(معروف سندھی دانش ور اخلاق انصاری کے سندھی ناول ”اڈوہی“( دیمک ) کے حوالے سے ایک مضمون)
”نہ صرف طبقے بلکہ قومیں بھی ایک دوسرے کا استحصال کرتی ہیں …. کررہی ہیں…. انقلابی سوچ کوصرف یہاں تک محدود نہ کیا جائے کہ طبقات صرف دوہیں؛ ظلم کرنے والا اور ظلم سہنے والا …. کبھی کبھی خود مظلوم طبقہ …. دوسرے لفظوں میں مزدور طبقہ بھی دوسرے مزدور طبقے کا استحصال کرتا ہے جب کہ صحیح سوچ یہ ہے کہ قوموں کی آزادی ہی اصل میں حقیقی انقلابی سوچ ہے نہ کہ مظلوم مزدور کا نعرہ دے کر قوموں کے حقوق سے ہاتھ اٹھا لیا جائے ۔“
کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ دورانِ مطالعہ ایسی کوئی چیز سامنے آجاتی ہے جو نہ صرف دل ودماغ کے چوکھٹوں کو ہلا دیتی ہے بلکہ اپنی منطق میں اس قدر پُراثر ہوتی ہے کہ ہماری رائے پر اثر انداز ہونے لگتی ہے، حتیٰ کہ کبھی کبھار وہ ہماری رائے کو یکسر بدل دینے کا موجب بھی بن جاتی ہے۔
درج بالا اقتباس میں نے آج سے تین ماہ پہلے ایک ناول میں پڑھا تھا اور اس دوران میں مسلسل اس کے حصار میں رہا ہوں۔ سندھی زبان کے نام ور ادیب اخلاق انصاری کے ”اڈوہی“( دیمک ) کے عنوان سے لکھے گئے اس ناول کی تاثیر اپنی جگہ لیکن اس مؤقف نے جس طرح مجھے متاثر کیا ہے، وہ میرے لیے ناقابلِ فراموش ہے۔
ذاتی طور پر میں طبقاتی جدوجہد پہ غیر متزلزل یقین رکھتا ہوں اور آج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ دنیا میں بنیادی طور پر دوہی طبقے ہیں؛ ایک ظلم کرنے والا ‘ ایک ظلم سہنے والا ۔ باقی سب باتیں فروعی ہیں ۔قومی دھارے سے فکری جڑت کے باوجود میں نے کبھی بھی اسے طبقاتی جدوجہد پر فوقیت نہیں دی لیکن اخلاق انصاری کے ناول کے مرکزی کردار کے منہ سے نکلنے والے ان جملوں نے مجھے رک کر سوچنے پر مجبور کیا بلکہ اس کے ایک اورکردار، جو سوشیالوجی کا لیکچرار ہے، نے اپنے مدلل مؤقف کے ذریعے مجھے اس سلسلے میں مزید سوچنے کے لیے بنیادیں بھی فراہم کردیں۔ پروفیسر کہتا ہے :
”تیزی سے بڑھتی ہوئی ترقی قوموں کے کلچر کو تبدیل کررہی ہے، اس کے لیے Collective Wisdom ( اجتماعی شعور ) کی ضرورت ہے جب کہ ترقی یافتہ قومیں ( ہم سے زیادہ) Skilled ہیں …. ہماری پراڈکٹ سے زیادہ ان کا معیار ہے اور اپنی پراڈکٹ بڑھانے کے لیے وہ یہاں پر فیکٹریاں اور کارخانے لگائیں گے اور اپنے لوگ لے آئیں گے، ہماری قوم میں بے روز گاری بڑھے گی اور وہ احساسِ کمتری میں چلی جائے گی۔نہ ہمارے پاس اجتماعی قوت رہے گی اور نہ ہی کوئی مزاحمت ہوگی۔ سیاسی اور نفسیاتی طور پر کم زوری بڑھے گی۔ اجتماعی فکر کے ختم ہونے کے باعث معاشرہ انار کی کا شکار ہوگا۔ افرادی قلت پیدا ہوگی جب کہ وہ مارکیٹ بنانے کے لیے سستا اور اچھا مال بیچیں گے اور ہماری پراڈکٹ یا مال جو ہمارے کلچر کاحصہ ہی ہے ، ختم ہوجائے گا اور احساسِ کم تری کے باعث ہم اپنے اٹھنے بیٹھنے اور رہن سہن میں خود کو جاہل محسوس کریں گے۔اس نفسیاتی جنگ کو لڑنے کے لیے قوموں کا کلچر ہی ان کا ہتھیار ہوتا ہے ۔“
