ترکیہ میں صدارتی اور پارلیمانی عام انتخابات کا انعقاد ہوا جہاں بتدائی نتائج میں صدر رجب طیب اردوان کو 59.47 فیصد کے ساتھ برتری حاصل ہے جبکہ حزب اختلاف کمال قلیچ دار اوغلو 34.79 فیصد کے ساتھ مقابلے میں ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق حیبرترک اور دیگر ترک نشریاتی اداروں نے کہا کہ پولنگ اسٹیشنز بند ہونے کے دو گھنٹے سے بھی کم وقت کے بعد دیے گئے نتائج گنتی کے 9.1 فیصد بیلٹ بکس پر مبنی تھے۔
ترکیہ کے اعلیٰ انتخابی بورڈ کے سربراہ نے اس سے قبل اشاعت پر عائد پابندی اٹھا لی تھی اور کہا تھا کہ وہ اس وقت تک انتظار کریں جب تک کہ یہ سرکاری عارضی نتائج کا اعلان نہیں ہوتا۔
خیال رہے کہ آج ترکیہ کے عوام نے ملک میں ہونے والے اہم انتخابات میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے جنہوں نے صدر رجب طیب اردوان کو ہٹانے اور ان کی حکومت کے بڑھتے ہوئے آمرانہ طرز کو روکنے یا ان کو تیسری بار حکمرانی کا حق دینے کے لیے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
ترکیہ کی عوام ووٹ سے نہ صرف اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ ملک کی قیادت کون کرے گا بلکہ یہ بھی طے کریں گے کہ ملک پر کس طرح حکومت کی جاتی ہے۔
طیب اردوان کو ریٹائرڈ سرکاری ملازم کمال قلیچ دار اوغلو اور ان کے 6 جماعتی اتحاد سے زیادہ متحرک یا متحد اپوزیشن کا سامنا کبھی نہیں ہوا۔
رپورٹ کے مطابق مبصرین ے صدر رجب طیب اردوان کے حریف چھ جماعتی اتحاد کے سربراہ کمال قلیچ دار اوغلو کو معمولی برتری دی ہے جہاں جمعے کے روز ہونے والے دو پولز میں انھیں واضح طور پر جیتنے کے لیے درکار 50 فیصد کی حد سے اوپر دکھایا گیا ہے، تاہم اگر اتوار کو ان میں سے کوئی بھی 50 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لیتا تو 28 مئی کو رن آف ہوگا۔
ایک خاتون ووٹ دینے کے لیے پولنگ کی طرف جا رہی ہیں—فوٹو: رائٹرز
69 سالہ ترک صدر کو انتخابی فتوحات کے تجربہ ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریت کا احترام کرتے ہیں اور آمر ہونے سے انکار کرتے ہیں۔
ملک کے دیگر مقامات پر ووٹروں نے رجب طیب اردگان کے حق میں اور ان کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا۔
رپورٹ کے مطابق یہ انتخاب جنوب مشرقی ترکی میں آنے والے زلزلے کے تین ماہ بعد ہو رہے ہیں جس میں 50 ہزار سے سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جہاں متاثرہ صوبوں میں لوگوں نے حکومت کے سست ردعمل پر غصے کا اظہار کیا تھا۔
صدر رجب طیب اردوان نے استنبول میں ووٹ ڈالتے ہوئے انتخابی اہلکاروں سے ہاتھ ملایا اور پولنگ اسٹیشن میں ٹی وی رپورٹر سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے ملک، قوم اور ترک جمہوریت کے بہتر مستقبل کے لیے رب سے دعا کرتے ہیں۔
ووٹنگ عمل کی نگرانی یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم کے ایک مشن کے ذریعے کی جا رہی ہے جس نے کہا کہ وہ نتائج پر پیر (کل) کو ابتدائی بیان جاری کریں گے۔
صدر رجب طیب اردوان نے ترکی کے بیشتر اداروں پر سخت کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور لبرل ور ناقدین کو نظر انداز کر دیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ورلڈ رپورٹ 2022 میں کہا کہ ترک صدر کی حکومت نے کئی دہائیوں تک ترکی کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو پس پشت ڈال دیا ہے
(بشکریہ:ڈان نیوز)
فیس بک کمینٹ