مسافر نگری نگری پھرا۔ملکوں ملکوں گیا اور گھرکاراستہ بھول گیا۔پھر کئی برسوں کی جہاں گردی کے بعد مسافر اس خیال سے واپس آیا کہ صبح کا بھولا اگر شام کو گھرلوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔لیکن وہ جب یہاں پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ جنہیں اس نے اس جہان گردی کے دوران بھلادیا تھا اب ان میں سے کوئی بھی اس جہان میں موجودنہیں۔اور اگر کوئی موجودبھی ہے تو وہ بھی اب اسے بھلا چکا ہے۔لیکن وہ مسافر ہمت ہارنے والا کب تھا۔وطن واپسی پر اسے معلوم ہوا کہ اس کی والدہ اور بہت سے بہن بھائی اب اس جہان میں نہیں رہے۔والدہ کے انتقال کی خبر تو اسے 10برس بعد ملی تھی ۔مسافر تنہائی پسند تو بچپن سے ہی تھا لیکن اس صورت حال نے اسے اور تنہا کردیا۔ پھر اس نے ایک بیگ اٹھایا اور اپنے والد اور والدہ کی قبروں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔یہ دونوں قبریں ملتان میں موجودتھیں۔ملتان جو اس کے لڑکپن کاشہر تھا۔جہاں کے سکولوں میں اس نے ابتدائی تعلیم حاصل کی اورپھر یہاں سے لاہور اور بعدازاں جرمنی چلاگیا۔گھر کا راستہ بھولنے والے کو سبھی نے بھلادیاتھا۔لیکن ملتان اور ملتان کی مٹی نے اسے آواز دی ۔اپنی جانب بلایا اور کہاکہ تمہیں سب بھلادیں گے لیکن ملتان کی مٹی اپنوں کو نہیں بھولتی خواہ وہ اپنے اسے بھلاڈالیں اور عمربھر اس کی جانب پلٹ کربھی نہ دیکھیں۔مسافر نے ملتان کو اپنا مسکن بنایا ۔ایک ہاسٹل میں بسیرا کیا اور دھرتی کاقرض چکانے کا عزم کرلیا۔وہ جب یہاں سے گیاتھا تو وہ اس کے بچپن لڑکپن کا زمانہ تھا ۔لیکن جب وہ واپس پہنچا تو والدین اور عزیز واقارب کے ساتھ ساتھ اس کی توانائی بھی ختم ہوچکی تھی۔وہ جگر کے عارضے کاشکارتھا۔ہڈیوں کاڈھانچہ بن چکاتھا۔دن میں کئی بار وہ شدید اذیت میں رہتا۔دوائیاں کھاتا اور نڈھال ہو کر سو جاتا۔لیکن وہ پرعزم تھا ۔وہ اس سارے سفر کو رائیگاں نہیں سمجھتا تھا۔ وہ اس سفر کو ثمرآور بنانا چاہتاتھا۔وہ اپنی دھرتی کے لئے کام کرنا چاہتاتھا۔سو اس نے اس خطے کے لکھاریوں پر کام شروع کر دیا ۔ان کی کتابیں جمع کیں۔ان کی زندگیوں کا احوال قلمبند کیا۔اور اسے ”پرورشِ لوح وقلم“ کے نام سے شائع کرانے کا عزم کرلیا۔صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ تسلسل کے ساتھ اور تیزی کے ساتھ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔اور شاید وہ خود بھی اس کام کو جلدی مکمل نہیں کرنا چاہتاتھا۔اس دوران اسے اس شہر سے بے پناہ محبتیں ملیں ۔شہر اور شہروالوں نے اسے گلے سے لگایا ۔اسے اپنا سمجھا اور اس کے گرد اس کے چاہنے والوں کا ایک حلقہ بنتا چلاگیا۔کچھ حاسدین نے اس دوران اس پر زندگی تنگ کرنے کی کوشش بھی کی۔