سردار عثمان خان بزدار کی طرف سے وزارت اعلیٰ کا قلم دان سنبھالنے پر وسیب کی طرف سے خوشی اور جوش وخروش کا کس قدر اظہار ہوا،اس کااندازہ ایک سرائیکی نظم ”میڈا تونسہ تخت لاہور اے“ سے ہوتا ہے ، نظم لکھنے والے شاعر کا تعلق تونسہ سے ہے ، یہ ایک خوشی کااظہار ہے ورنہ سب جانتے ہیں کہ نہ تو تونسہ تخت لاہور ہے اور نہ ہی اس خطے کے باسی سہولتوں کے حوالے سے تخت لاہور کا مقابلہ کر سکتے ہیں ، یہ خوشیاں اس وقت حقیقی معنوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں جب سردار عثمان خان بزدار اپنے وسیب کی بہتری کیلئے اقدامات کریں گے اور اس خطے کے لوگوں کو کوئی ریلیف ملے گا،ابھی تک کوئی ایک بھی فیصلہ ایسا سامنے نہیں آیا جس سے وسیب کے لوگوں کو احساس ہوا ہو کہ واقعی تبدیلی آ گئی ہے اور ان کو تکلیف کی بجائے ریلیف ملا ہے۔کتنی عجب بات ہے کہ وزیر اعلیٰ نے ابھی تک اپنے تونسہ شریف کو ضلع کا درجہ بھی نہیں دیا حالانکہ سرائیکی وسیب میں بہت سے نئے اضلاع اور نئے ڈویڑنوں کی ضرورت ہے ،سوال صرف اتنا ہے کہ کیا اس کام کیلئے بھی تحریک انصاف کو یا وزیر اعلیٰ کو اسمبلی میں دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہے ؟ حال ہی میں ہونے والی اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کی تعیناتیوں میں جس طرح سرائیکی وسیب کا استحصال ہوا اس کا ذکر میں پہلے ہی اپنے کالم میں کر چکا ہوں ابھی چند دن پہلے محکمہ تعلیم حکومت پنجاب کی طرف سے کالجوں میں تقریباً3ہزار لیکچرار بھرتی کرنے کا فیصلہ ہوا ہے ان میں سے مردانہ کالجوں کے لئے سرائیکی لیکچرر کی ایک بھی اسامی نہیں دی گئی، جبکہ زنانہ کالجوں میں صرف 7سیٹیں دی گئی ہیں۔وزیر اعلیٰ کے اپنے شہر تونسہ سمیت وسیب کے سینکڑوں کالج ایسے ہیں جہاں سرائیکی پڑھانے والا ایک بھی استاد نہیں۔وسیب کے جو چند ایک کالج ہیں وہاں بھی صرف ایک ایک سرائیکی لیکچرار تعینات کیاگیا ہے حالانکہ کسی بھی کالج کا شعبہ دو یا تین لیکچرار کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ، وزیر اعلیٰ کو فوری طور پر اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ خوشی سے جھوم کر”میڈا تونسہ تخت لاہور اے“ کہنے والے ملنگ شاعر کی خوشی حقیقی خوشی میں تبدیل ہو سکے۔ سرائیکی وسیب میں تعلیمی اداروں کی کمی پرانا مسئلہ ہے ،وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعظم ہاﺅس اسلام آباد کو بھی یونیورسٹی بنا دیا ہے خوشی کی بات ہے کہ انہوں نے اپنا وعدہ وفا کیا لیکن اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ کیا یونیورسٹیاں صرف اسلام آباد اور لاہور کا حق ہے؟ سرائیکی وسیب کی صورت حال یہ ہے کہ اتنے بڑے وسیب میں صرف دو یونیورسٹیاں ہیں۔ نئی یونیورسٹیاں بنانے کی بجائے گرلز کالج ملتان ، ملتان گرلز کالج بہاول پور اور گورنمنٹ کالج ڈی جی خان کو یونیورسٹیوں کا درجہ دیا گیا حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ کالجوں کی سابقہ حیثیت بحال کی جائے اور ان کی جگہ نئی یونیورسٹیاں قائم کی جائیں ، کالجوں میں سٹوڈنٹس جہاں4500 روپے داخلہ فیس دیتے تھے اب ان کو 45000روپے دینا پڑ رہا ہے، اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ ابھی تک ان کالجوں