دنیا بھر میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کے بعد تبصروں ، تجزیوں اور اندازے لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم واشنگٹن یا لندن (جہاں صدر ٹرمپ سرکاری دورے پر آئے ہوئے تھے) سے اس معاہدے کے بارے میں کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔ البتہ نئی دہلی نے محتاط انداز میں اس معاہدے کا جائزہ لینے اور قومی سکیورٹی کا تحفظ کرنے کا اعلان ضرور کیا ہے۔
معاہدے کے بعد جاری ہونے والا اعلامیہ مختصر مگر واضح ہے۔ اس سے زیادہ صاف کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ ’ایک ملک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور ہوگا‘۔ اعلامیہ میں اس پہلو کی بھی کوئی وضاحت نہیں ہے کہ کیا کسی انتہائی صورت میں پاکستان کی جوہری صلاحیت سعودی عرب کی خود مختاری کے کام آئے گی۔ بعض ماہرین کے نزدیک اس بارے میں ابہام ہے اور سعودی عرب کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی سامنے آیا ہے کہ کیا اس معاہدے کی کوئی خفیہ شقات بھی ہیں اور ان میں دونوں ملکوں نے کیا عندیہ دیا ہے۔ البتہ ابھی تو اس معاہدے کا متن عام مطالعے کے لیے سامنے نہیں آیا اور نہ ہی اسلام آباد یا ریاض کی طرف سے کوئی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔ اسی لیے قیاس آرائیاں شدید ہونے کے باوجود زیادہ تر متعلقہ افراد کے سیاسی نقطہ نظر یاگمان تک ہی محدود ہیں۔ ابھی اس معاہدے کے بارے میں بہت سے پہلو تشنہ ہیں اور کئی سوال جواب طلب ہیں۔ شاید یہ صورت حال جان بوجھ کر پید اکی گئی ہے۔
البتہ یہ طے ہے کہ اس معاہدہ سے پاکستان کے اندر موجودہ حکومتی انتظام کی مخالفت کرنے والے زیادہ خوش نہیں ہیں ۔ گو کہ سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت سعودی عرب کے ساتھ قربت پر خوشی کا اظہارکررہی ہے اور معاہدے کو پاکستان کی معاشی ترقی اور سرمایہ کاری کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ابہام کے باوجود بعض پہلو واضح اور قابل فہم ہونے چاہئیں۔ ایک تو یہ معاہدہ قطر پر اسرائیلی حملہ کے بعد ہؤا ہے۔ اس حملہ سے عرب ممالک کے دفاع کے بارے میں امریکی وعدوں کا پول کھلا ہے۔ کسی عرب لیڈر نے کھل کر اس کا اظہار نہیں کیا لیکن یہ واضح ہے کہ اب عرب دارالحکومتوں میں یہ سوچ پروان چڑھے گی کہ امریکہ اسرائیل کے مقابلے میں کبھی کسی عرب ملک کو حفاظتی چھتری فراہم نہیں کرے گا۔ یہ سوچ ان معنوں میں تشویشناک ہے کہ اس وقت علاقے میں صرف اسرائیل ہی ایسی عسکری قوت ہے جو جارحیت کا مظاہرہ کررہی ہے اور کسی بھی مقام پر اپنے دشمنوں کو نشانہ بنانے کےلیے حملوں کو سرکاری پالیسی کے طور پر اختیارکیا جارہا ہے۔ دوحہ پر حملہ کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور نام نہاد ’ دفاع‘ کے نام پر کسی بھی جارحیت کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ ہے اور امریکہ اس مقصد میں پوری طرح اسرائیل کا پشت پناہ ہے۔ ایسے میں عرب ممالک میں پیدا ہونے والا عدم تحفظ اور خوف قابل فہم ہونا چاہئے۔