اسے دھمکی آمیز فون کیے گئے۔اس کے گھر گمنام خط پھینکے گئے ۔لیکن وہ زندگی کی جنگ لڑتارہا اپنے کام میں مگن رہا۔جب تک اس میں ہمت تھی وہ تقریبات میں شریک ہوتارہا۔لوگوں میں خوشیاں تقسیم کرتارہا اور پھر جب ہمت ختم ہوگئی تو اس نے مکمل گوشہ نشینی اختیار کرلی۔20اگست 2016ءکو مسافر کاسفر تمام ہوا اور اگلے روز سورج میانی روڈ پر واقع قبرستان میں اس کے چند عزیز واقارب اور شہر کے کچھ ادیبوں نے اسے اس کی ماں کے پہلو میں سپردخاک کردیا۔ملتان کی مٹی نگری نگری گھومنے کے بعد ملتان کی مٹی میں ہی گم ہو گئی ۔
قاسم خان سے ہماری پہلی ملاقات جنوری2013ءمیں ہوئی تھی ۔اس سے ایک ماہ پہلے مامون طاہر رانا نے فون پر ہم سے رابطہ کیاتھااور بتایاتھا کہ قاسم خان صاحب لاہور سے ملتان تشریف لائے ہیں اور ملتان کے ادیبوں،شاعروں اور نثرنگاروں پر کام کررہے ہیں۔آپ انہیں اپنے کوائف اور چند تخلیقات ای میل کردیں۔ہم نے اسے معمول کی بات سمجھااور روایتی تساہل کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر انداز کر دیا ۔پھرجنوری کے مہینے میں ہم ایک روز اپنے دفتر میں موجودتھے کہ مامون طاہر ایک بزرگ کے ہمراہ ہمارے پاس آئے ۔بزرگ نے ایک بیگ تھام رکھاتھا۔پینٹ شرٹ اور جیکٹ میں ملبوس تھے۔معلوم ہوا کہ یہی قاسم خان ہیں اور یہی وہ ہستی ہیں جن کے بارے میں بتایاگیاتھا کہ وہ ملتان پرکام کررہے ہیں۔وہ ملاقات کم وبیش دوگھنٹوں پر محیط تھی۔اور پہلی ملاقات میں ہی قاسم صاحب کے ساتھ ایک خوشگواربے تکلفی پیدا ہوگئی۔انہوں نے اپنے بارے میں بہت کچھ بتایا۔زندگی کے سفر کااحوال سنایا۔ملتان کے ماضی کاذکر کیا اور پھر ملاقاتوں کاسلسلہ بڑھتا چلاگیا۔صحت ان کی ٹھیک نہیں رہتی تھی۔جگر کا عارضہ تھااور وہ مسلسل ادویہ کا استعمال کرتے تھے۔قاسم صاحب اس زمانے میں ایم ڈی اے کے قریب اپنے بھانجے بھانجیوں کے ساتھ رہتے تھے۔انہوں نے بتایا کہ میں یہاں اپنی والدہ اور والد کی قبر تلاش کرنے آیاتھا ۔مجھے ملال تھا کہ میں ان دونوں کے جنازوں میں شریک نہ ہوسکا۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے والد سرمد مظاہری خود بھی بلند پایا شاعر تھے اور ان کی قبر جلال باقری قبرستان میں موجودہے۔قاسم خان کاکہناتھا کہ وہ دھرتی کا قرض چکانے کے لئے جنوبی پنجاب کے ادیبوں،شاعروں اور دانشوروں پر تحقیق کررہے ہیں اوراس سلسلے میں انہیں ہماری معاونت بھی درکار ہے۔پھرایک روز انہوں نے مجھے مختلف شاعروں اور ادیبوں کی ایک فہرست دکھائی اور مجھے سے دریافت کیا کہ انہیں ان کی کتابیں درکارہیں کیا میں اس سلسلے میں ان کی معاونت کر سکتا ہوں ۔میرے پاس جتنی بھی کتب دستیاب تھیں ان کے حوالے کردیں۔