میں سرائیکی شعبہ قائم نہیں کیا گیا جبکہ ایسے مضمون بھی پڑھائے جا رہے ہیں جن کا وسیب تو کیا پاکستان سے بھی تعلق نہ ہے ، موجودہ حکومت تبدیلی کے نعرہ پر برسر اقتدار آئی ہے تو اسے اپنے نعرہ کے مطابق حقیقی تبدیلی کی طرف توجہ دینا ہوگی اور وسیب کے وہ تعلیمی مسائل جو برس ہا برس سے زیر التوا چلے آ رہے ہیں ان کے حل کیلئے اقدامات کرنے ہونگے اگر آج وسیب سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے بھی مسئلے حل نہیں ہوتے تو پھر کل کس سے شکوہ ہوگا ؟ تحریک انصاف کی طرف سے سرائیکی وسیب سے صوبے کا وعدہ ہوا اب صوبے سے ہٹ کر سب سول سیکرٹریٹ کی بات ہو رہی ہے جو کہ کسی بھی لحاظ سے صوبے کا متبادل نہیں ، تحریک انصاف نے 100دن کا وعدہ کیا مگر خود ہی جواز پیدا کر لیا کہ ہمیں اسمبلی میں دوتہائی اکثریت حاصل نہیں اس لئے فی الحال سیکرٹریٹ بنا رہے ہیں ، خود ساختہ جواز کا بھانڈا اس وقت پھوٹ گیا جب اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت جنوبی پنجاب صوبے کے لئے بل لائے ہم حمایت کریں گے ، پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ نے بھی میاں شہباز شریف کی بات کی حمایت کی ، اس موقع پر میانوالی سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی ثناءاللہ خان مستی خیل نے کہا کہ ہمارا وسیب محرومیوں کا شکار ہے صوبے کے بغیر مسئلے حل نہیں ہونگے انہوں نے کہا کہ صوبہ بنایا جائے اور رخنے بازیاں پیدا نہ کی جائیں۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مظفرگڑھ سے رکن قومی اسمبلی سردار ارشاد احمد خان سیال نے کہاکہ میں سپیکر کا شکر گزار ہوں مجھے پہلی مرتبہ بولنے کا موقع ملا ،انہوں نے کہا کہ ہمیں تین ڈویڑنوں کا جنوبی پنجاب نہیں بلکہ ہمارے وسیب کی جغرافیائی شناخت کے مطابق ٹانک ، ڈی آئی خان ، جھنگ ، بھکر سمیت سرائیکی صوبہ چاہئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب سندھ پنجاب اور بلوچستان کو شناخت دی گئی اور خیبرپختونخوا کو شناخت دینے کیلئے آئین میں تبدیلی کی گئی تو پھر ہمارے وسیب کو بھی شناخت دی جائے ارشاد سیال کی تقریر کے بعد ان لوگوں کو ضرور سوچنا چاہئے جنہوں نے صوبے کے وعدے پر الیکشن لڑا ،الیکشن کے موقع پر سرائیکی سرائیکی کھیلتے رہے ، حالانکہ سرائیکی صوبہ صرف سرائیکی وسیب نہیں پاکستان کی ضرورت ہے اور کروڑوں انسانوں کیلئے زندگی موت کا مسئلہ ہے اسے صرف سیاسی کھیل نہ سمجھا جائے۔ عمران خان ، مخدوم خسرو بختیار سمیت سب نے اپنے گلوں میں سرائیکی اجرکیں پہنیں اب وہ اپنے مینڈیٹ سے کیوں روگردانی کر رہے ہیں ؟ اور وہ صوبے کی بات سے کیوں بھاگ رہے ہیں ؟صوبے کے نتیجے میں اگر پنجاب کا اقتدار (ن) لیگ کے پاس چلا جائے گا تو کونسی قیامت آ جائے گی۔ تحریک انصاف کا وعدہ پورا ہوگا ،وفاق پاکستان کو استحکام ملے گا ، چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ختم ہوگا ، سینٹ میں وسیب کو نمائندگی ملے گی ، ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا اور پاکستان پھر حقیقی معنوں میں نیا پاکستان کہلانے کا حقدار بن جائے گا ، اور تحریک انصاف کی پذیرائی میں بھی یقینا اضافہ ہوگا کیا تحریک انصاف اس پر غور کرے گی ؟
(بشکریہ:روزنامہ92نیوز)
فیس بک کمینٹ