سرائیکی وسیبظہور احمد دھریجہعلاقائی رنگلکھاری

شاکر مہروی مجھ سے کیوں ناراض تھے ؟ ۔۔ ظہور دھریجہ

26 فروری 2010ء سرائیکی کے عظیم شاعر شاکر مہروی کی وفات کا دن تھا۔ وقت کا پہیہ کتنی تیزی سے گردش میں ہے کہ پتہ ہی نہیں چلا، اتنے سال بیت گئے۔میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو مجھے صدمہ ہو رہا ہے کہ شاکر مہروی کے استاد اور دو صدیوں کے عظیم شاعر سئیں احمد خان طارق بھی اس دنیا میں نہیں رہے، ان جیسے شاعر روز روز نہیں بلکہ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں
۔ شاکر مہروی نے بحیثیت شاعر ساری زندگی اپنی دھرتی، اپنی مٹی، اپنی ماں بولی اور اپنے وسیب کیلئے کام کیا۔ شاکر مہروی کے دو شعری مجموعے ”میں یاد آساں“ اور ”بس توں“ شائع ہوئے، بہت سے شعری مجموعے ابھی شائع ہونے باقی تھے مگر موت نے ان کو مہلت نہ دی۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ اردو اور دوسری زبانوں کے ادارے بھی موجود ہیں اور کروڑوں کی گرانٹ بھی ان کو ملتی ہے مگر ایک لا وارث سرائیکی ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اگر سرائیکی زبان کی ترقی کا سرکاری ادارہ موجود ہوتا تو بہت سی کتابوں کے علاوہ شاکر مہروی کی کتابیں چھپ گئی ہوتیں۔ شاکر مہروی کا اصل نام محمد رمضان ہے، آپ 1966ء جمعے کے دن 27 رمضان کو حاجی غلام حسین ارائیں کے گھر پیدا ہوئے، رمضان شریف کی مناسبت سے نام محمد رمضان رکھا گیا۔ 13 سال کی عمر میں شاعری شروع کی اس لئے تعلیم میٹرک سے زیادہ حاصل نہ کر سکے۔ 1979ء میں عظیم سرائیکی شاعر احمد خان طارق کی شاگردی اختیار کی، حضرت پیر مہر علی شاہؒ کی مناسبت سے مہروی کہلائے۔ احمد خان طارق نے سرائیکی ادبی ثقافتی سنگت کی بنیاد رکھی اور ان کی سر پرستی میں ان کے شاگرد عبدالرزاق زاہد نے سرائیکی رسالہ الطارق شائع کیا۔ بہت سے اعزازات ایوارڈز اور سندیں انہوں نے حاصل کیں۔
وسیب میں صرف سیاسی جاگیردار ہی نہیں کچھ قلم کے جاگیردار بھی قوم کے غدار ہیں۔ شاکر مہروی کہتے ہیں کہ :۔
ہک تھیوو قوم دے لوکو
اُٹھو ظلم دے ہتھ کوں روکو
تے نسلاں سکھ منگدین

ہے غیر دے سر سرداری
ساڈی رل گئی قوم آواری
ہن راہ راخس دے ٹوکو
تے نسلاں سکھ منگدین