وہ اس بات پر نہال ہوگئے اوریہ محبت بھرا تعلق مزید مستحکم ہو گیا ۔ پھرجیسے جیسے وہ کام مکمل کرتے رہے کتابیں مجھے واپس بھجواتے رہے۔اسی دوران انہوں نے سخن ورفورم کی ادبی بیٹھک میں آنا شروع کردیا۔جب بھی ان کی صحت اجازت دیتی وہ ادبی بیٹھک میں ضرور تشریف لاتے اور بیٹھک کے اختتام پر ہم میں سے کوئی دوست انہیں واپس چھوڑ آتا۔اب ان کے مضامین تسلسل کے ساتھ مختلف اخبارات میں شائع ہونے لگے۔مختلف ادیبوں کی برسی کے موقع پر وہ اخبارات کو مضامین ارسال کرتے جو بہت اہتمام کے ساتھ شائع ہوتے تھے۔جس گھر میں وہ مقیم تھے اس کے باہر ایک ہوٹل تھا جہاں وہ شام کے وقت محفل آراستہ کرتے تھے۔کسی ادیب یا شاعر سے ملنا بھی ہوتا تو اسی ہوٹل کا وقت دیتے تھے۔اس ہوٹل پربھی مجھ سمیت بہت سے دوستوں نے ان کے ساتھ بہت سا وقت گزارا۔جرمنی سمیت دنیا کے جن ممالک کی انہوں نے سیاحت کی تھی ہم نے ان سے اس کااحوال سنا۔وہ نفسیات کے ماہرتھے۔اور انہوں نے یہ تعلیم جرمنی سے حاصل کی تھی۔وہ جرمنی میں ہی طویل عرصہ مختلف اداروں میں ماہرنفسیات کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیتے رہے ۔اپنی اس صلاحیت کو انہوں نے ملتان میں قیام کے د وران بھرپوراستعمال کیا۔وہ چند ہی لمحوں میں لوگوں کی نفسیات جان لیتے تھے ۔اورپھر ان کے ساتھ ان کی نفسیات کو مدنظررکھ کر مکالمہ کرتے تھے۔مشاہیر ادب پر انہوں نے جو کام شروع کیا اس میں ان کی لگن اور خلوص نیت اپنی جگہ موجود تھی لیکن یہ بھی اس خطے میں قیام کے لیے ان کا ایک نفسیاتی حربہ تھا۔وہ اپنی موت تک ملتان میں قیام کرنا چاہتے تھے اور اس دوران لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ میں لاہور سے تمہاری دھرتی کے لوگوں پر کام کرنے آیا ہوں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں نے اپنے بارے میں اور اپنے عزیز واقارب اور دوستوں کے بارے میں مضامین لکھوانے کے لئے ان سے رابطے شروع کر دیئےاور ان کے گرد ایک حلقہ بنتا چلا گیا ۔ ۔اس کتاب کے بارے میں پہلی ملاقات میں انہوں نے بتایا تھا کہ اس کی پہلی جلد مارچ میں منظرعام پر آجائے گی اور اس کے بعد تسلسل کے ساتھ اس کتاب کی نئی جلدیں شائع ہوتی رہیں گی۔افسوس کہ یہ کتاب ان کی زندگی میں شائع نہ ہوسکی۔وہ ہرملاقات میں یہ بتاتے تھے کہ کتاب تاخیر کا شکارہوگئی ہے۔ہرمرتبہ وہ اس کانیا جواز بھی فراہم کرتے اور ہرمرتبہ اشاعت کی کوئی نئی تاریخ بھی بتاتے تھے منیر ابن رزمی صاحب نے قاسم خان کے جنازے کے موقع پر کچھ دوستوں کی موجودگی میں یہ بتایاتھا کہ قاسم خان نے ان کے ساتھ آخری ملاقات میں بتایا تھا کہ انہوں نے اس کتاب کی اشاعت کے لیے رقم مامون طاہر رانا کوادا کردی تھی لیکن اس نے یہ کتاب شائع نہیں کرائی ۔