گزشتہ روز دوحہ میں پچاس کے لگ بھگ مسلمان ممالک کے سربراہان کا اجلاس ہؤا لیکن یہ اہم سربراہی اجلاس بھی اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل بنانے میں ناکام رہا۔ اجلاس میں شریک ہونے والے سب عرب لیڈروں پر یہ واضح ہوگیا ہوگا کہ کسی مشکل وقت میں ہر ملک کو خود ہی اپنی حفاظت کا اہتمام کرنا ہوگا ۔ کوئی بھی کسی دوسرے ملک سے کسی قسم کی امداد کی توقع نہیں کرسکتا۔ یہ احساس سعودی عرب سمیت ہر امیر عرب ملک کے لیڈروں کو مناسب حفاظتی اقدامات لینے اور ایسی منصوبہ بندی کرنے پر مجبور کرے گا کہ انہیں بھی ویسی ہی خفت اور شرمندگی کا سامنانہ کرنا پڑے جو 9 ستمبر کو قطر کا مقدر بنی تھی۔ پاکستان کے ساتھ سعودی دفاعی معاہدہ اسی سوچ کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے۔
اس بارے میں بحث کی جاسکتی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دہائیوں پر محیط برادرانہ تعلقات ہیں اور دفاعی معاہدے کے بارے میں کافی عرصہ سے منصوبہ بندی ہورہی تھی۔ البتہ اگر ان اندازوں کو درست بھی مان لیا جائے تو بھی اگر اسرائیل دوحہ پر بلااشتعال حملہ نہ کرتا تو شاید یہ معاہدہ اتنی عجلت میں طے نہ پاتا اور نہ ہی سعودی عرب کی طرف سے دھوم دھام سے اس کا اعلان کیا جاتا۔ پاکستانی وزیر اعظم کی قیادت میں وفد کو شاہی پروٹوکول دینے کے علاوہ معاہدے والے دن سعودی دارالحکومت کو پاکستانی و سعودی جھنڈوں سے سجایا گیا تھا۔ عام طور پر پاکستانی لیڈر امداد مانگنے سعودی عرب جاتے رہے ہیں لیکن اس موقع پر کسی مالی پہلو پر نہ تو کوئی بات ہوئی اور نہ ہی اس بارے میں کوئی اعلان سامنے آیا ہے۔ اس لیے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ دوحہ پر اسرائیلی حملہ اس معاہدہ کی فوری وجہ بنا ہے ۔ سعودی حکومت نے معاہدے کی اہمیت و ضرورت نمایاں کرنے کے لیے ہی اس موقع پرخاص اہتمام کیا، پاکستانی وفد کو غیر معمولی احترام و پروٹوکول دیا گیا اور مشترکہ اعلامیہ میں دوٹوک الفاظ میں باہمی دفاع کے عہد کو اجاگر کیا گیا۔ اس کی مزید صراحت سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان نے ایکس پر اپنے پیغام میں کردی۔ انہوں نے لکھا کہ ’سعودیہ اور پاکستان۔۔ جارح کے مقابل ایک ہی صف میں۔۔ ہمیشہ اور ابد تک‘۔ سعودی وزیر دفاع نے یہ پیغام انگریزی ، عربی اور اردو میں جاری کیا۔
یہ معاہدہ بھارت کے خلاف نہیں ہے۔ اصولی طور سے تو اعلامیہ میں بھی باہمی دفاعی اشتراک کو امن کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے ۔ اس طرح کسی ملک کو بھی اس پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی واضح ہے کہ سعودی عرب کا یہ اقدام اسرائیل کے لیے انتباہ اور امریکہ کے لیے دوٹوک پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسرائیل کو جاننا چاہئے کہ اگر اس نے یک طرفہ طور سے سعودی عرب کو ہدف بنانے کی کوشش کی تو یہ وسیع جنگ میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ ایسی جنگ کا اسرائیل نہ تو متحمل ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کی ایسی خواہش ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی ریاض نے واشنگٹن پر واضح کیا ہے کہ اب وہ اپنے دفاع کے لیے امریکی وعدوں کو قابل اعتبار نہیں سمجھتا۔ واشنگٹن کی طرف سے خاموشی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہاں اس معاہدہ کی اہمیت کو نوٹ نہیں کیا گیا ہوگا بلکہ ٹرمپ انتظامیہ متبادل سفارتی اقدامات کا جائزہ لے رہی ہوگی تاکہ سعودی عرب اور دیگر امیر عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید نقصان نہ پہنچے۔