ناول کے کردار سندھی پروفیسر کی یہ باتیں پڑھتے ہوئے مجھے لگا کہ وہ بالکل بلوچستان سے متعلق ہی بات کر رہا ہے، بلوچ قوم کا ہی ذکر ہو رہا ہے، بلوچ سرزمین کی ہی بات ہو رہی ہے۔ میں جو پنجاب کے مزدور کو مظلوم طبقہ کا فرد ہی سمجھتا رہا ہوں، یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ کہیں وہ بھی میری سرزمین کے مزدور کے استحصال میں شریک تو نہیں ہے ؟!…. یقیناً جب وہ اپنا علاقہ چھوڑ کر میری سرزمین میں مزدوری کرنے آئے گا تو اس مزدور کا استحصال کرے گا جو اس سرزمین کا حقیقی باسی ہے اور جس کا اس کے وسائل پر اولین حق ہے جو اس کا قانونی اور جائز حق ہے، جو اس کاازلی وابدی حق ہے، جسے اس سے چھیننے کا حق دنیا کا کوئی قانون نہیں دیتا۔
پنجاب کا مزدور یقیناً تبھی قابلِ احترام ہوگا جب وہ اپنے علاقے میں رہتے ہوئے طبقاتی جنگ لڑتا رہے نہ کہ اس جنگ کے نام پر وہ ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کر کے میری سرزمین پہ آ کر آباد ہوجائے ۔47ء میں مذہب کے نام پریہی ظلم سندھیوں سے کیا گیا اور لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو یہ کہہ کر سندھ میں آباد کیا گیا کہ ہم مسلمان بھائی بھائی ہیں ۔پھر انہی بھائیوں نے اپنے بھائیوں کو صرف اجرک اور ٹوپی کی نشانی پر بندوق کا نشانہ بنایا اور آج وہی بھائی سندھ کی راجدھانی کے مالک بن بیٹھے ہیں اور ’ مہاجر قومیت ‘ کے پرچار ک ہیں۔
بلوچستان میں بھی پنجاب کے لوگ مزدور کے طور پر مزدوری کرنے آتے رہے اور اب ’بلوچستان پنجابی اتحاد ‘ بنا کر بلوچستان کے وسائل میں حصہ داری کے خواہاں ہیں۔ ہم جو کل تک انہیں مزدور بھائی سمجھ کر ان کی مہمان نوازی کرتے رہے اور انہیں آباد کار کہنے والے اپنے ہی بھائیوں سے لڑتے رہے، ان کی نفرتوں کا شکار ہوتے رہے، آج وہی ہمارے مزدور بھائی طبقے سے قوم بن گئے ہیں ۔ اور قومی مفادات، اور تحفظات کی بات کر رہے ہیں۔ کیا ان کے مفادات بلوچ قوم اور اس سماج کے مفادات سے الگ ہیں؟ اور اگر ہیں تو کیا ہیں ؟
بلوچ تو اپنی سرزمین کی خوش حالی چاہتے ہیں ۔ اس سرزمین پر بسنے والوں کو خوش حال دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ خوش حالی، سرکاری یاسرداری نہیں ہوگی بلکہ حقیقی عوامی خوش حالی ….! کیا بلوچستان میں بننے والا پنجابی اتحاد ان مقاصد سے اتفاق نہیں کرتا ؟ اور اگر کرتا ہے تو وہ خود کو اس سرزمین اور یہاں کے لوگوں کا حصہ بنانے کی بجائے جدا قومی اتحاد بنانے کی ضرورت کیوں محسوس کرتا ہے ؟ حالاں کہ یہاں کی سیاسی قیادت ان کے جان ومال کی ذمہ داری کو اپنا فریضہ سمجھتی رہی ہے لیکن اس کے باوجود تحفظات کا اظہار کیا کسی خاص قوت اور خاص مقاصد کے تحت ہو رہا ہے ؟!
کم از کم منظر نامہ تو یہی بتاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج میں طبقاتی سوال کو قومی سوال سے الگ نہیں کرسکتا، نہ ان دونوں کو الگ، الگ کر کے دیکھ سکتا ہوں۔
اخلاق انصاری کا کردار جو میری اس فکری تبدیلی کا باعث بنا، آخر میں اپنے دلائل کی بنیاد پر کہتا ہے؛
” سچا انقلابی نظریہ تو قومی جدوجہد کا نظریہ ہی ہے۔“
میں اس میں صرف ایک لفظ کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ ؛
” سچاانقلابی نظر یہ قومی، طبقاتی جدوجہد کا نظریہ ہی ہے !“
قومی سوال کو طبقاتی سوال سے اور طبقاتی سوال کو قومی سوال سے الگ نہیں کیا جاسکتا، یہی ہمارے عہد کا سچ ہے ۔ اور اس وقت قومی سوال نے طبقاتی سوال پہ فوقیت حاصل کرلی ہے، یہ ہمارے عہد کا منظرنامہ ہے، جسے کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
اس لیے آیئے قومی سوال کے نئے تناظر کو اپنے مباحث کا حصہ بنائیں ۔
(بشکریہ حال حوال)