قاسم خان نے یہ بات کئی ماہ قبل کچھ اور مقامات پربھی کہی تھی۔لیکن میری اور بعض دیگر احباب کی موجودگی میں جب ان کا مامون طاہر کے ساتھ مکالمہ ہوا تو انہوں تسلیم کیا کہ انہوں نے اب تک مامون کو کتاب کا مسودہ ہی حوالے نہیں کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ کتاب ابھی نظر ثانی کے مراحل میں ہے ۔ وفات سے چند روز قبل انہوں مامون طاہر کو اس کمپوزر کا رابطہ نمبر دیا جس کے پاس بقول ان کے اس کتاب کا مسودہ کمپوزنگ کے مراحل میں تھا ۔اس مسودے کی کیا صورت حال ہے اور کتاب کس حد تک مکمل ہوئی اس بارے سر دست کچھ معلوم نہیں ۔
یہ تو اس کتاب کا احوال تھا جس کا ان کی زندگی میں بہت چرچا رہا لیکن اسی اثناءمیں ان کی کتاب ”تہذیب کاسفر“ شائع ہو گئی۔یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد سفرنامہ ہے اور اس کتاب کے ذریعے قاسم صاحب کی زندگی کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے ۔قاسم خان کے ساتھ محبتوں کے اس سفر میں دیگر دوستوں کے علاوہ آئی ایس پی آرملتان کے سربراہ میجراسد محمود خان بھی شامل ہوگئے۔ہم نے ٹی ہاﺅس میں قاسم خان کی سالگرہ منائی۔اور ایک سالگرہ اسد محمود خان نے اپنے دفتر میں منائی۔کچھ عرصہ بعد جب انہوں نے یحییٰ امجد کا مجموعہ کلام ”شاخ امید “ کے نام سے شائع کیا تو مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو معلوم ہوا کہ قاسم خان یحییٰ امجد کے چھوٹے بھائی ہیں۔اس سے پہلے انہوں نے اس تعلق کا کبھی ذکر بھی نہیں کیاتھا۔ان کاکہناتھاکہ بھائی کی کتاب شائع کروانا بھی قرض چکانے کے عمل کا ایک حصہ ہے۔وگرنہ مجھے یہ کبھی خواہش نہیں ہوئی کہ مجھے ان کے حوالے سے پہچانا جائے۔میری ایک اپنی شناخت ہے اور میں اسی کواپنی پہچان بنانا چاہتا ہوں۔پھرایک اخبار نے ان کا ایک انٹرویو شائع کیاجس میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ ماضی کے حالات بیان کیے اور کہا کہ” ملتان بڑے ادیبوں کاچھوٹا شہر ہے۔نئی نسل میں سیکھنے کی صلاحیت نہیں،ہرنوجوان شاعر خودکو احمد فراز سمجھتا ہے۔یہاں کے ادیب آپس میں لڑنا چھوڑ دیں توادب ترقی کرسکتا ہے۔ہم تخت لاہور کے قیدی نہیں ،اپنے دشمن آپ ہیں۔“اسی انٹرویو میں انہوں نے چند قلم کاروں کے بارے میں کہا کہ یہ لوگ ملتان میں اچھا کام کررہے ہیں اور مجھے انہوں نے متاثر کیا ہے۔یہ انٹرویو شائع ہوتے ہی گویا تہلکہ مچ گیا۔جن قلمکاروں کا انہوں نے انٹرویو میں تذکرہ نہیں کیاتھا انہوں نے ان کے خلاف ایک محاذ بنالیا اور قاسم خان کے بارے میں منفی ایس ایم ایس شہر میں گردش کرنے لگے۔گیارہ اگست 2014 کو میں اور قمررضا شہزاد یوم آزادی کے مشاعرے میں شرکت کے لیے میانوالی میں موجودتھے۔