کسی بھی مسئلے پر بد شگونی اچھی نہیں ۔ ہماری دعائیں تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ ہیں ۔ دعا ہے کہ تبدیلی کا وعدہ پورا ہو اور خدا کرے ایسی تبدیلی ہو ‘جو نظر آئے ۔ جہاں تک معروضی حالات کا تعلق ہے تو جس طرح بڑے صوبے پنجاب میں ہارس ٹریڈنگ ہو رہی ہے اور دونوں فریقوں کی طرف سے نمبر پورے کرنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارے جا رہے ہیں ۔ تبدیلی خواب کے سوا کچھ نہیں، حد تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کو جس نوجوان سے شکست دلوائی گئی ‘ اسے جہازوں کی سیر کرائی جا رہی ہے اور وہ تمام روایتی حربے استعمال ہو رہے ہیں جو کہ ماضی کا حصہ رہے، ان حالات میں لگتا ایسے ہے کہ مرکز میں اور صوبوں میں تبدیلی صرف اتنی ہوگی کہ وزارت عظمیٰ پر نواز شریف یا شاہد خاقان عباسی کی جگہ عمران خان ہونگے اور تخت لاہور پر میاں شہباز شریف کی جگہ کوئی اور چہرہ بٹھا دیا جائے گا۔ تبدیلی کا ذکر چلا ہے تو یہ بھی عرض کر دوں کہ الیکشن میں ایک تبدیلی یہ دیکھنے کو ملی کہ مولانا فضل الرحمن جو کہ سرائیکی علاقے دیرہ اسماعیل خان و ٹانک سے ہمیشہ منتخب ہوتے آ رہے ہیں ، وہ دو حلقوں سے شکست کھا گئے ۔ یہ شکست وسیب سے بے وفائی کے نتیجے میں ان کے حصے میں آئی ۔ گزشتہ الیکشن کے دوران انہوں نے سرائیکی صوبے کا وعدہ کیا اور دیواروں پر وال چاکنگ بھی سرائیکی صوبے کے حوالے سے کرائی گئی مگر جونہی الیکشن ختم ہوئے ، صرف یہ نہیں کہ ’’ رات گئی بات گئی‘‘ والا معاملہ ہوا بلکہ ووٹ سرائیکیوں سے لیے اور نمائندگی کا حق پشتونوں کیلئے ادا کیا ۔ اس مرتبہ الیکشن شکست کے بعد مولانا فضل الرحمن کو دوسری شکست پورے ملک میں دوبارہ الیکشن کرانے کے بارے میں ہوئی کہ کسی جماعت نے ان کی بات نہ مانی ،آخر ان کو خود ہی الیکشن نتائج قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا ۔ اس کے ساتھ یہ بھی عرض کر دوں کہ جمشید دستی نے سرائیکی تحریک کیلئے کام کرنے والوں کو راکا ایجنٹ کہا تو ان کو بھی قومی اسمبلی کے پانچوں حلقوں سے شکست ہو گئی ۔ خدا کرے وسیب کی سوچ میں یہ تبدیلی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بنے۔ سندھ ‘ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کی نسبت پنجاب میں زور آزمائی زیادہ ہو رہی ہے ۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ نے مرکز کی وزارت عظمیٰ سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر لی ہے ۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کو تحریک انصاف نے اپنی حکمت عملی کے تحت راستے سے ہٹا دیا ۔ اب مختلف نام سامنے آ رہے ہیں اور سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے ۔ چوہدری پرویز الٰہی بھی وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں شامل ہیں ۔ کہا جا رہا ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کو پنجاب کی گورنری کی پیشکش کی گئی ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ ق لیگ ہمارا ساتھ دے ۔ محترمہ یاسمین راشد جو کہ ممبر اسمبلی منتخب نہیں ہو سکیں ، کو منتخب کرا کر وزیر اعلیٰ بنائے جانے کے بارے سوچا جا رہا ہے ۔ دوسری طرف مخدوم شاہ محمود قریشی کے حامیوں کا خیال ہے کہ اگر ایسا ہی کرنا ہے تو مخدوم شاہ محمود میں کیا برائی ہے ؟ ان کو بھی صوبائی اسمبلی کا ممبر منتخب کرا کے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا جا سکتا ہے ۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے مسئلے پر سب سے زیادہ کھینچاؤ اس بناپر ہے کہ یہ ساٹھ فیصد آبادی کا صوبہ ہے ۔ پنجاب کا وزیراعلیٰ خود کو وزیراعظم سے بھی برتر سمجھتا ہے ۔ بحیثیت سربراہ مملکت آصف زرداری لاہور آتے تو لاہور کی سیاسی اشرافیہ انہیں کوئی اہمیت نہ دیتی ۔ یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ‘صدر آصف زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف جلوسوں کی قیادت کرتے رہے اور لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پرمینار پاکستان پر پنکھا لیکر مرکزی حکومت کے خلاف مینار پاکستان کے سائے تلے صف آرا رہے ۔ میاں نواز شریف کی طرف سے اداروں سے ٹکراؤ بھی پنجاب کی طاقت اور اس کے بل بوتے کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آج سرائیکی صوبہ بنا دیا جائے تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی صرف اتنی اہمیت رہ جائے گی جتنی سندھ‘ بلوچستان یا خیبرپختونخواہ کی ہے ۔ جہاں تک صوبے کی بات ہے ‘ عمران خان نے 100 دنوں میں صوبہ بنانے کا وعدہ کیا ہے اور 100 دنوں کی الٹی گنتی بھی شروع ہو چکی ہے ۔ عمران خان کے الیکشن کے امتحان کے بعد اس سے بڑا امتحان اب شروع ہو چکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان 100 دنوں میں صوبہ بناتے سکتے ہیں یا پھر کم از کم صوبے کیلئے کس حد تک اقدامات کر سکتے ہیں۔ لیکن وسیب کے سیاستدان چاہے ان کا تعلق جس جماعت سے ہو انہیں صوبے کیلئے آگے آنا ہوگا کہ پلیٹ میں رکھ کر کسی نے صوبہ نہیں دینا اور نہ ہی صوبے کو گلدستہ بنا کر کسی نے پیش کرنا ہے ۔ صوبے کیلئے ان حضرات کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں جو با اثر ہیں اور اسمبلیوں میں پہنچے ہیں۔ لیکن ان سیاستدانوں کی سیاسی کارکردگی کو دیکھیں تو افسوس ہوتا ہے۔ ہم پورے وسیب کی بات نہیں کرتے ، صرف اپنے ملتان کو دیکھتے ہیں تو یہاں تین مخادیم مخدوم یوسف رضا گیلانی ‘ مخدوم شاہ محمود قریشی اور مخدوم جاوید ہاشمی بڑے نام ہیں مگر ان کے عمل کو دیکھیں تو یہ ایک تخت لاہور کا غلام ہے ‘ ایک لاڑکانہ کا اور ایک بنی گالہ کا ۔ جب تک وسیب کے لوگ اپنا اور اپنے وسیب کا اختیار خود حاصل نہیں کریں گے اسی طرح نمبر دو رہیں گے ۔ خود شناسی کے ساتھ ساتھ قرآن مجید میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ کوشش کے سوا انسان کو کچھ نہیں ملے گا ۔ مخدوم جاوید ہاشمی خود کہتے رہے ہیں کہ نواز شریف شہباز شریف مجھ سے سیکھنے آتے تھے ۔ پھر یہ ہوا کہ مخدوم جاوید ہاشمی نواز شریف کی امامت میں ہاتھ باندھ کر پیچھے کھڑے ہو گئے ۔ پھر اچانک تحریک انصاف میں چلے گئے ۔ وہاں ان کو اہم مقام حاصل ہوا ، نجانے پھر کیا ہوا جمہوریت کے نام پر نواز شریف کی حکومت بچانے کیلئے تحریک انصاف کو چھوڑ دیا ۔ پھر انہوں نے اپنے طور پر گورنری ، سینیٹر اور چیئرمین سینیٹ تک کے خواب دیکھے اور خود کو پیدائشی مسلم لیگی کہتے رہے مگر ن لیگ والوں نے انہیں قبول کرنا تک گوارا نہ کیا ۔ پھر برا وقت آیا تو بمشکل ان کو مسلم لیگ کا دروازہ کراس کرنے کی اجازت دی گئی ۔ گزشتہ روز مخدوم جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس دیکھی تو افسوس ہوا کہ نجانے ان کو کیا ہو گیا ہے ؟ ایک طرف کہا کہ عمران خان کو لوگوں نے ووٹ نہیں دیئے ، وہ محض ایک مہرہ ہے ، دوسری طرف کہا کہ الیکشن نتائج قبول کئے جائیں ۔ یہ بھی فرمایا کہ سو دنوں کے اندر صوبہ بنایا جائے ۔مگر انہوں نے پنجاب اسمبلی سے قرارداد اور وعدے کے باوجود صوبہ نہ بنانے پر بھاری مینڈیٹ والوں کی مذمت تک نہ کی ۔ یہ دو عملی نہیں تو کیا ہے؟
( بشکریہ : روزنامہ 92 نیوز )
فیس بک کمینٹ