1993 کی بات ہے کہ سنگ میل پبلی کیشن کے مالک جناب نیاز احمد ملتان تشریف لائے ۔یہ وہ زمانہ تھا جب ملتان توکیا، پوری دنیا میں سنگ میل کی شائع کی ہوئی کتابوں کا بہت شہرہ تھا ۔پوری دنیا میں نیاز صاحب کا انتظار کیا جاتا تھا کہ وہ ان کے شہر آئیں۔ ادیب وشاعر ان سے ملاقات کرنے کے منتظر رہتے ، اپنی کتابوں کے مسودے ان کے سامنے رکھتے ۔اور پھر آخری فیصلہ نیاز صاحب کا ہوتا تھا کہ اس کو شائع کرنا ہے یا نہیں ۔
ہاں تو میں ذکر کر رہا تھا نیاز صاحب کے ملتان آنے کا ،نیاز صاحب ملتان آنے کے بعد سب سے پہلے سابق سول جج عباس خان کے گھر ان کی اہلیہ کا افسوس کرنے گئے ۔ اس کے بعد ان کے ایک دوست جو محکمہ تعلیم میں اعلی افسر تھے ان کے انتقال پر فاتحہ خوانی کرنے مظفرگڑھ گئے ۔ان افسر کا نام اس وقت ذہن میں نہیں آرہا ۔ملتان واپسی پر وہ کاروان بک سینٹر اورگلگشت میں بیکن بکس گئے ۔رات کو علی منزل میں ان کے اعزاز میں کھانا رکھا ہوا تھا ۔جس میں پروفیسر حسین سحر، ڈاکٹر اے بی اشرف ،خالد جاوید مشہدی ،رضی الدین رضی اور دیگر احباب نے شرکت کی ۔
اس کھانے میں ڈاکٹر اے بی اشرف نے خالد جاوید مشہدی کو دیکھتے ہی کہا نیاز صاحب یہ ہمارا شاگرد احمد فاروق مشہدی ہے ۔اور ساتھ ہی انہوں نے خالد کو کہا ۔احمد کیا حال ہے ؟
خالد مشہدی نے فورا کہا ڈاکٹر صاحب میں ان کا بڑا بھائی ہوں وہ مجھ سے چھوٹے ہیں لیکن ہم دونوں کی شکل آپس میں بہت ملتی ہے۔ تو یہ سن کر ڈاکٹر اے بی اشرف بہت حیران ہوئے ۔کہ دونوں بھائیوں کی شکل حیرت انگیز طور پر بہت ملتی تھی ۔میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ کہ خالد جاوید مشہدی روزنامہ نوائے وقت کے میگزین ایڈیٹر ہیں۔اور نیاز صاحب ان کا سفرنامہء حج عنقریب شائع کر رہے ہیں۔
اس ملاقات میں نیاز صاحب نے بتایا کہ وہ حسین سحر کی بچوں کے لیے لکھی گئی کتب ، اے بی اشرف کی تنقیدی کتابیں اور ملتان کے بے شمار لکھنے والوں کی کتابیں جلد ہی شائع کریں گے۔
نیاز صاحب کیا شوق سے کھاتے تھے ؟میں نے ان کے بیٹے اعجاز احمد سے پوچھ لیا تھا ۔ان کی پسندیدہ ڈشز دسترخوان پر سجی ہوئی تھی ۔جبکہ نیاز صاحب اپنے ماضی کے رجسٹر کو کھول کے یادیں تازہ کر رہے تھے۔کہ وہ کب اور کس طرح ملتان آیا کرتے تھے ۔انہوں نے حرم گیٹ چوک پر عزیز بکسٹال کا نقشہ کھینچا ۔اندرون اور بیرون بوھڑ گیٹ کتابوں کی دکانوں کے مالکان کا احوال سنایا ۔یہ قصے سناتے سناتے انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ سنگ میل پبلکیشنز کا جب آغاز کیا تو سب سے پہلے اولیائے ملتان اور اولیائے لاہور شائع کی ۔ اسی وجہ سے جب کوئی ملتان سے دوست ان کے پاس کتاب کا مسودہ لے کر آتا ہے تو میری کوشش ہوتی ہے کہ ان کو لازمی شائع کروں اگر وہ ہمارے معیار پر پورا اترتا ہے۔نیاز صاحب کے ساتھ یہ محفل رات گئے جاری رہی ۔اگلے دن دوپہر کو ڈاکٹر اے بی اشرف نے اپنے گھر میں لنچ رکھا ہوا تھا ۔وہاں جا کر احساس ہوا کہ نیاز صاحب نے ان کی اہلیہ کو اپنی بہن بنایا ہوا تھا ۔بیگم اے بی اشرف نے اپنے ہاتھ سے ان کے لیے پرتکلف کھانا بنایا۔خاص طور پر ملتان کی روایتی ڈشیں بھی اس کھانے میں موجود تھیں ۔ڈاکٹر صاحب کے گھر جا کر معلوم ہوا کہ لاہور میں ڈاکٹر اے بی اشرف کا دوسرا گھر نیاز صاحب کا ماڈل ٹاؤن والا گھر تھا ۔