مشاعرہ رات گئے ختم ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرے فون پر قاسم صاحب کی بہت سی کالز آئی ہوئی ہیں۔رات دوبجے میں نے انہیں فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر بعض لوگ دھمکی آمیز خطوط بھجوارہے ہیں۔میں ذہنی طورپر بہت پریشان ہوں۔کیا آپ میری کوئی مدد کرسکتے ہیں؟میں نے ملتان میں مقیم کچھ صحافی دوستوں کو فون کرکے صورت حال سے آگاہ کیا۔اور اگلے روز ان دوستوں نے قاسم صاحب سے رابطہ کیا اور انہیں مدد کی پیش کش کی۔یہ معاملہ تو یہیں ختم ہوگیا لیکن انہیں دھمکی آمیز ٹیلی فونز اور ایس ایم ایس تسلسل کے ساتھ موصول ہوتے رہے۔اس دوران وہ اپنے بھانجوں کے گھر سے اجمل خاموش کے ہاسٹل میں منتقل ہوگئے ۔اسی ہاسٹل میں انہوں نے مختلف تقریبات بھی منعقد کیں اور لکھنے پڑھنے کا کام بھی جاری رکھا۔دھمکی آمیز کالز اورایس ایم ایس کاسلسلہ اس تمام عرصے میں جاری رہا ۔قاسم خان طویل عرصہ یہ کرب تن تنہابرداشت کرتے رہے۔اورانہوں نے اس بارے میں کسی دوست کو بھی آگاہ نہ کیا۔پھرایک روز یوں ہوا کہ ان کے صبر کاپیمانہ لبریز ہوگیا۔3اپریل 2015ءکو مجھ سمیت ملتان کے تمام ادیبوں کو ان کاایک ایس ایم ایس موصول ہوا۔”مسٹر صابر انصاری ،آپ آج کے بعد مجھے کسی کے خلاف ایس ایم ایس کرکے پریشان نہیں کریں گے۔میں کینسر کامریض ہوں اور 20روز پہلے مجھے فالج کااٹیک بھی ہوا ہے۔اس ٹینشن میں اگر میری موت ہوگئی تو میری فیملی آپ کے خلاف میرے قتل کی ایف آئی آر درج کرائے گی۔ریکارڈ کی خاطر اپنا یہ میسج سب ادبی دوستوں اور میڈیا کو بھی فارورڈ کروں گا تاکہ میری موت کے بعد سب کے پاس ثبوت موجودرہے کہ اب سوچ سمجھ کر رپلائی کرنا ۔قاسم خان“۔
اس ایس ایم ایس کی گونج ملتان کی ادبی فضاءمیں طویل عرصہ تک سنائی دی اور اس نے سب کو حیران کردیا۔ایس ایم ایس بھیجنے کے بعد قاسم خان چند دوستوں کے ہمراہ اخبارات کے دفاتر میں بھی گئے اور مدیروں کو اس صورت حال سے آگاہ کیا۔گویا وہ ایک طرح سے اپنے قتل کی ایف آئی آر درج کر وارہے تھے۔صابرا نصاری نے ایس ایم ایس کے بعد کچھ دوستوں سے رابطہ کیا اور قاسم خان سے معافی کا طلب گارہوا۔قاسم خان کاکہناتھا کہ اب یہ معاملہ دوست ہی نمٹائیں گے۔صابرانصاری کی جانب سے جاویداختربھٹی متحرک ہوئے اور انہوں نے خود قاسم خان کے پاس جاکر معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔قاسم خان کاکہناتھا کہ اگر جاوید اختر بھٹی یہ ضمانت دیں کہ ان کے خلاف دوبارہ ایس ایم ایس جاری نہیں ہوں گے تو وہ ان کی بات سننے کو تیارہیں۔لیکن جاوید اختربھٹی نے یہ ضمانت دینے سے معذوری ظاہر کردی۔اور ظاہرہے دھمکی آمیز ٹیلی فون یا پیغامات بھجوانے میں ان کا کوئی کردارنہیں تھا۔