گزرے ہفتے کے آخری دو دنوں کے دوران چند تقاریب اور دوستوں کے کھانوں میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ وہاں موجود سرکار کے نمائندوں سے گفتگو ہوئی تو وہ اس امر کی بابت مطمئن سنائی دئے کہ تحریک انصاف 26 نومبر کے روز اسلام آباد میں داخلے کے بعد اس شہر میں لمبے عرصے کیلئے دھرنے پر بیٹھ نہ سکی۔
مقامی پولیس اور انتظامیہ نے انہیں ریاستی قوت کے بھرپور استعمال سے یہ شہر چھوڑنے کو مجبور کر دیا۔ جن لوگوں سے گفتگو ہوئی وہ بنیادی طور پر ”سیاسی“ نہیں۔ معاملات کو فقط انتظامی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کے سینکڑوں کارکنوں کے خلاف ہوئے ایکشن کے طویل المدت اور سیاسی مضمرات پر غور کرنے میں وقت ضائع کرنے کے عادی نہیں تھے۔
دوستوں کے جن کھانوں میں جانے کا اتفاق ہوا وہاں سیاسی کے علاوہ صحافی دوست بھی موجود تھے۔ ان کی اکثریت شدت سے مصر رہی کہ اسلام آباد کی پولیس اور انتظامیہ نے تحریک انصاف کے خلاف ناقابل معافی حد تک جارحانہ حکمت عملی اپنائی۔ رات کے اندھیرے میں عمران خان کی اہلیہ کے ہمراہ آئے ہجوم کے ساتھ جو ایکشن ہوا وہ عالمی میڈیا کی بدولت پاکستان کو بدنام کر رہا ہے۔ دنیا ہمیں ایک جمہوری ملک نہیں بلکہ آمرانہ نظام میں جکڑا معاشرہ سمجھ رہی ہے۔
اندھی نفرت و عقیدت میں تقسیم کی وجہ سے دلائل کے ساتھ گفتگو کی گنجائش ہمارے ہاں اب محدود سے محدود تر ہوتی جا رہی ہے۔ آپ سے بات کرنے والے توقع باندھتے ہیں کہ ان کی سوچ کو سرجھکائے تسلیم کرلیا جائے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف چلائی تحریک کو حق وباطل کے مابین معرکے کی صورت دیکھا جا رہا ہے۔ میراجھکی ذہن خود کو ”حق“ اور ”باطل“ کے مابین فرق دریافت کرنے کے قابل ہی نہیں سمجھتا۔ شدت سے یہ بھی محسوس کرنا شروع ہو گیا ہوں کہ عمر کے آخری حصے میں داخل ہونے کے بعد تھک گیا ہوں۔ وطن عزیز میں ”جمہوری تحاریک“ کے نتیجے میں ابھری قیادتوں نے ماضی میں اقتدار میں آنے کے بعد جو رویہ اختیار کیا وہ اکثر مشتعل کردیتا تھا۔ اب مگر مایوس ہونے کی عادت ہو چکی ہے۔ خواب دیکھنا چھوڑ دیے ہیں۔
گزشتہ چند دنوں سے سیاسی سوالات پر غور کرنے کے بجائے اتفاقاً میں ان مسائل کی جانب توجہ مبذول کرنا شروع ہوگیا ہوں جو ”بحرانوں میں گھرے“ عام شہریوں پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ رواں برس کے اکتوبر سے گزشتہ مہینے کے آخری ہفتے تک مجھے ایسے والدین کی پریشانی بہت قریب سے دیکھنے کو ملی جن کی بیٹیوں کی رخصتی تھی۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ مذکورہ تقریب کے لئے انہوں نے خاطر خواہ رقم کی پیشگی ادائیگی کے بعد جو ہال بک کروارکھے ہیں، تحریک انصاف کے باہر سے آئے ہجوم کی وجہ سے وہاں تک رسائی ممکن ہو پائے گی یا نہیں۔ ایسے والدین کے علاوہ مجھے دو درجن کے قریب واقعات کی بدولت یہ بھی دریافت ہوا کہ تحریک انصاف کے ہجوم کو راولپنڈی اور اسلام آباد میں داخلے سے روکنے کے لئے جو اقدامات لئے گئے تھے ان کی وجہ سے غیر ملک جانے والی پروازوں تک بروقت رسائی ممکن نہیں تھی۔ اسلام آباد کے کئی رہائشی ایئرپورٹ کے قریب موجود کمروں میں پرواز کی روانگی سے ایک دن قبل ہی منتقل ہو گئے۔ وہاں ایک کمرہ کا کرایہ 18 سے25 ہزار روپے کے درمیان تھا۔ کھانے پینے کے اخراجات اس کے علاوہ تھے۔ وہاں رہائش کے باوجود میں کم از کم دو ایسے افراد سے واقف ہوں جو ایئرپورٹ تک اپنی فیملی کی چند خواتین کو پہنچانے سامان سمیت کافی دیر تک چلنے کے بعد پہنچے۔ بیرون ملک سے آئی پروازوں کے مسافر بھی اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے گھنٹوں دربدر ہوتے رہے۔ ایسے افراد کی بپتا ہمیں ہر لمحہ باخبر رکھنے کے دعوے دار چینلوں پر دیکھنے کو نہیں ملی۔ نہ ہی ایسے واقعات سنجیدگی سے اخبارات میں اجاگر ہوئے۔
”خبر“ کی ایک قسم نصابی اعتبار سے ”ہیومن انٹرسٹ Interest Human “ سے مختص شمار ہوتی ہے۔ جن واقعات کا ذکر کیا ہے میری دانست میں اس نوع کی بے شمار خبریں تشکیل دے سکتے تھے۔ انہیں مگر نظرانداز کر دیا گیا۔ روایتی کے علاوہ سوشل میڈیا بھی ان کے بارے میں غافل رہا۔
اہم سیاسی واقعات کے سماجی اور نفسیاتی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ اس جانب بھی توجہ دینا ہم چھوڑچکے ہیں۔ مثال کے طورپر گزرے ہفتے مجھے ایک خاتون سے گفتگو کا اتفاق ہوا جو شادی سے قبل ایک متحرک رپورٹر تھیں۔ اب دو بچوں کی والدہ ہیں اور صحافت میں بتدریج واپس لوٹ رہی ہیں۔ انہوں نے یہ انکشاف کرتے ہوئے مجھے حیران کر دیا کہ ان کے دس سال سے کم عمر کے دونوں بچے اسلام آباد کو اب کنٹینروں میں گھرا شہر ہی شمار کرتے ہیں۔ اپنے والدین کے ساتھ انہیں اکثر دوبئی جانے کا موقع ملتا ہے۔ ان کے والد کو وہاں سے ایک اچھی نوکری کی پیشکش ہوئی ہے اور گھر میں اکثر یہ ذکر رہتا ہے کہ اسے قبول کیا جائے یا نہیں۔ والدین کے مابین اس موضوع پر ہوئی گفتگو کو سننے کے بعد کم سن بچے مصر ہیں کہ اسلام آباد چھوڑ کر دوبئی منتقل ہو جائیں۔
عام شہریوں کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے مجھے ایک اور خاتون کا ذکر بھی کرنا ہوگا جو اہم غیر ملکی ادارے میں معقول عہدے پر فائز ہیں اور اسلام آباد کے ایک پوش علاقے میں قائم عمارت کے فلیٹ میں اپنی والدہ کے ہمراہ رہتی ہیں۔ تحریک انصاف کے احتجاجی ہجوم کے اسلام آباد داخلے سے قبل شہر میں یہ افواہ مشہور تھی کہ اس جماعت کے ”ہزاروں کارکن“ خاموشی سے اس شہر منتقل ہو چکے ہیں اور وہ احتجاجی قافلے کے اسلام آباد داخلے کے بعد پہلے سے طے شدہ مقامات پر ”اچانک“ رونما ہوں گے۔ ایسے کارکنوں کا سراغ لگانے کی خاطر پولیس رات گئے مختلف ایسی عمارتوں پر اچانک چھاپے مارتی رہی جہاں رہائش کے لئے فلیٹس بنائے گئے ہیں۔ جس خاتون کا ذکر کررہا ہوں وہ بھی ایسی ہی ایک اونچی عمارت میں رہتی ہیں۔ 24 نومبر کی رات ڈیڑھ سے دو بجے کے درمیان چار سے پانچ افراد ان کا دروازہ پیٹنا شروع ہو گئے۔ مرکزی دروازے میں لگے سوراخ سے انہوں نے باہر کھڑے افراد کو دیکھا اور ان کی شناخت دریافت کی۔ باہر کھڑے لوگوں نے بتایا کہ وہ مقامی پولیس سے تعلق رکھتے ہیں۔ فلیٹ کی تلاشی لینا چاہ رہے ہیں کیونکہ ان کی اطلاع کے مطابق یہاں تحریک انصاف کے کارکن چھپے ہوئے ہیں۔مذکورہ خاتون نے نہایت دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ پولیس کے اعلیٰ افسر کا فون طلب کرنے پر اصرار کیا۔ وہ نمبر ملنے کے بعد موصوف سے گفتگو کی اور یوں اپنی جند چھڑائی۔ بلا ٹل جانے کے بعد مگر اب وہ اسلام آباد رہنے کے بارے میں پچھتا رہی ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