں سے سارا اسٹیڈیم گونج رہا تھا، نورین نے نیشنل کراٹے چیمپئن شپ جیت لی تھی، وہ پوری چیمپئن شپ کے دوران ناقابل تسخیر رہی تھی اور ایک نیشنل اسٹار بن کر سامنے آئی تھی۔ یہ پہلا موقع نہ تھا کہ حاضرین نے نورین کی کامیابی پر جی بھر کر جشن منایا ہو، وہ ایک نہایت ہر دل عزیز ایتھلیٹ تھی، مقرر تھی، شاعرہ تھی، کالج کی تو جیسے جان تھی، گویا پورا کالج اس پر فدا تھا، یہی عالم گھر اور خاندان کا تھا، وہ جیسی دیکھنے میں سرو قامت و خوبصورت تھی ویسا ہی نرم و احساس مند اس کا دل تھا۔ نورین چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے والد کی سب سے زیادہ لاڈلی تھی ، اس کے والد شہر کے مشہور بزنس مین تھے اور نہایت ہی علم دوست انسان تھے لہذا سماجی و ثقافتی حلقوں میں بھی بہت مشہور تھے، شہر کی کوئی بھی سماجی محفل ، ثقافتی تقریب یا عوامی بہبود کی مہم ان کے بغیر نامکمل تصور کی جاتی تھی۔ وہ جس تقریب میں بھی جاتے نورین ضرور ان کے ساتھ ہوتی تھی۔
نورین کی بڑی بہن کی شادی ایک نہایت ہی متمول و مہذب گھرانے میں ہوئی تھی، وہ اکثر ان کے گھر ملنے جایا کرتی تھی، ان کے بالکل سامنے والی بڑی سی کوٹھی میں ایک بڑا خاندان آباد تھا، جن کے بہت سے لڑکے لڑکیاں تھیں۔ نورین کی دوستی ان کی ایک لڑکی شبانہ سے بہت گہری ہو گئی تھی نورین جب بھی اپنی بڑی بہن سے ملنے جاتی تو شبانہ کے ساتھ کچھ وقت ضرور گزارتی، شبانہ کا بھائی اشرف نورین میں خاص دلچسپی لیتا تھا، وہ اکثر ان دونوں کے لئے بازار سے کچھ نہ کچھ لے آتا تھا، کبھی آئسکریم تو کبھی برگر کبھی پاپ کورن مگر دونوں میں بے تکلفی بالکل نہ تھی، یہ بات شبانہ بھی جانتی تھی کہ بھائی نورین کو پسند کرتے ہیں ، اشرف ایک شرمیلا خوبرو نوجوان تھا جو میڈیکل کے فائنل ایئر میں تھا، وہ ایک نہایت ہی عمدہ طالب علم تھا اور اپنی یونیورسٹی کے ہونہار طالب علموں میں گنا جاتا تھا۔
ٓآج نورین پھر اپنی بہن کے گھر آئی ہوئی تھی، وہ کہنے لگی باجی میں شبانہ سے مل کر آتی ہوں، اس کی بہن نے کہا ٹھیک ہے مگر جلدی آجانا، نورین ہنستی ہوئی کمرے سے نکل گئی ، اس نے سامنے والے گھر کی ڈور بیل بجائی کچھ دیر بعد اشفاق نے دروازہ کھولا اور ہمیشہ کی طرح اسے اندر آنے کو کہا، نورین جب گھر میں داخل ہوگئی تو اشفاق نے پیچھے سے دروازہ بند کرتے ہوئے اسے بتایا کہ شبانہ تو گھر پر نہیں ہے، نورین کو بہت غصہ آیا وہ ناگواری سے بولی کہ جب وہ گھر پر نہیں ہے تو مجھے اندر کیوں بلایا اور دروازہ بھی بند کر دیا؟ تو اشفاق بولا کہ دراصل مجھے تم سے کچھ بات کرنا ہے۔ نورین ایک دم سٹپٹا گئی، اور بولی کہ یہ کیا بدتمیزی ہے، ہٹو سامنے سے مگر اشفاق میں جانے کہاں سے اتنی ہمت آگئی تھی کہ وہ جم کر کھڑا رہا اور بولا کہ میں تمہیں تب تک نہیں جانے دوں گا جب تک تم میری بات نہیں سن لیتی۔ آخر نورین نے اس سے کہا بولو کیا بات ہے۔ تو وہ فورا ہی شروع ہوگیا، نورین میں تمہیں پسند کرتا ہوں اور تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں، دیکھو اب میں ڈاکٹر بن گیا ہوں اور میرے والدین جلد ہی میری شادی کردیں گے، میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں، میں اتنا چاہتا ہوں کہ جب میرے گھر والے تمہارا رشتہ مانگیں تو تم انکار نہ کردینا، نورین ہکا بکا اس کا منہ دیکھ رہی تھی، یکایک اسے جھٹکا لگا اس نے نہایت بے رخی سے کہا کہ ہٹو میرے سامنے سے نہیں تو ہڈی پسلی ایک کردوں گی جانتے نہیں میں کراٹے کی نیشنل چیمپئن ہوں، اشفاق زور سے ہنسا اور بولا کہ اپنے ایسے سارے شوق شادی کے بعد پورے کرلینا۔ نورین تیزی سے آگے بڑھی اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئی، اشفاق دروازے پر کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا، نورین نے گھر میں داخل ہونے سے پہلے مڑ کر دیکھا تو وہ دروازے میں کھڑا مسکرا رہا تھا۔
زندگی میں پہلے بار نورین کو ایک بہت ہی عجیب سی کیفیت کا تجربہ ہو رہا تھا۔ وہ ہزاروں لوگوں کے سامنے حریف کو کک مارنے میں تکلف نہیں کرتی تھی مگر آج اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ خود ہی ناک آؤٹ ہوگئی ہو۔ ایک بہت ہی انوکھے سے احساس نے دل کو جکڑ لیا تھا وہ چاہ کر بھی اشفاق کے لفظوں کی بازگشت سے جان نہیں چھڑا پا رہی تھی۔ وہ گم سم سی جا کر باجی کے گھر بیٹھ گئی باجی نے بھی کچھ ہی دیر میں محسوس کرلیا کہ معاملہ کچھ گڑ بڑ ہے کیونکہ ایک منٹ چپ نہ رہنے والی مینا بالکل خاموش بیٹھی تھی ، یہ کیسے ممکن تھا؟ باجی نے پوچھا بھئی کیا بات ہے کیا شبانہ سے لڑائی ہو گئی ہے جو یوں گم سم بیٹھی ہو؟ اس نے بڑی بے دلی سے جواب دیا، کچھ نہیں ہوا، شبانہ تو گھر پر ہے ہی نہیں۔ اس بار نورین باجی کے گھر رکنے کے بجائے بھائی کے ساتھ ہی لوٹ گئی مگر وہ مسلسل سوچ میں تھی کہ یہ کیا ہوگیا، ایک دن اچانک دوپہر کے وقت اس کے فون کی گھنٹی بجی نمبر انجان تھا، اس نے نہیں اٹھایا تو ایک میسج آگیا کہ میں اشفاق ہوں، پلیز میری کال رسیو کرلو۔ نورین نے اگلی بار اس کی کال سن لی، وہ کہنے لگا کہ کیا بات ہے ، آپ کو میری بات بری لگی ہے؟ تو میں معذرت چاہتا ہوں آپ ہمیشہ باجی کے گھر رکتی تھیں اس بار آپ واپس چلی گئیں تو مجھے لگا کہ کچھ گڑبڑ ہے، بتائیں کیا آپ کو برا لگا تھا؟ نورین جو بالکل خاموش تھی بولی کہ میں فی الحال آپ سے بات کرنا نہیں چاہتی، لہذا ابھی آپ مجھے تنگ نہ کریں، تو دوسری جانب سے اشفاق نے کہا کہ نورین یہ یاد رکھئے گا کہ میں آپ کو اپنی زندگی سے زیادہ چاہتا ہوں اور آپ کے بغیر رہ نہ سکوں گا، آپ جو بھی فیصلہ کریں یہ سوچ کر کیجئے گا۔
اب نورین کے مزید پریشان ہونے کی باری تھی، اس نے تو کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی اس طرح اظہار محبت کرے گا۔ وہ بڑی الجھن میں مبتلا ہوگئی تھی اور پریشان رہنے لگی تھی، پھر ایک دن اس نے اپنی سہیلی طاہرہ سے اپنی پوری الجھن کہہ دی، وہ ہنسی اور کہنے لگی کہ پگلی اس میں پریشانی کی تو کوئی بات نہیں بلکہ تمہیں تو خوش ہونا چاہئے کہ کوئی واقعی تم کو چاہتا ہے کہ شادی کی بات کر رہا ہے ورنہ تو لوگ پہلے کورٹ شپ کرتے ہیں اور سارے مراحل طے کرنے کے بعد یہ کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ یار ہمارے مزاج نہیں ملتے ایسی صورت میں نقصان صرف لڑکی کا ہوتا ہے۔ میں اشفاق بھائی کو جانتی ہوں وہ ایک نہایت ہی سلیس قسم کے شریف انسان ہیں، تم ان کی بات کے بارے میں سنجیدگی سے سوچو، وہ اعلی تعلیم یافتہ ہیں، خوبرو ہیں، تمیز دار ہیں، اور اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے ہیں، اب اور کیا چاہئے کسی لڑکی کو، میرے حساب سے تو یہ ایک آئیڈیل پروپوزل ہے جو ہاتھ سے جانا نہیں چاہئے۔ نورین اس وقت تو طاہرہ کا مذاق اڑاتی رہی مگر جب تنہائی ملی تو وہ آہستہ آہستہ اشفاق کے خیالوں میں ڈوبتی چلی گئی، پہلی بار اسے سکون بھی ملا اور اشفاق اچھا بھی لگا۔ اشفاق کو موسیقی بہت پسند تھی وہ خود بھی بہت اچھا گاتا تھا، اس نے اپنے جیب خرچ سے ایک نہایت ہی عمدہ اور قیمتی ساﺅنڈ سسٹم خریدا ہوا تھا جس پر وہ خوب تیز آواز میں گانے سنتا تھا، اب یہ معمول تھا کہ نورین جب بھی شبانہ سے ملنے جاتی اشفاق ایک مخصوص فلمی گانا لگا دیتا جو بار بار بجتا رہتا ، نورین خوب جانتی تھی کہ وہ خاص اس ہی کیلئے بج رہا ہے، جس کے الفاظ تھے ، تمہارا پیار چاہئے مجھے جینے کیلئے۔ آہستہ آہستہ برف پگھلتی گئی اور دونوں ایک دوسرے کے قریب آنے لگے باتیں ہونے لگیں، تحائف کا تبادلہ ہونے لگا شاعری اور کتابوں پر بحث ہونے لگی، اشفاق نے ایک بڑا ہسپتال بھی جوائن کرلیا تھا ، موقع مناسب جان کر اس نے اپنی والدہ سے اپنی خواہش کا اظہار کیا جسے بغیر کسی حیل و حجت منظور کرلیا گیا، پہلے نورین کی باجی سے بات کرکے راہ ہموار کی گئی پھر باقاعدہ وہ لوگ رشتہ لے کر نورین کے گھر آگئے، جو نورین کے گھر والوں نے قبول کرلیا کہ اس کے گھر والے اشفاق کے گھر والوں سے پہلے ہی متعارف تھے۔ چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کے مصداق سال کے اندر ہی شادی ہوگئی اور نورین پیا گھر سدھار گئیں۔ دن بہت اچھے گزر رہے تھے، پیار تھا دلا ر تھا فرصت تھی اور آسائش تھی، کچھ مہینے گزرے حالات تبدیل ہونے لگے، ذمہ داریوں نے فرصت کی جگہ لینا شروع کردی، ہوتے ہوتے بس مصروفیت ہی رہ گئی باقی زندگی کی تمام رونقیں اور خوشیاں جیسے کہیں گم ہوگئی تھیں یا بہت دور بھاگ گئی تھیں۔ مگر نورین اشفاق کی محبت میں یہ کڑی مشقت جھیل رہی تھی اور کبھی شکایت بھی نہ کرتی تھی، دراصل اشفاق میں کوئی خامی نہ تھی بلکہ گھر میں موجود اس کے پاگل چچا اور پاگل بھائی تھا۔
جن کی خدمت نورین کے ذمہ تھی، نورین کے اپنے چھوٹے چھوٹے بچے تھے ساتھ ساتھ ان پاگلوں کو سنبھالنا وہ تھکن سے دوہری ہو ہو جاتی تھی مگر کوئی رحم کوئی انسانیت نہ تھی اشفاق عموما ڈیوٹی پر ہوتے تھے وہ دبے دبے لفظوں میں کہتی تو وہ ہنس کر ٹال دیا کرتے تھے، اب حالت یہ تھی کہ نورین کو پیٹ بھر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا اور پاگل مسٹنڈوں کی بیگار الگ، وہ بالکل گھن چکر ہوکر رہ گئی تھی طبیعت سے شوخی بالکل ختم ہوکر جھنجھلاہٹ و اکتاہٹ نے جگہ لے لی تھی۔ وہ اکثر بچوں کو بے طرح کوٹ کر رکھ دیتی تھی پھر بعد میں روتی تھی کہ یہ کیا کیا۔ ان ہی تکالیف کے ساتھ زندگی کے پندرہ سال گزر گئے نورین صبر کرتے کرتے تنگ آگئی تھی بچے بڑے ہو رہے تھے انہیں توجہ کی شدید ضرورت تھی والد گھر داری سے بالکل ہی پرے تھے اور اپنی والدہ کی نورین کے ساتھ زیادتیوں کو بالکل خاطر میں نہ لاتے تھے جس کی وجہ سے نورین اور اشفاق کے درمیان بھی ایک خلیج حائل ہوگئی تھی، نورین یہ سمجھتی تھی کہ اشفاق بلاوجہ اپنی والدہ کی حمایت کرتا ہے اور ان کی تمام غلط باتوں کی ناجائز حمایت کرکے ناانصافی کرتا ہے۔ جبکہ اشفاق یہ سمجھتا تھا کہ معاملہ اتنا گمبھیر نہیں جتنا نورین نے بنا لیا ہے، دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے، جبکہ نورین اپنی بات پر حق بجانب تھی کہ اسے انتہائی سخت مشقت کرتے ہوئے پندرہ سال گزر چکے تھے اس دوران اس نے شاید ہی کسی خوشی کا منہ دیکھا ہو۔ وہ بہت بری طرح زچ اور چڑچڑی ہوگئی تھی۔ ساس کے مسلسل طعنے تشنوں نے اسے ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا تھا۔ اور اشفاق بھی کچھ زیادہ ہی لا تعلق ہو گئے تھے، وہ اکثر کسی لیڈی ڈاکٹر سے دیر دیر تک باتیں کیا کرتے تھے، شبہ یہ بھی تھا کہ انہوں نے اس کے ساتھ نکاح بھی کر رکھا تھا۔ آخر ایک دن یہ بم پھٹ ہی گیا، نورین نے اشفاق سے کہا کہ کل آپ کی چھٹی ہے اور مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنا ہے، اشفاق نے کچھ کچھ سمجھتے ہوئے کہا کہ بھئی ایک دن کی چھٹی ملتی ہے میں بالکل کسی جھگڑے میں پڑنے کے موڈ میں نہیں ہوں، مجھے آرام کرنا ہے، نورین نے کہا کہ آپ اس طرح اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل نہیں کرسکتے، میں اور بچے آپ کی ذمہ داری ہیں، ہمارا خیال رکھنا آپ پر لازم ہے۔
یہ سن کر اشفاق بھی بھڑک اٹھا بولا کہ کیا پریشانی ہے تمہیں، کیوں میرا دماغ خراب کر رہی ہو، ہر آسائش اور آرام موجود ہے گھر میں مگر تم پھر بھی مجھے تنگ کرتی رہتی ہو، نورین نے کہا کہ بے شک آسائش اور آرام موجود ہیں اس گھر میں مگر وہ میرے لئے نہیں ہیں، میں تو سارا دن آپ کے پاگل بھائی اور چچا کی خدمت کر کر کے ہلکان ہوتی رہتی ہوں مجھے تو ٹھیک سے دو وقت کا کھانا تک نصیب نہیں ہوتا۔ یہ سن کر اشفاق سخت طیش میں آگیا، بولا تو ٹھیک ہے پھر جہاں تمہارا دل چاہے رہو، میں تمہاری مز ید لن ترانیاں سننے والا نہیں۔
نورین کے تو پیروں سے زمین نکل گئی اس نے کہا کہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، آپ میرے بغیر رہ لیں گے، تو اشفاق نے نہایت ناگواری سے کہا کہ ہاں ہاں رہ لوں گا، بلکہ بہت سکون سے رہ لوں گا۔
اتنا تلخ اور روکھا جواب سن کر نورین پہلے تو رونے لگی پھر اس نے اپنی اور بچوں کی پیکنگ شروع کردی یہ دیکھ کر اشفاق نے پوچھا کہ تم یہ کیا کر رہی ہو، تو نورین نے کہا کہ جو آپ نے کہا وہی، میں اپنے میکے جا رہی ہوں، تو اشفاق بولا کہ ٹھیک ہے مگر تم بچے نہیں لے جاسکتیں، تم صرف اپنی پیکنگ کرو۔ میں تمہیں خود تمہارے والدین کے گھر چھوڑ کر آؤں گا۔
نورین والدین کے گھر پہنچ گئی والد ین میں سے اب کوئی بھی حیات نہ تھا، بھائی تھے جو ہرممکن دلجوئی کی کوشش کررہے تھے، مگر نورین جانتی تھی کہ اشفاق اب لوٹنے والا نہیں، کچھ ہی دنوں میں اشفاق اپنی نئی دلہن کو گھر لے آیا یہ بات نورین کی بڑی بیٹی نے فون کر کے روتے ہوئے بتائی ، جسے سن کر نورین کے پیروں تلے زمین نکل گئی جو ملنے کی ایک ہلکی سی امید تھی وہ بھی جاتی رہی۔ نورین گم سم بیٹھی سوچا کرتی کہ کیا یہ وہی اشفاق ہے جو کہتا تھا کہ اگر تم مجھے نہ ملیں تو میں جان دے دوں گا۔
فیس بک کمینٹ