نیاز صاحب کی بے نیازی چیک کریں کہ وہ تمام بڑی بک شاپ پر گئے ۔لیکن کسی سے کوئی کاروباری بات نہیں کی ۔سب کے لیے لاہور سے روایتی مٹھائی لائے ۔اور خود پرہیزی کھانا کھانے کا بہانہ کر کے چائے پینے کے بھی روادار نہ ہوئے۔ ان ملاقاتوں کے بعد ڈاکٹر اے بی اشرف سے ایک اور تعلق نیاز صاحب کی وجہ سے بن گیا ۔جو آ ج تک قائم و دائم ہے ۔نیاز صاحب کا انتقال ہوئے عرصہ ہو گیا لیکن ڈاکٹر اے بی اشرف جب بھی ملتے ہیں۔وہ نیاز صاحب کے خانوادے کی خیریت ضرور دریافت کرتے ہیں ۔
اسی طرح جب پروفیسر حسین سحر کا انتقال ہوا تو ڈاکٹر اے بی اشرف خصوصی طور پر فاتحہ خوانی کے لیے گھر تشریف لائے ۔اور حسین سحر کو یاد کر کے آبدیدہ ہوتے رہے ۔
اسی طرح جب بھی نیاز صاحب ڈاکٹر اے بی اشرف کی کوئی کتاب شائع کرتے ہیں تو ان کی کچھ کاپیاں سب سے پہلے مجھے بھجواتے اور ساتھ یہ بھی حکم کرتےکہ یہ ان کے گھر بھجوانی ہیں ۔تعلقات نبھانے میں سنگ میل والوں کا کوئی ثانی نہیں ۔اب نیاز صاحب ہیں نہ اعجاز بھائی ۔
لیکن ان کی محبتوں کا سلسلہ افضال احمد نے سنبھالا ہوا ہے ۔وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آج ملتان کے لکھنے والوں سے اتنی محبت کرتے ہیں جتنی محبت ان کے والد گرامی کرتے تھے ۔
تمہید طویل ہو گئی اصل میں ہم نے آج آپ سے ڈاکٹر اے بی اشرف کے بارے میں کچھ باتیں کرنا ہیں ۔کہ وہ گزشتہ کئی عشروں سے ترکی میں قیام پذیر ہیں۔ان کے پاس ترکی کی نیشنلٹی بھی ہے ۔لیکن ان کا دل ملتان کے لوگوں ،یہاں کے گلی کوچوں اور اپنے پیاروں کے لیے دھڑکتا ہے ۔ان کا قلم آج بھی ویسے ہی رواں دواں ہے جس طرح ساٹھ برس قبل تھا ۔انہوں نے افسانے، سفرنامہ، تنقید، تحقیق کے علاوہ خاکے بھی لکھے۔ کہ وہ جس صنف میں لکھنا چاہتے ہیں کمال کا لکھتے ہیں۔اس وقت جتنی ان کی عمر ہے اس میں لوگ تو اپنے پیاروں کے نام اور شکلیں بھول جاتے ہیں ۔اللہ تعالی نظر بد سے بچائے ،ڈاکٹر صاحب کی نہ صرف یادداشت اچھی ہے بلکہ ان کا قلم بھی نوجوانوں کی طرح لکھ رہا ہے ۔ایسے موقع پر ایک روایتی سا جملہ یاد ا رہا ہے ۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
ڈاکٹر اے بی اشرف کے قلم کی جولانیاں اس لیے بھی ہمیں یاد آرہی ہیں۔کہ دو دن پہلے ان کے ہونہار بیٹے اور ان کی روشن خیال وراثت کے امین پروفیسر نعیم اشرف تشریف لائے ۔اور ڈاکٹر اے بی اشرف کی نئی کتاب”
ترکی میرا دوسرا وطن ”
دے گئے اور کہا میں جلد رابطہ کروں گا ۔ہم نے سوچا ان سے رابطہ بعد میں کرتے ہیں ۔پہلے اس کتاب کے ذریعے ڈاکٹر اے بی اشرف سے ملاقات تو کر لیں۔
آ ج کل ہم ہیں اور میرے سرہانے ڈاکٹر صاحب کی کتاب۔
اس کتاب میں ترکی کی تاریخ، ترکی ادبیات اور ترکی میں اردو زبان و ادب کا ایک جائزہ ، جیسے بے شمار مضامین شامل ہیں۔اس سے قبل ڈاکٹر صاحب کی 25، 30 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔لیکن یہ کتاب ایک ایسے پاکستانی کی ہے ۔جس کے پاس اب ترکی کی شہریت بھی ہے ۔اسی لیے انہوں نے اس کا نام "ترکی میرا دوسرا وطن” رکھا ہے۔
ڈاکٹر اے بی اشرف کاترکی میں موجود ہونا اہل ملتان کے لیے اس لیے بھی اچھی خبر ہے ۔کہ وہ سب ملتانیوں کے میزبان بننا پسند کرتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے ساری زندگی اردو پڑھا کر عزت پائی۔ اس کے ساتھ ترکی زبان پہ بھی عبور ہے ۔لیکن جو لطف ان سے سرائیکی زبان سننے میں ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں ۔خاص طور پر ان کی اہلیہ مرحومہ جتنے خوبصورت انداز سے سرائیکی میں بات کرتی تھی وہ حقیقی معنوں میں ملتان کی سفیر تھیں ۔ڈاکٹر اے بی اشرف کے تقریبا تمام بچوں سے میری ملاقات ہے ۔لیکن جو محبت اور پیار پروفیسر نعیم اشرف کی طرف سے ملتا ہے ۔وہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ نظریاتی طور پر جب ان کی تحریروں میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے ۔کہ جیسے وہ بھی ہم سے بچھڑی ہوئی ایک کونج ہے ۔جو گلگشت بیٹھ کر اپنا دکھ درد بیان کر رہی ہے ۔یقینی طور پر نعیم اشرف اپنے والد سے متاثر ہیں ۔ویسے بھی ان کا اپنے والد گرامی سے متاثر ہونا بنتا تھا کہ ان کے والد سے متاثر ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔
مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر اے بی اشرف اپنے خاندان کی کئی نسلوں کو دیکھ رہے ہیں ۔ یہ یقینی طور پر ان کے بزرگوں کی دعا ہے ۔کہ وہ آج بھی نوجوانوں میں نوجوان ،بزرگوں میں بزرگ دکھائی دیتے ہیں ۔وہ بھلا کتنے عرصے بعد ہی ملتان آئیں۔وہ اپنے تمام دوستوں کو چائے پہ بلاتے ہیں ۔ماضی کو یاد کر کے خوش ہوتے ہیں ۔کیونکہ یہی خوشیاں ان کو جینے کی امید دیتی ہے۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے مجھے "ترکی میرا وطن پر” اظہار خیال کرنا تھا۔اور میں ان کے حوالے سے یادوں کو تازہ کر رہا ہوں ۔اس کی وجہ یہ ہے اردو کے ایک بڑے نقاد کی کتاب پر تنقیدی نظر ڈالنا مناسب نہیں ۔کہ وہ اردو ادب کا ایک بڑا نام ہے ۔جس نے ہزاروں لوگوں کو تدریس کے ذریعے بڑا آدمی بنایا ۔کہ بڑے لوگوں کی خانقاہ سے ہر ایک کو فیض ملا کرتا ہے ۔جبکہ ڈاکٹر اے بی اشرف ایک ایسا زندہ پیر ہے۔جو مٹی کو سونا بنانے کا ہنر جانتا ہے ۔اسی وجہ سے ان کا قلم تر و تازہ ہے ۔کہ وہ آج بھی اپنا زیادہ وقت درس و تدریس اور نئے موضوعات لکھ کر وقت گزار رہے ہیں ۔
فیس بک کمینٹ