یہ بات خوش آءد ہے کہ موجودہ حکومت ثقافتی پالیسی ترتیب دے رہی ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحس چوہا ے اس سلسلے میں کہا ہے کہ وزیراعظم عمرا خا اور وزیراعلیٰ عثما بزدار ے پاکستا ی ثقافتوں کو ئی ز دگی دی ے کے سلسلے میں اقدامات کی ہدایت کی ہے۔ ثقافتوں کے احیاءکے سلسلے میں ہمارے صوفی شعراءکا پیغام ہایت اہمیت کا حامل ہے۔ سرائیکی زبا میں خواجہ فرید ے جہاں ا گریز سامراج کے خلاف ” اپ ی گری آپ وسا توں ، پٹ ا گریزی تھا ے “ کا درس دیا ہے ، وہاں اپ ی دھرتی ، اپ ی مٹی ، اپ ے وسیب اور پوری ا سا یت سے محبت کا بھی درس دیا ہے۔ موجودہ حکومت پالیسی ب اتے وقت خواجہ فرید کے پیغام کو سام ے رکھے تو بہت سود م د اور کا ر آمد ہوگا۔ ہمارے صوفی شعراء ے اپ ے عارفا ہ کلام کے ذریعے ا سا یت کو ام کا پیغام دیا ہے ، آج کی ا تہا پس دی ، دہشت گردی اور عدم برداشت کے دور میں صوفیاءکے کلام کو عام کر ے کی ضرورت ہے۔ صوفیا کے کلام کے حوالے سے ویسے تو بہت سی مثالیں ہیں لیک خواجہ فرید کی ایک کافی ” آ چ وں رل یار ، پیلھوں پکیاں ی وے “ پر غور کریں تو اس میں ایک ساتھ مل کر رہ ے کا پیغام دیا گیا ہے۔ ”رَل وسوں “ سرائیکی کا ایک ایسا عرہ ہے ، جس پر عمل پیرا ہو کر ا سا یت کو بہت بڑی تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔ آ چ وں رل یار میں خواجہ فرید ے اپ ے وسیب اور اپ ے ماحول کی بات کی ہے۔ محبت‘ الفت اور یگا گت کی بات کی ہے، آج کی فسا فسی کے دور میں جب مادہ پرستی ے ہم سے ہماری صدیوں کی تہذیب اقدار چھی لی ہیں تو ا حالات میں ”آ چ وں رل یار “وسیب میں بس ے والے تمام لوگوں کیلئے بھلائی اور خیر خواہی کی بے مثال اور خوبصورت دعوت ہے۔ خواجہ فرید ے اپ ی اسی کافی میں جہاں مل بس ے کی بات کی ہے ، وہاں اپ ی دھرتی ،اپ ی مٹی اور اپ ے وسیب کے لوگوں سے محبت کا بھی ذکر کیا ہے۔ ا ہوں ے اپ ی روہی اور روہی میں بس ے والی روہیلیوں کو حوروں اور پریوں سے تشبیہ دی ہے۔ ا کے عشوے اور رمزوں کا ذکر کیا ہے۔ ا کے حس و جمال کو خراج تحسی پیش کیا ہے۔ ا سا وں میں پل پل خوشیوں اور دم دم شادیوں کی بات کی ہے۔ پیلھوں ا کی اقسام اور پیلھوں کے مختلف ر گوں کا ذکر ہایت ہی دلکش ا داز میں کیا ہے۔ یہ سب کچھ کیا ہے ، یہ در اصل خواجہ فرید کی طرف سے ماں دھرتی سے محبت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے مل کر ام و آشتی سے رہ ے کا پیغام دیا ہے۔ اس میں کوئی شک ہیں کہ جس طرح خواجہ فرید ے اپ ی ماں دھرتی سے محبت کی ہے ، اسی طرح شاید ہی کسی ے کی ہو۔ خواجہ فرید ے اپ ے کلام میں روہی کو ملک ملہیر، باغ ، بہشت اور مشک و ع بر سے تشبیہ دے کر امر کر دیا ہے۔ دیوا فرید میں جگہ جگہ آپ کو روہی کی محبت اور عظمت کے شا ملیں گے۔ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں :۔ ہر ہر قطرہ ا?