صدر مملکت محترم عارف علوی نے گورنر ہاؤس پشاورمیں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی پنجاب صوبے کا قیام آسان کام نہیں جبکہ فاٹا کا انضمام بھی مشکل سے ہوا ۔ ان کا کہنا تھا کہ نئے صوبے کیلئے اثاثہ جات وغیرہ کی تقسیم بہت مشکلات درپیش ہونگی ۔صدر عارف علوی کہہ رہے ہیں کہ سرائیکی صوبہ میں مشکلات ہیں کہ صوبوں کے اثاثہ جات کی تقسیم کے مسائل درپیش ہونگے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان مشکلات کا ان کو الیکشن کے وقت علم نہ تھا ؟ اس وقت تو سب کی زبان پر تھا کہ ہم سو دن میں صوبہ بنائیں گے ۔ اب سو دن کا وعدہ کہاں گیا؟ حالانکہ کرنے کا ارادہ ہو تو کوئی کام مشکل نہیں ہوتا۔ صدر عارف علوی کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے وہ قائدین جنہوں نے محاذ کو تحریک انصاف میں ضم کیا ،کی خاموشی بھی قابلِ غور ہے، جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے مخدوم خسرو بختیار نے مرکز اور صوبے میں بڑی وزارتیں لے لی ہیں ۔ عثمان بزدار صوبے کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ میر بلخ شیر مزاری کے صاحبزادے میر دوست محمد مزاری پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر بن گئے ہیں ۔ سردار نصر اللہ دریشک کے بیٹے حسنین بہادر دریشک کو بھی وزارت مل گئی ۔ سمیع اللہ چوہدری سمیت بہت سے دوسروں نے وزارتیں لے کر خاموشی اختیار کر لی ہے۔ حالانکہ کو ان کو مینڈیٹ وزارتوں کیلئے نہیں ، صوبے کیلئے ملا تھا ۔ صوبے کے مسئلے پر دھڑا ڈھڑ کمیٹیاں بنائی جا رہی ہیں ۔ ہر دوسرے روز بیان آ جاتا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبے کے مسئلے پر ایک نئی کمیٹی بنا دی گئی ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج تک کسی بھی کمیٹی کا باقاعدہ اجلاس تو اپنی جگہ رہا ، کوئی غیر رسمی اجلاس بھی نہیں ہوا ۔ حالانکہ صوبے کے مسئلے پر پارلیمانی کمیشن بنانے کی ضرورت ہے اور ایک مستقل کمیشن بنا دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ ہندوستان میں ایک مستقل کمیشن کام کر رہا ہے اور جہاں جہاں ضرورت پیش آتی ہے ‘ وہاں صوبہ بن جاتا ہے ۔ تقسیم کے وقت ہندوستان کے 9 صوبے تھے‘ اب 36 صوبے بن گئے ہیں ۔ پوری دنیا میں آسانی کیلئے قوانین بنائے جاتے ہیں ‘ ہمارے ہاں صوبے کا مسئلہ جب پہلے بھی مشکل تھا ، ضیا الحق کی 8ویں ترمیم کے ذریعے اسے اور بھی مشکل بنا دیا گیا اور قومی اسمبلی و سینیٹ کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی کو بھی اس میں شریک کر دیا گیا ۔ نیا صوبہ آئینی مسئلہ ہے اور صوبائی اسمبلی کسی بھی لحاظ سے آئین ساز ادارہ نہیں ۔ پیپلز پارٹی نے بھی سرائیکی وسیب سے بددیانتی کا مظاہرہ کیا کہ اس نے 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین سے آمرانہ ترامیم ختم کرتے وقت ضیا الحق کی بدنام زمانہ اس ترمیم کو باقی رہنے دیا ، اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ آئین سے یہ ترمیم ختم کی جائے ۔ وزیر اعظم عمران خان ‘ مخدوم شاہ محمود قریشی اور دوسرے اکابرین جس طرح سرائیکی صوبے کے مسئلے سے پہلو تہی کر رہے ہیں ‘ اس سے وسیب میں مایوسی اور تشویش بڑھ رہی ہے ۔ وسیب کے لوگ تحریک انصاف پر عدم اعتماد کرتے نظر آتے ہیں ۔ اب ن لیگ اور پیپلز پارٹی بھی تحریک انصاف پر انگلیاں اٹھا رہی ہے کہ صوبہ بنانے کا وعدہ کہاں گیا؟ سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی کہا ہے کہ تحریک انصاف کبھی صوبہ نہیں بنائے گی ۔ رحیم یارخان کے علاقے نواز آباد میں پیپلزپارٹی کے جلسہ سے سابق صدر آصف زرداری کے ساتھ ساتھ سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم صوبائی حد بندیوں کی پرواہ کئے بغیر اس علاقے میں ترقیاتی کام کریں گے ‘ اس علاقے کو پانی دیں گے ‘ تعلیم اور صحت کے میدان میں ترقیاتی منصوبے دیں گے۔ اس موقع پر انہو ںنے سرحدی علاقے میں یونیورسٹی بنانے اور آبپاشی کیلئے پانی دینے کا بھی اعلان کیا ۔ وزیراعلیٰ سندھ کا یہ اعلان کسی دھماکے سے کم نہیں ۔ اس پر تجزیئے اور تبصرے ہو رہے ہیں ۔ وزیراعلیٰ سندھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ سندھی سرائیکی ایک ہی تہذیب ، ایک ہی ثقافت اور ایک ہی زبان ہے۔ اس موقع پر آصف زرداری اور وزیراعلیٰ نے سرائیکی اجرکیں بھی پہنی ہوئی تھیں ۔ سابق صدر آصف زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ جس وقت رحیم یارخان میں تھے ،اسی وقت پورے سندھ میں سندھی اجرک کا دن منایا جا رہا تھا ۔ یہ محض اتفاق ہے کہ یا پھر کوئی طے شدہ ایجنڈا کہ سندھی قیادت نے سندھی ثقافتی تقریبات میں شریک ہونے کی بجائے سرائیکی وسیب میں آ کر سرائیکی اجرکیں پہنی ہوئی تھیں ۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ جب میں نے 2014ء میں سرائیکی اجرک لانچ کی تو مجھے سندھ سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ، یہاں تک کہ میں حیدر آباد جب سندھی اجرک بنانے والے ایک صنعتکار کے پاس گیا اور اسے سرائیکی اجرک کا آرڈر دینا چاہا تو اس نے سرائیکی اجرک کو مجھ سے چھین کر دور پھینک دیا اور کہا کہ یہ نہ بنے گی اور نہ یہ چلے گی کہ یہ سندھ کے خلاف پنجاب کی سازش ہے ۔ تو اس پر میں نے اسے کہا تھا کہ یہ نہیں رکے گی کہ یہ ہماری صدیوں کی پہچان ہے ۔ آج مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ سندھی قیادت نے بھی ہماری سرائیکی ثقافت کو سینے سے لگا رکھا ہے۔ اس ضمن میں یہ عرض کروں گا کہ وزیراعلیٰ سندھ اور سابق صدر آصف زرداری کی طرف سے سرائیکی اجرک کی شناخت کو زیب تن کرنا خوش آئند ہے لیکن وسیب کے لوگوں کو خوشی اس وقت ہوگی جب وہ سرائیکی وسیب کی شناخت کو تسلیم کریں گے اور مہاجر صوبے کے خوف سے سرائیکی صوبے کی حمایت سے پہلو تہی کرنا بس کر دیں گے۔ گزشتہ شب معروف انقلابی شاعر نذیر مگسی کی دوسری برسی تھی ۔ ملتان سے محبوب تابش، باسط بھٹی ، اکبر خان ملکانی اور راقم بندہ ناچیز بھی شریک تھے ۔ برسی کے موقع پر تقریب نے اس وقت افسوسناک صورتحال اختیارکر لی جب مقررین نے اسے پیپلزپارٹی کا جلسہ بنانے کی کوشش کی ۔ چند ایک مقررین کا کہنا تھا کہ سرائیکی مسئلے کا حل پیپلز پارٹی کے پاس ہے لہٰذا سرائیکی جماعتوں کو اس کی حمایت کرنی چاہئے ۔ اس پر سرائیکی لوک سانجھ کے صدر عاشق بزدار نے وضاحت کی ، میں نے گزارش کی کہ سرائیکی تحریک کے جو دوست ایک ہی وقت میں اقتدار پرست جماعتوں اور سرائیکی جماعتوں کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں ، ان کو دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا ۔ہم واضح کرتے ہیں کہ سرائیکی تحریک نہ تو کسی جماعت کی بی ٹیم ہے اور نہ ہی دم چھلا ۔ سرائیکی تحریک کی اپنی الگ ایک پہچان ہے ۔ وعدے کے باوجود پی پی ، ن لیگ نے صوبہ نہیں بنایا ، ہم تحریک انصاف کی اس قیادت پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں جنہوں نے صوبے کے نام پر ووٹ لئے مگر عملی اقدام سے پس و پیش کیا جا رہا ہے ۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