معاہدہ کا وقت بھی اہم ہے اور جس عجلت میں اسے طے کیا گیا ہے، ا س کی روشنی میں یہ قیاس کرنا سہل ہونا چاہئے کہ اس بارے میں پاکستان یا سعودی عرب نے امریکی ’اجازت‘ کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس بارے میں ہونے والی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں کہ یہ سب امریکی اشارے پر ہورہا ہے۔ البتہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ چینی حکام اس حوالے سے ہونے والی پیش رفت سے آگاہ ہوں۔ یہ معاہدہ درحقیقت مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن میں اہم کردار ادا کرے گا جس میں چین بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ چین کسی تصادم میں شریک ہونے پر آمادہ نہیں ہے لیکن اپنے تجارتی مفادات کے تحفظ کے لیے چین کو مشرق وسطیٰ میں اثر رسوخ کی ضرورت ہے۔ امریکی عسکری طاقت کا توازن تلاش کرتے ہوئے چین کی ٹیکنالوجی اور سفاتی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ان سب کے باوجود پاک سعودی معاہدہ درحقیقت ایک طاقت ور سفارتی و سیاسی پیغام ہے جس میں دونوں ملکوں نے کچھ ریڈ لائنز واضح کی ہیں۔ ان میں سر فہرست خود مختار ملکوں کے خلاف جارحیت سے گریز کا پیغام ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب مسلمان آبادی والے ملک ہیں اور حرمین الشریفین کی وجہ سے پاکستانیوں کا سعودی عرب کے ساتھ عقیدت و احترام کا رشتہ بھی ہے۔ لیکن دفاعی معاہدے کو اسلامی ملکوں کے درمیان طے پانے والا معاہدہ سمجھنے کی بجائے ، حالات و واقعات کی بنیاد پر کیا جانے والا ایک ایسا انتظام سمجھنے کی ضرورت ہے جس میں دونوں ملکوں نے عدم جارحیت اور امن کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ معاہدہ نہ تو اعلان جنگ ہے اور نہ ہی کی نئی فوج تشکیل دینے کا اعلان نامہ۔ البتہ اس کی سفارتی اور اسٹریٹیجیکل اہمیت مسلمہ ہے۔ امریکہ کی طرف سے فوری رد عمل نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ معاہدہ نہ تو امریکہ کو چیلنج کرتا ہے اور نہ اس میں اسرائیل سمیت کسی ریاست کے وجود کو مسترد کیا گیا ہے۔ بلکہ اپنی خود مختاری اور سرحدوں کے احترام کا تقاضہ کیا گیا ہے۔
واشنگٹن میں اگر اس پیغام کو درست تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی گئی تو امریکی حکام مشرق وسطیٰ میں من مانی پالیسی اختیار کرنے کی بجائے اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے اپنی حکمت عملی میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ اسرائیل کے ہمسائے اور ریجن کے دیگر ممالک خوف میں مبتلا نہ ہوں ۔ اسرائیل کو جینے کا حق ملے لیکن وہی حق فلسطینیوں کو دینے کا اہتمام بھی کیا جائے۔ اس پیغام کی درست تفہیم نہ کی گئی تو مشرق وسطیٰ میں نہ صرف اسرائیل کی غنڈہ گردی کو لگام دی جاسکے گی بلکہ یک طرفہ امریکی اثر رسوخ کا زمانہ بھی شاید طویل نہ ہوسکے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )