(ن) لیگ کی طرف سے قومی اسمبلی میں دو نئے صوبوں کا بل اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ تین اضلاع پر مشتمل بہاولپور صوبہ اور دو ڈویژنوں پر مشتمل جنوبی پنجاب صوبے کا قیام عمل میں لایا جائے۔ بل کی ایم کیو ایم اور (ق) لیگ نے حمایت کی جبکہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے حمایت سے گریز کیا۔ صوبے کے قیام کیلئے وسیب کے لوگوں کی جدوجہد قریباً نصف صدی تک محیط ہے۔ صوبے کا قیام آئینی معاملہ ہے اور قومی اسمبلی آئین ساز ادارہ ہے، قومی اسمبلی کو جس طرح اکھاڑا بنایا گیااور گزشتہ آٹھ ماہ سے آئین سازی نہ کرکے عوام تک غیر مثبت پیغام پہنچایا گیا۔ البتہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی صوبہ گریز مہم قابل مذمت ہونے کے ساتھ ساتھ (ن) لیگ بھی صوبے کے مسئلے پر سنجیدہ نہیں ہے۔ وہ ایک صوبہ بنانے کیلئے تیار نہیں مگر دو صوبوں کی بات کا مطلب صوبہ بنانا نہیں صوبے کے کیس کو خراب کرنا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ (ن) لیگ نے پہلے بھی دو صوبوں کی قرارداد قومی اسمبلی کو بھیجی جس پر صوبہ کمیشن بنا، صوبہ کمیشن میں سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ نے یہ کہہ کر بل مسترد کیا کہ دو صوبے بنے تو سینٹ بلڈوز ہو جائے گی اور سرائیکی وسیب والے دوسرے صوبوں کی نسبت دوہری اکثریت حاصل کر لیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبہ کمیشن کو ایک صوبے پر آنا پڑا اور سینٹ نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ ایک صوبے کا بل پاس کیا۔ (ن) لیگ صوبے کے مسئلے پر سنجیدہ ہے تو پھر قابل عمل بات کرے اور صوبہ کا بل اسمبلی میں لے آئے۔ انگریز نے نو آبادیاتی فارمولہ کے تحت قوموں اور خطوں کو تقسیم کیا، لڑاؤ اور حکومت کرو کا فارمولہ اپنایا، اب انگریز جا چکا ہے، ہم آزاد ہو چکے ہیں، اب مسئلہ علیحدگی کا یا آزادی کا نہیں بلکہ وفاق پاکستان میں آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے نئے صوبے کا ہے، نئے صوبے جرم نہیں ہندوستان کے تقسیم کے وقت 9 صوبے تھے اب 36 ہو چکے ہیں وسیب کے لوگوں کا (ن) لیگ سے یہ کہنا بجا اور درست ہے کہ استعماری حربے استعمال کرتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی بجائے نئے مسائل نہ کھڑے کئے جائیں۔ ملک کے وسیع تر مفاد کیلئے ضروری ہے کہ (ن) لیگ دوسرے صوبوں کی طرح سرائیکی وسیب کی شناخت کے مطابق ایسا بل پیش کرے جو قابل عمل ہو اور جس پر دوسرے صوبوں کو بھی اعتراض نہ ہو۔ اس بل کے ذریعے (ن) لیگ جہاں بہاولپور کو اپنے دوسرے سرائیکی وسیب سے الگ کرکے تفریق پیدا کرنا چاہتی ہے وہاں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے جذبات بھی وسیب کے خلاف ابھارنا چاہتی ہے کہ وسیب کے لوگ دو صوبوں کی ڈیمانڈ کرکے سینٹ کو بلڈوز کرنا چاہتے ہیں۔ (ن) لیگ کے بل کے جواب میںصوبہ محاذ کا فوری رد عمل سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ کتنی عجب بات ہے کہ صوبائی و قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت ہونے کے باوجود (ن) لیگ نے اپنے دور میں صوبے کیلئے کچھ نہ کیا اب وہ صوبہ صوبہ کھیل رہی ہے۔ وسیب کے کروڑوں افراد کے جذبات سے نہ کھیلا جائے اُن سے بنگالیوں والا سلوک بند کیا جائے اور بلا تاخیر صوبہ کا بل اسمبلی میں لایا جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کی طرف سے مہاجر صوبے کا مطالبہ بھی سرائیکی صوبے کو سبوتاژ کرنے کی ایک چال ہے اسی طرح صوبے کے مسئلے پر تحریک انصاف کی خاموشی قابل مذمت ہے۔ سرائیکی رہنمائوں نے کہا کہ قومی اسمبلی آئین ساز ادارہ ہے اسے اکھاڑا بنا دیا گیا ہے۔ آٹھ ماہ میں کوئی آئین سازی نہیں ہوئی۔ وسیب لوگوں کا پیپلز پارٹی سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں سے مطالبہ ہے کہ وہ صوبے کے مسئلے پر اقدامات کریں اور وسیب کے لوگوں کو دیوار سے لگانے کی پالیسی ترک کریں۔ ہمارا تعلق سابق ریاست بہاولپور سے ہے تواتر کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ بہاولپور صوبہ بحال کیا جائے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بہاولپور کبھی صوبہ نہیں رہا وہ ریاست تھی، اب بحالی کا مطلب ریاست کی بحالی ہو گا جو کہ آئین پاکستان کے مطابق کسی بھی طرح ممکن نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ون یونٹ کے خاتمے پر جب حکمرانوں نے بہاولپور کے لوگوں کی خواہش اور مرضی کے برعکس زبردستی بہاولپور کو پنجاب کا حصہ بنایا تو اہل بہاولپور نے احتجاجی تحریک شروع کی اور پوری ریاست میں مظاہرے ہوئے اور پہلی مرتبہ ریاست بہاولپور کے ہر قصبے اور شہر سے جلوس برآمد ہوئے حتیٰ کہ پوری ریاستی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین نے بھی مظاہروں میں حصہ لیا۔ 24 اپریل ریاست کا یوم سیاہ ہے اب صرف ریاست بہاولپور نہیں بلکہ وسیب کے دوسرے شہروں میں بھی یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ سرائیکستان قومی کونسل کی طرف سے شہدائے بہاولپور کی یاد میں سیمینار منعقد ہوا ہے۔ واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ24 اپریل 1970ء کو فرید گیٹ بہاولپور پر پنجاب حکومت نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پر امن مظاہرین پر گولی چلائی جس سے بہت سے لوگ شہید و زخمی ہوئے اور پنجاب سرکار نے سابق ریاست بہاولپور کے تینوں اضلاع کے ہزاروں افراد پر مقدمات قائم کرکے اُن کو جیلوں میں ڈال دیا۔ اُن کا جرم یہ تھا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں پنجاب کا حصہ بنایا جائے اور اُن کا کہنا تھا کہ تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی طور پر ہمارا لاہور سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر پنجاب کے حکمرانوں نے اقتدار کے نشے سے چور ہو کر ظلم و بربریت کی انتہاء کر دی۔ اس کے چند ماہ بعد سانحہ مشرقی پاکستان پیش آیا بہاولپور کے لوگ تھوڑے ہی عرصہ بعد انہوں نے اپنی جدوجہد نئے سرے سے شروع کر دی اور بہاولپور کے سیٹھ عبید الرحمن اور ریاض ہاشمی مرحوم نے بہاولپور صوبہ محاذ کو سرائیکی صوبہ محاذ میں تبدیل کیا اور صادق آباد سے ڈی آئی خان تک وسیب کے لوگوں کو نیا سلوگن دیا کہ اب ہمیں تین اضلاع پر مشتمل بہاولپور صوبہ نہیں بلکہ وسیب کی تہذیبی، ثقافتی اور جغرافیائی شناخت کے مطابق صوبہ چاہئے وہ دن اور آج کا دن وسیب کے تمام لوگ صوبے کیلئے جدوجہد کرتے آرہے ہیں اور ہم ہر سال 24 اپریل کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