یہ ٹیلی فون اورپیغامات ممتازاطہر کی ایما پر ارسال کیے جاتے تھے۔قاسم خان ان دھمکی آمیز ٹیلی فون کالز اور پیغامات کو محفوظ کرتے رہے۔انہوں نے مجھ سمیت اپنے قریبی دوستوں کو ممتازاطہر کی کالز سنوائیں جن میں انہیں گالیاں دی جارہی تھیں اور کہا جارہاتھا کہ تم ملتان میں دونمبر لوگوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہو۔یہ بحث مباحثہ کئی روز جاری رہا اورپھر ایک روز شیلان گیسٹ ہاﺅس میں قاسم خان نے اپنے دوستوں کی پنچائیت بلالی۔صابر انصاری،ہمایوں نصیر کی ضمانت پر اس پرپنچائیت میں شریک ہوئے۔جو دیگر احباب اس موقع پر موجودتھے ان میں ڈاکٹر مختارظفر،وسیم ممتاز، میجراسدمحمودخان،شاکرحسین شاکر،اجمل خاموش،ایوب کموکا اور مامون طاہر ر انا شامل ہیں۔صابر انصاری قدرے تاخیر کے ساتھ وہاں پہنچے اورپھر تمام لوگوں کی موجودگی میں انہوں نے قاسم خان سے غیرمشروط معافی مانگی۔اوریوں یہ معاملہ رفع دفع ہوگیا۔بعد کے دنوں میں صابر انصاری کی جانب سے قاسم خان کے حوالے سے کوئی منفی پیغام گردش میں نہیں آ یا۔یقیناً آپ کو یہ سب نام پڑھ کر حیرت ہوئی ہوگی ۔یقیناً آپ یہ سوچ رہے ہونگے کہ مجھے ان واقعات کو منظر عام پر نہیں لانا چاہیے تھا۔لیکن میں یہ سب کچھ اس لیے تحریر کررہا ہوں کہ لوگوں کے سامنے اصل صورت حال واضح ہوسکے اور چہرے بھی بے نقاب ہوسکیں۔
قاسم خان اس واقعہ کے بعد عملی طور پر گوشہ نشین ہوگئے۔ اس سے پہلے وہ مختلف تقریبات میں شریک ہوتے تھے۔ علالت کے باوجود وہ کسی نہ کسی کی مدد سے محفلوں میں جاتے تھے اور کچھ وقت دوستوں کے ساتھ گزارتے تھے۔ بعد کے دنوں میں ہم نے انہیں صرف چند تقریبات میں دیکھا اور وہ بھی ایسی تقریبات تھیں جو انہیں کے ساتھ منائی گئیں یا جن کا اہتمام ان کے بہت قریبی دوستوں نے کیا تھا۔ وہ زندگی کے بارے میں پرعزم تھے۔ اپنی بیماری کا انہوں نے بہت جرات کے ساتھ مقابلہ کیا۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں ان کی کتابیں اورکاغذان کے ساتھ ہوتے تھے۔ دوست اب فون بھی کرتے تو بعض اوقات ان کا فون اٹینڈ نہیں ہوتا تھا۔ ہاں اس دوران انہیں تقریبات میں شرکت کا جو بھی دعوت نامہ موصول ہوتا وہ پیغام بھیجنے والے کو جواب میں یہ ضرورلکھتے کہ اگر صحت نے اجازت دی تو ضرور حاضرہو جاﺅں گا۔ نگری نگری گھومنے والے اس مسافر کا سفر 20 اگست 2016ء کو مکمل ہو گیا۔ اپنی کتاب ”تہذیب کا سفر“ کے پیش لفظ کااختتام انہوں نے جس شعر پر کیا جی چاہتا ہے کہ ان کی یاد میں تحریر کیے گئے اس مضمون کا اختتام بھی اسی شعر پر کیا جائے اور اسی شعرسے اس مضمون کا عنوان منتخب کیا جائے۔
گئے دنوں کا سراغ لے کرکدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