1960 کی دہائی سے اور بہ طور خاص جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت سے پاکستانی خواتین اپنے حقوق کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ روز بہ روز ایسی خواتین اور مردوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جو سیاسی معاشرتی اور دینی معاملات کو عقل کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان مسائل پر اردو، انگریزی اور سندھی میں متعدد کتابیں سامنے آئی ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی ہمارے ایک خرد دوست اور روشن خیال تاریخ داں ہیں۔
انھوں نے عورتوں کی تاریخ اور ان کے حقوق کے بارے میں کئی کتابیں لکھی ہیں۔ وہ پابندی سے ایک سہ ماہی مجلہ ’تاریخ‘ نکالتے ہیں۔ ’تاریخ‘ کا شمارہ 41 انھوں نے ’تاریخ اور عورت‘ کے عنوان سے مرتب کیا جسے ’تھاپ پبلیکیشنز‘ لاہور نے شائع کیا۔ یہ مضامین کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس کا مطالعہ ہر صاحبِ انصاف پر ضروری ہے۔ ’تاریخ اور عورت‘ کے عنوان سے ڈاکٹر صاحب نے مارچ 2010 میں ایک کانفرنس منعقد کی۔ اس کا افتتاح کرتے ہوئے ڈاکٹر مبارک کا کہنا تھا کہ ہم نے اس موضوع کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ ہماری تاریخ نویسی میں عورتیں اب تک پوری طرح ابھر کر نہیں آئی ہیں۔
موجودہ دور میں تاریخ کے دو اہم پہلو ابھر کر آئے ہیں، ان میں سے ایک ماحولیات کی تاریخ ہے اور دوسری عورتوں کی تاریخ ہے۔ تاریخ نویسی پر مردانہ تسلط کی وجہ سے عورتوں کے کردار اور تاریخ میں ان کی شمولیت کو نظر انداز کردیا گیا تھا۔ موجودہ زمانے میں جمہوری روایات و اقدار نے جہاں سماج کے دوسرے عناصر کو اہمیت دی، وہیں عورتوں کے بارے میں نظریات بدلنا شروع ہوئے۔ اب تک عورتوں کو تاریخ کے حاشیہ پر لکھا جاتا تھا، مگر نئی تحقیق میں آثار قدیمہ اور دستاویزات کی مدد سے اب عورتوں کی جو تاریخ تشکیل دی گئی ہے اس میں ان کا حصہ کسی بھی طرح مردوں سے کم نہیں ہے۔
عورت اور بہ طور خاص مسلمان عورت تاریخ کے صفحوں سے جس طرح غائب کی گئی، اس کی مثال شاید مشکل سے ملے۔ ’تاریخ اور عورت‘ کے صفحوں پر مسلم دنیا کی نامور دانشور، محقق اور مورخ فاطمہ مرنیسی کی کتابوں کی ہمیں تفصیل نظر آتی ہے جو انور شاہین نے بیان کی ہے۔ اس طویل مضمون میں سب سے دلچسپ وہ حصہ ہے جو فاطمہ مرنیسی مسلم تاریخ میں حکمران عورتوں کو تلاش کرنے نکلیں۔ انھیں مسلم دنیا کی پہلی وزیراعظم خاتون محترمہ بے نظیر بھٹو سے بہت دلچسپی تھی۔
ان ہی کے دور میں وہ پاکستان آئیں اور پھر انھوں نے 622 سے 1989 تک ان حکمران یا ریاست کی نگہبان عورتوں کا سراغ لگانے کا نہایت مشکل کام کیا جن کا بہ ظاہر تاریخ میں کوئی خاص ذکر نہیں ملتا۔ اس بارے میں وہ لکھتی ہیں کہ: ’’آپ یقین کریں یا نہ کریں۔ مجھے تلاش میں دور نہیں جانا پڑا جیسا کہ پریوں کی کہانیوں میں ہوتا ہے۔ متعدد کوئین، ملکائیں اور خاتون پرانی کتابوں کے زرد صفحوں کی ہلکی سی کسک کے ساتھ تھوڑا تھوڑا کر کے نمودار ہونے لگیں۔ ایک ایک کرکے وہ لائبریریوں کے خاموش کمروں میں چہل قدمی کرنے لگیں، ان کے ہمراہ سازشوں اور لاینحل معموں کا ہجوم تھا۔
