لاہور : انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے کمانڈر ذکی الرحمٰن لکھوی کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کے جرم میں پانچ سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔انسدادِ دہشتگردی کی عدالت کی جانب سے کالعدم تنظیم کے کمانڈر کو انسداد دہشتگردی ایکٹ کی تین دفعات پر پانچ، پانچ سال قید اور ایک، ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے تاہم یہ سزائیں ایک ہی وقت میں شروع ہوں گی۔
خیال رہے کہ انڈیا اور امریکہ کی جانب سے ذکی الرحمان لکھوی پر سنہ 2008 کے ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے، اس حملے میں 160 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مقدمے کے فیصلے میں عدالت کا کہنا ہے کہ ذکی الرحمٰن لکھوی اپنے ساتھی ابو انس محسن کے ساتھ مل کر پاکپتن میں ‘ابو حریرہ ڈسپنسری’ کی آڑ میں چندہ جمع کر کے دہشت گردوں کی مالی معاونت کرتے تھے۔
خیال رہے کہ محکمہ انسداد دہشتگردی کی جانب سے لکھوی اور ان کے ساتھیوں پر مقدمہ گذشتہ ماہ درج کیا گیا تھا جس میں ان پر دہشت گردی کی معاونت کے لیے غیر قانونی چندہ جمع کرنے اور دہشت گردوں کی مالی مدد کرنے کا الزام لگایا گیا تھا جس کے بعد انھیں دو جنوری کو خفیہ معلومات کی بنیاد پر ایک ٹارگٹڈ آپریشن میں گرفتار کیا گیا تھا۔ سنیچر کے روز ان کی گرفتاری کے بعد امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں لکھوی کی گرفتاری کو ایک خوش آئند اقدام قرار دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ یہ اقدام انھیں دہشت گردی اور اس کی مالی معاونت میں ملوث ہونے کا ذمہ دار ٹھہرانے میں اہم ثابت ہوگا۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’ہم ذکی الرحمان لکھوی کے مقدمے اور سزا کے حوالے سے بھی نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہم چاہیں گے کہ ممبئی حملوں میں ان کے کردار کے حوالے سے بھی انھیں سزا دی جائے۔‘
یاد ہے کہ ذکی الرحمان لکھوی کو اس سے قبل سنہ 2008 میں مبینہ طور پر لشکر طیبہ کے ایک تربیتی کیمپ سے ممبئی حملہ سازش کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم چھ برس بعد انھیں انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے ضمانت پر رہائی دے دی تھی جس کے بعد وہ سنہ 2015 میں جیل سے باہر آگئے تھے۔ گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران پاکستان کی جانب سے کالعدم تنظیموں کے سربراہوں اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاریوں میں خاص طور پر تیزی دیکھی گئی ہے۔
گذشتہ برس نومبر میں جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو ایک عدالت نے تین مختلف الزامات میں مجموعی طور پر ساڑھے دس برس قید اور ایک لاکھ دس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ادھر ایف اے ٹی ایف کی جانب سے دی گئی ڈیڈلائن فروری کے آخر میں ختم ہو رہی ہے اور ایسے میں یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان ایسا صرف ایف اے ٹی ایف کے دباؤ میں کر رہا ہے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سکیورٹی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اعزاز سید کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی تبدیل ہو چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے کشمیری عسکریت پسند تنظیموں پر سخت کریک ڈاؤن کیا گیا ہے، اور جن لوگوں پر کریک ڈاؤن نہیں ہوا وہ غائب ہو چکے ہیں یا منظر پر موجود نہیں ہیں۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