ب ہے کوثر گرد غبار ہے م±شک تے ع بر کرڑ ک ڈا شمشاد ص وبر خار وی شکل بہار دی ہے خواجہ صاحب ے جہاں اپ ی دھرتی کے کا ٹوں کو بھی بہار سے تشبیہ دی ہے وہاں ا ہوں ے اپ ی دھرتی کو کوہ طور سے بھی تشبیہ دی ہے، واضح ہو کہ کوہ طور وہ جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام اپ ے خالق حقیقی سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرتے تھے۔ اپ ی ہی دھرتی میں موجود ریت کے ٹیلوں کو طور سے تشبیہ دیکر خواجہ فرید ے ہمیں یہ بتایا ہے کہ یہ ٹیلے بھی محض ریت کے ٹیلے ہیں ، ا کی عظمت بھی کوہ طورکی طرح بل د و بالا ہے۔آپ ا لاءوں کو دیکھیں اور خود فیصلہ کیجئے کہ خواجہ فرید ے کت ے خوبصورت ا داز میں اسے ام اور عظمت کی دھرتی قراردیا :۔ وادیِ ایم تھل دے چارے جتھاں بروچل کرہوں قطارے ککڑے ٹبڑے ہِ کوہ طور سرائیکی وسیب کی ام کی تاریخ ا±ت ی ہی قدیم ہے جت ا کہ خود سرائیکی وسیب ، سرائیکی وسیب ایک ذات ہیں ایک کاءات کا ام ہے۔ تاریخی حوالے سے سرائیکی وسیب کی اہمیت اور وسعت ات ی زیادہ ہے کہ اس میں پاکستا ، ہ دوستا تو کیا پورا جہا سما سکتا ہے۔ یہ خطہ ہزار ہا سالوں سے تہذیب ،ثقافت اور مذہب کی پیشوائی کا فریضہ سر ا جام دیتا آ رہا ہے۔ بلا شبہ اسلام سے پہلے بر صغیر ج وبی ایشیاء کے تمام مذاہب کا مرکز ملتا رہا ہے۔ ملتا کو تہذیبوں کی ماں اور مذاہب کا مولد قرار دیا گیا۔ ملتا کو د یا کا پہلا مہذب ملک کہا گیا۔ یہی وہ خطہ ہے جہاں ا سا ے سب سے پہلے اپ ے دو پاﺅں پر زمی پر چل ا سیکھا۔ یہی سے ا سا اور حیوا میں تفریق کا عمل شروع ہوا۔ یہی وہ خطہ ہے جہاں ہمیشہ ام کا پیغام عام کیا گیا۔ سرائیکی زبا ب یادی طور پر دعاﺅں کی زبا ہے ، زبا کسی بھی خطے اور اس میں بس ے والے لوگوں کے تہذیبی ع اصر کا اظہار کہلاتی ہے۔ سرائیکی وسیب کے لوگ صدیوں سے تعصب ، فرت اور حملہ آوری کا شکار تو ہوئے لیک ا ہوں ے آج تک کسی سے ہ تعصب برتا اور ہ فرت کی۔ سرائیکی وسیب کے لوگوں ے ہر آ ے والے کو اپ ے دل میں جگہ دی اور اسے اپ ا ب ا لیا۔ سرائیکی وسیب کے بزرگوں ے ہمیشہ وسیب کے لوگوں کو محبت اور درگزر کا پیغام دیا۔ فریدی مسلک کے بہت بڑے شاعر حضرت خواجہ محمد یار فریدی آف گڑھی اختیار خا ( خا پور ) کی یہ کافی خصوصی توجہ کی طلب گار ہے جس میں آپ فرماتے ہیں :۔ ”ماراں کھاویں ، مار ہ آویں “۔ یہ کیا ہے ؟ کیا کوئی اس طرح کا پیغام دیتا ہے ؟ ہیں بالکل ہیں۔ یہ سرائیکی وسیب کا ہی خاصہ ہے ، اس ے رواداری ، تحمل ، برداشت اور درگزر کا پیغام دیا۔ جیسا کہ میں ے پہلے عرض کیا کہ سرائیکی ام و محبت کی زبا ہے تو اس سلسلے میں اس حقیقت کو جا ے کیلئے ضروری ہے کہ آپ سرائیکی کے لوک ادب کا مطالعہ کریں۔ سرائیکی کے کہاوتیں ، ضرب المثال اور پہیلیوں کی سٹڈی کریں۔ آپ کو پتہ چلے گا کہ ا میں لوک دا ش کے ر گوں کے ساتھ ساتھ ا سا یت کیلئے دعائیہ کلمات کا کت ا حوالہ ہے۔ سرائیکی زبا میں میں تمام دعائیہ کلمات کا احاطہ ہ کر سکوں گا البتہ جو دعائیہ کلمات موجود ہیں اس کے مطالعہ سے اس بات کی حقیقت واضح طور پر سام ے آئے گی کہ شہد سے میٹھی سرائیکی زبا در اصل ہے ہی دعائیہ کلمات اور ام کے پیغام کا ام۔
(بشکریہ: روز امہ92 یوز)
فیس بک کمینٹ