کبھی وہ اکٹھے دو یا تین نمودار ہوتیں جب ایشیائی اسلام کے دور افتادہ جزائر میں ماں اپنی بیٹی کو تخت سونپ رہی ہوتی۔ ان کے نام ملکہ اروا، عالم الحرا، سلطانہ رضیہ، شجرۃ الدر، ترکان خاتون تھے یا پھر زیادہ باحیا انداز میں وہ ’تاج العالم‘ اور نور العالم‘ جیسے ناموں سے پکاری جاتی تھیں۔ کچھ کو عنان حکومت وراثت میں ملتی، دوسری اقتدار پر قبضے کے لیے اس کے وارثوں کو قتل کروادیتی تھیں۔ کچھ کو اپنے قابل وزیروں پر اعتماد بھی ہوتا تھا اور کچھ دوسری محض اپنی ذات پر بھروسہ کرتی تھیں۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنا انداز تھا رعایا سے برتاؤ کا، انصاف مہیا کرنے کا اور ٹیکس کے انتظام کا۔ کچھ لمبے عرصے تک تخت پر بیٹھنے میں کامیاب ہوسکیں جب کہ کچھ اور تھیں جنھیں قدم جمانے کی بھی مہلت نہ مل سکی۔ کچھ تو راسخ العقیدہ خلفا، امیوں یا عباسیوں کے سے انداز میں مریں، یعنی ان کو زہر دے کر یا خنجر گھونپ کر مارا گیا۔ بہت کم ایسی تھیں کہ جنھیں آرام سے اپنے بستر میں موت نصیب ہوئی‘‘۔
مرنیسی کی یہ کتاب جو The Forgotton Queens of Islam کے عنوان سے سامنے آئی۔ اپنی اس کتاب میں انھوں نے بے نظیر کی حکومت پر اٹھنے والے تمام اعتراضات رد کیے ہیں جو پاکستان کا انتہا پسند طبقہ اٹھا رہا تھا اور ان کی حکمرانی کو غیر اسلامی یا قرار دے رہا تھا۔ یہ بات میرے لیے اعزاز کی ہے کہ ان کی کتاب Seherzad goes West میں نے اردو میں ترجمہ کی اور ’شہرزاد مغرب میں‘ کے عنوان سے مشعل لاہور نے شایع کی۔ الف لیلہ کی بے مثال ہیروئن شہرزاد کے حوالے سے انھوں نے یہ کمال کتاب لکھی تھی۔
اس مجلے میں ہمارے مشہور دانشور، محقق اور سماجی سائنس دان حمزہ علوی کا ایک مقالہ بھی شامل ہے جسے ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے ترجمہ کیا تھا۔ اس کا عنوان تھا ’’پاکستانی عورت: ایک بدلتے ہوئے سماج میں‘‘۔ اس مقالے میں بہ طور خاص جنرل ضیا کے عورتوں کے خلاف بنائے ہوئے قوانین کا احاطہ کیا گیا تھا۔ اس میں سید سبط حسن کا وہ ترجمہ بھی شامل ہے جو انھوں نے امریکا کی انقلابی رہنما اینجلا ڈیوس کی خود نوشت کا کیا تھا۔ امرتا پریتم کے انٹرویو اور واجد علی شاہ اختر کی خود نوشت ’پری خانہ‘ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ’پری خانہ‘ اس حرم سرا کا قصہ ہے جو واجد علی شاہ نے حسین اور بعض حالات میں ذہین عورتوں کے وجود سے آراستہ کیا ہے۔
یہ ایک فارسی مخطوطہ تھا جسے جناب تحسین سروری نے ترجمہ کیا اور جس سے ہمیں اس عہد کے نوابانہ ٹھاٹ اور واجد علی شاہ کی امورِ سلطنت سے بے رغبتی کا علم ہوتا ہے۔ یہ بات بھی نگاہوں کے سامنے آتی ہے کہ ایک خاتون جو اس بازار سے تعلق رکھتی تھیں، وہ جب واجد علی شاہ کی زندگی میں شریک ہوئیں تو انھوں نے 1856 میں کس درجے کی قوم پرستی کا ثبوت دیا۔ کمپنی کی فوجوں سے آخر دم تک لڑتی رہیں اور پھر نیپال کے جنگلوں میں ایک سورما کی طرح جان دی۔ اودھ کی حضرت محل ہوں یا اور دوسری بہت سی عورتیں، وہ مزاحمت اور انقلابی خیالات کی تصویر ہیں۔ پاکستان میں سیاسی جبر و استبداد کا مقابلہ کرنے والی عورتوں کی ایک کہکشاں ہے جس سے حوصلہ پاکر آج کی عورت نہ صرف اپنے حقوق بلکہ ملک کی جمہوری جدوجہد میں بھی پیش پیش ہے۔ 21 ویں صدی یقیناً عورت سمیت تمام انسانوں کی آزادی کی صدی ہوگی۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