گئی ٹل رات اندھاری
ساڈی آ گئی شاکر واری
سر نویں سجھ توں ہوکو
تے نسلاں سکھ منگدین
شاکر مہروی اپنا مجموعہ کلام ” میں یاد آساں “ چھپوانے آئے تو بہت دن جھوک میں قیام کیا اس دوران ان سے بہت نشستیں رہیں میں نے ان سے کہا آپ کے استاد احمد خان طارق آپ سے بہت محبت کرتے ہیں ، شاکر مہروی نے کہا سئیں احمد خان طارق صرف مجھ سے نہیں پورے وسیب سے محبت کرتے ہیں، ہم سے تو محبت کا یہ عالم ہے کہ انہوںنے میرے شہر ” سناواں “ پر نظم لکھی ہے، اس شاہکار نظم کے کچھ شعر اس طرح تھے
کریندے کندھ تے کاں کانواں
سناواں یاد آویندے
آویندے کوئی نانواں
سناواں یاد آویندے
ہووے کوئی رنگ سناواں ہے
جے کھڑکے ونگ سناواں ہے
جے لو میندی ٹکے لاواں
سناواں یاد آویندے
” میں یاد آساں “ کی اشاعت کے موقعہ پر شاکر مہروی ہمارے ہاں قیام پذیر تھے ہم نے ان کے اعزاز میں ایک شام کا اہتمام کیا۔ مختصر تقریب تھی چند ایک اور شاعر بھی تھے لیکن ہم نے فیصلہ کیا کہ صرف شاکر مہروی کو سنیں گے، وہ اتنا کھل کر پڑھے اور اتنی محبت سے پڑھے کہ وہ شام ہمارے لئے یاد گار شام بن گئی اور اس موقع پر سب کی زبان پر یہ ا لفاظ تھے کہ شاکر مہروی مستقبل کا بہت بڑا شاعر ہے ۔ سرائیکی وسیب کی بے نصیبی ہے کہ مواقع نہیں ملے ورنہ سرائیکی شعراء کا مقابلہ لاہور ، کراچی ، اسلام آباد کے اردو شاعر نہیں کر سکتے۔
اس موقع پر شاکر مہروی کے لا جواب ڈوہڑے کو بہت پسند کیا گیا
توں یاد رکھیں سُکھ سفریں وچ کُئی شے پئی کُھٹ میں یاد آساں
کہیں ثابت شے کوں کہیں ویلے لگا کہیں جاہ بٹ میں یاد آساں
یا شام کوں ولدے پکھیاں دا ڈٹھو کہیں جاہ جُٹ میں یاد آساں
تیڈے ہتھ دا شاکر شیشہ ہاں جڈاں ویساں تُرٹ میں یاد آساں
شاکر مہری اپنی بات کے پکے تھے، جھوک دفتر بیٹھے تھے ہمارے دوست حیات اللہ خان نیازی نے شاکر مہروی سے کہا ،سئیں آپ اپنے تخلص شاکر پر نظر ثانی کریں تاکہ آپ کا کلام شاکر شجاع آباد کے کھاتے میں نہ جائے۔ شاکر مہری جذباتی ہو گئے ، کہنے لگے میں پہلے سے شاکر ہوں، شاکر شجاع آبادی بعد میں آیا ہے، اسے اپنا تخلص تبدیل کرنا چاہئے ، شاکر مہروی نے کہا معذوری کی ”ہمدردی“ جب شاعری سے نکل جائے گی تو تب فیصلہ لوگ کریں گے کہ کون بڑا شاعر ہے، وہ یہ بھی کہنے لگے کہ میرا استاد کامل ہے ، شاکر شجاع آبادی خود کہتا ہے میرا کوئی استاد نہیں۔
عمران مہروی بتاتے ہیں کہ شاکر مہروی کے شاگردوں کی تعداد 100 کے قریب ہے ۔ اس موقع پر سبیل تذکرہ ایک بات کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ہماری شاعر برادری میں شاگرد بنانے کا بہت رواج رہا ہے ۔ پہلے درجنوں کے حساب سے گنتی بتائی جاتی تھی اب سینکڑوں کے حساب سے آواز لگائی جاتی ہے ، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کتنے شاعر ہیں جو شاگرد بنانے کے بعد اپنے شاگردوں کی شاعری کی اصلاح بھی کرتے ہیں؟ اس کا جواب ایک فیصد سے بھی کم آتا ہے ، میں نے مرحوم دلنور نور پوری کو وقت دیتے دیکھا اور شاکر مہروی بھی اپنے شاگردوں کو وقت دیتے تھے۔ کچھ اور شعراء بھی وقت دیتے ہوں گے مگر بہت کم۔ شاکر مہروی شاگردوں سے محبت کرتے تھے اس کا ثبوت ایک یہ بھی ہے کہ شاکر مہروی کے ایک شاگرد ندیم عباس ساگر نے ایک کتاب اپنے استاد کے نام ” تیڈے نانویں “ کے نام سے لکھی ہے اور وہ کتاب جھوک کی طرف سے شائع بھی ہوئی ہے۔
شاکر مہروی کی کمی وسیب کے لوگ ہمیشہ محسوس کرتے رہیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے کلام اور ان کی خدمات پر تحقیق کی جائے۔ میں اس بات کا بھی آج برملا اظہار کرتا ہوں کہ شاکر مہروی مجھ سے ناراض بھی ہوئے اور جھوک کا بائیکاٹ بھی کیا ،ان کا شکوہ یہ تھا کہ آپ کی شاکر شجاع آبادی پر توجہ زیادہ ہے ، میں شاکر شجاع آبادی سے ہمدردی کی جو بھی دلیل دیتا وہ ماننے کو تیار نہ ہوتے۔ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن مجھے خوشی ہے کہ آٹھ بہنوں کا اکلوتا بھائی عمران مہروی ہمارے اور آپ کے درمیان موجود ہے اور سرائیکی تحریک میں شامل ہو کر اپنے والد کی روح کو خوش کر رہا ہے ۔ عمران مہروی کا ڈوہرہ دیکھئے اور خود فیصلہ کیجئے کہ عمران سوچ اور فکر کیا ہے ؟
میڈے ڈاڈے طارق ڈوہڑے وچ ہر آن سرائیکستان منگئے
ڈے ڈھیر اشارے سسڑی دے مکران سرائیکستان منگئے
میڈے بابے شاکر مہروی ڈے عنوان سرائیکستان منگئے
اج آ کے تریجھی پشت دے وچ عمران سرائیکستان منگئے

فیس بک کمینٹ

متعلقہ تحریریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker